سائنس کے سائیں

July 12, 2020

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
دھوپ چھاؤں کا ساتھ ہے، تو یہ قدرتی ہے، آگ، مٹی بھی ساتھ ہیں تو بھی قدرت کی کوئی تو کاریگری ہے۔ گرمی، سردی بھی قدرتی عنایت ہے۔ آ ب و ہوا کی تازگی سے چمن مہکتا ہے، باغ ہرے بھرے رہتے ہیں، درخت پھلوں سے لدے رہتے ہیں، آب و دانہ بھی خدا کا عطا کردہ رزق ہے کہ جس کا وعدہ خدا نے ہر بندے سے کر رکھا ہے۔ تو زندگی کا اور کائنات کا نظام خدا کے اختیار میں ہے ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ خدا کی مرضی کے بغیر ایک معمولی سا تنکا بھی جنبش کی طاقت نہیں رکھتا۔ ۔۔ایک پتہ بغیر مرضی کے۔۔۔کیوں ادھر سے ادھر نہیں ہوتا۔۔۔کائنات کے مالک کو تو بہت اچھے سے اندازہ تھا کہ میری کائنات میں بہت سے تخلیق کار، سائنسدان، محقق، تلاش کار، جستجو اور لگن والے لوگ اور مختلف صلاحیتوں کے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے، جو میری دھوپ چھائوں کا ماخذ یعنی سورج کو کھوجنے کی کوشش کریں گے، جو آگ سے آب تک کے رازو نیاز جانیں گے۔ ہوا، سمندر، پھل، پھول، درخت کے منبع و مبدا کی تحقیق کریں گے۔ پتوں کے اور تنکوں کی جنبش کار راز جانیں گے کہ یہ خدا کی مرضی کے علاوہ کیوں نہیں ہلتے۔ خدا کی عطا کردہ کائنات کی کھوج لگانا اور پھر عام لوگوں کو ا س کی آگاہی دینا ایک اچھا عمل ہے۔ اسی کھوج میں بعض لوگوں کا ذہن خود بھی کچھ نہ کچھ کرنے کی طرف راغب ہوتا ہے۔ اسی لگن میں مختلف تجربات سے گزرنا پڑتا ہے پھر علم، آگہی اور مختلف مراحل سے گزرنے کا نام ہی سائنس ہے۔سائنس اور علم سائنس اگر عمدگی سے چلتے رہیں تو ٹھیک ہے، مگر جہاں اسے قدرت کے خلاف ضد اور تصادم میں استعمال کیا وہیں پر انسان کے اندر وہمات نے جنم لینا شروع کیا، پھر کبھی اسے مذہب اور سائنس کے تصادم کا نام دیا گیا، کیونکہ سائنس کے بعض سائیں باغیانہ روش اختیار کرلیتے ہیں۔ مذہب اور سائنس کو علمیاتی مقابلے پر پہنچا دیتے ہیں۔ ان سائیں قسم کے سائنسدانوں کو سوچنا چاہیے کہ قدرت کی صناعی کا کوئی مقابلہ نہیں، مگر مذہب اور سائنس دونوں قدرت کے روپ ہیں۔مذہب اور سائنس کے کرتا دھرتائوں نے ایسے ایسے گل کھلائے ہیں کہ دونوں کو ہر صدی میں بحث و تکرار کا سامنا رہا۔ یعنی بعض مواقع پر مذہبی ٹھیکیداروں نے سائنسی ایجادات کو قدرت سے ٹکرائو کا مجرم ٹھہرایا اور وہیں ہمارے مدر پدر آزاد قسم کی سوچ رکھنے والے سائنسدانوں نے انہیں جاہل سوچ کے حامل ثابت کرنے کی کوشش کی۔ کئی سو سال تک تو اس قسم کے موضوعات پر علما، حکما، مورخین اور محققین نے کئی کتابیں تحریر کیں۔ مذہب اور سائنس کے تعلق پر مختلف نظریات پیش کیے کہ کسی نہ کسی طرح یہ سمجھ آجائے کہ سائنس اور مذہب سے متعلق مختلف نظریات میں سائنسدانوں نے یہ بھی واضح کیا کہ دونوں کی راہیں جدا ہیں، لیکن یہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے تحفے ہیں۔ سائنٹیفک فیکٹ یعنی سائنسی حقائق پر بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور پھر مذہب تو ہے ہی حقیقت وہ بھی سچی۔ کچھ سائنسدان اسے مذہب کے بغیر لنگڑی کہتے ہیں۔ابھی چند روز پہلے سائنس کے سائیوں نے ایک منطق پیش کی، وہ بھی امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کے سائنسدانوں نے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے مرد و خواتین جن کے شریک حیات ان کی بات نہ مانتے ہوں وہ دائمی ڈپریشن کا شکار ہوکر کینسر، پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر جلد مرجاتے ہیں۔ اس خبر کی شہ سرخی یوں تھی۔ ’’جن کی بیویاں بات نہ مانیں، وہ جلدی مر جاتے ہیں۔‘‘ اب بتا یئے بہت سے لوگوں کو خوب اعتراض و اختلاف ہوگا سائنسدانوں کی اس لاجک سے، خاص کر مسلم اور وہ خواتین جو شوہر کی فرماں بردار ہوں، وہ تو کہیں گی کہ اس الزام کی زد میں وہ بھی آگئی ہیں اور دنیا جانتی ہے اچھی طرح کہ عموماً بیوی کی بات شوہر نہیں مانتے۔ نیز سائنسدانوں کو اندازہ ہونا چاہیے کہ مرد کب اتنا حساس ہوا کہ وہ دائمی ڈپریشن کا شکار ہو۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک مینڈک کسی نجومی کے پاس گیا اور اپنے مستقبل کا حال پوچھا کہ کیا ہوگا؟ عامل نجوبی نے جواب دیا کہ ’’بہت جلد تم ایک خوب صورت لڑکی سے ملنے والے ہو، جو آپ کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہے گی۔‘‘ یہ سنتے ہی مینڈک خوشی سے اچھلتے ہوئے بولا۔ ’’لیکن کب مل پائوں گا میں اس سے؟‘‘ عامل بوکا۔ ’’اگلے ہفتے، بیالوجی کی سائنسی تجربہ گاہ میں۔‘‘سائنسدانوں کو سائیں اسی لیے ہم نے کہا کہ وہ اور ان سے متعلق سائنسی کرامات کہیں، کہیں بوکھلائی سی لگتی ہے، ان کے عجیب و غریب حلیے اور مزاج کی بوکھلاہٹ کی وجہ سے۔ جہاں تک سائنسی ایجادات کی بات ہے وہ ہر دور کے لیے اہم ہے۔ ان کے کام کو اور کارناموں کو سراہا بھی جاتا ہے، مگر جہاں معاملہ نفسیاتی معالجین کا ہو اور وہ بھی سائنسدان، پھر اپنے ہاتھ میں لے کر علاج بتانے لگیں تو تصادم ہونے لگتا ہے نظریات کا۔ جیسا کہ سائنسدان سائیوں کا کہنا ہے کہ جن کی بیویاں بات نہ مانیں تو وہ جلدی مرجاتے ہیں۔ سائنسدانوں نے بڑا کام نفسیاتی معالجین کا ہوتا ہے، وہ عام آدمی سے لے کر بڑے بڑے معالجین اور سائنسدانوں تک کی نفسیات سمجھتے سمجھتے خود نفسیاتی مریض ہوجاتے ہیں۔سائنسدانوں کا اہم کام آج کل کی طرح طرح کی بیماریوں اور وبائوں کی روک تھام کے لیے دوائیاں اور ویکسینیشن تیار کرنا ہے۔ پھر اس کے بعد یعنی انسانی صحت کے عوامل جان کر ان کے لیے میڈیسن کی سہولت تیار کرنا اور ساتھ میں کائنات کے راز جان کر عام زندگی کو آسان بنانا، کائنات کے مشاہدات، تجربات، علم اور روشنی کا نام ہی سائنس ہے۔ سائنسدانوں کا کام دنیا کو آگہی دینا کے خدا نے کیسی کسی انواع و اقسام سے بھرپور کائنات ترتیب دی ہے، اس میں کیسے کیسے رنگ بھرے ہیں۔ ہم سب کو ایک مذہب بھی عطا کیا کہ ہم اس پر عمل پیرا ہوکر قدرت کی متاعی سے لطف اندوز ہوسکیں، ناکہ مذہب و سائنس کا تصادم کرتا۔ ابھی تو فکر کیجیے کہ دنیا سے پانی اور خوراک ختم ہونے والی ہے، امید ہے سائنسدان سائیں نہیں ہوشیار بن کر اہم کارنامے کریں گے لوگوں کے لیے۔