سرائیکی صوبہ…نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم

July 13, 2020

تحریر…ظفر آہیر


سرائیکستان سرائیکی صوبہ‘جنوبی پنجاب صوبہ‘صوبہ مولتان فلاں صوبہ فلاں صوبہ سے ہوتے ہوئے بات جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ پر آکر ختم ہوگئی؟ سیکرٹریٹ کےلئے پہلے سے رکھی گئی تین ارب روپے کی رقمکم کرکے ڈیڑھ ارب کردی گئی اور تخت لاہور نے سیکرٹریٹ کیلئے دو ’’وائسرائے‘‘ بھی مقرر کردیے جو فوری طورپر اپنے عارضی دفاتر میں پدھار چکے ہیں اوراب یہاں بیٹھ کر سرائیکی خطہ کے لوگوں کےوہ مسائل حل کریں گےجن کو حل کرنے کا ان کے پاس اختیار ہی نہیں ۔


ملتان‘ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور ڈویژنوں پر مشتمل چار کروڑ سے زائد لوگوں کا مسکن سرائیکی وسیب!کمال کا علاقہ ہےکہ صدر مملکت سے لیکر وزیرا عظم تک‘سپیکر قومی اسمبلی سے وزیر اعلیٰ تک‘وزرات خزانہ سے وزارت خارجہ تک نگراں وزیراعظم سے لیکر الیکٹیبلز تک کی ایک بڑی تعداد‘کونسی سیاسی پوزیشن ہے جو اس علاقہ کو حاصل نہ رہی ہو۔ون یونٹ کے سربراہ نواب مشتاق گورمانی سے لیکر مارشل لاء کے کرتا دھرتائوں تک ہر قسم کا عہدہ اس خطہ کو حاصل رہا لیکن کوئی بھی عہدہ اس علاقہ کا احساس محرومی اور مسائل دور نہ کرسکا ۔اور اب علیحدہ شناخت اور صوبہ کا مطالبہ کرنے والے یہاں کے باسیوں کے ساتھ وہ مذاق کیا گیا کہ یہاں کے لوگ کنفیوژ ہیں کہ وہ اس مذاق پر ہنسیں یا روئیں۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ دو درجن سے زائد سرائیکی جماعتیں جن میں ہر ایک دوسرے کو غدار تصور کرتی ہےاور کئی دہائیوں سے’’اساںقیدی تخت لاہور دے‘‘کاتر انہ الاپ رہی ہیںنے اس مسئلے پر اتنی بھی مزاحمت نہیں کی کہ جتنا ایک لاغر بکری اپنے ذبح ہونے پر کرتی ہے‘بڑےتاجر اور سیاسی راہنماء اپنی اپنی مصلحتوں کی بناء پر خاموش ہیں اوریوںسرائیکی صوبہ محاذکی تحریک جس کی بنیاد ریاض ہاشمی اور سیٹھ عبدالرحمٰن نے 1969/70 میں رکھی تھی تقریباً دم توڑ چکیہے۔


سرائیکی صوبہ کے نعرے لگانے والوں سے راقم کا شروع سے ایک اختلاف رہا کہ صوبہ کی جدوجہد لسانی بنیادوں پر نہ کریںبلکہ اسے انتظامی مسئلہ بنائیں اور میں انہی صفحات پر سرائیکی راہنمائوں کو یہ بھی باور کروانےکی کوشش کرتا رہا کہ ’’وسیب‘‘ کے مسائل کی وجہ لاہور‘اسلام آباد میں بیٹھے حکمراں کم جبکہ مقامی جاگیردار‘سردار‘تمن دار ’’گودے‘‘اور مخدوم زیادہ ہیں۔ یہ کبھی نہیں چاہتے کہ یہاں کے مسائل حل ہوں جاگیردار سردار‘تمن دار‘وڈیرا اور گودا بالکل اُسی طرح کا ایک مافیا ہے جیسا کہ ملک میں دوسرے مافیاز ہیں۔اگر لڑنا ہے تو ان کے خلاف لڑیں جدوجہد کرنی ہے تو ان کے خلاف کریں لاہو ر اور اسلام آباد کو گالی دینے سے کچھ نہیں ملے گا لیکن سرائیکی راہنماء ہمیشہ وڈیروں کے مدح سرا رہے اور نتیجہ کیا نکلا کہ جب سرائیکی صوبہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کا وقت آیا تو یہ مخدوم اور وڈیرے بجائے صوبہ بنوانے کے سیکرٹریٹ پر راضی ہوگئے اور سیکرٹریٹ بھی وہ کہ جہاں ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جیکچھ ڈپٹی سیکرٹریزکے ہمراہ تعینات کردیے گئے اصل اختیار پھر بھی چیف سیکرٹری اور آئی جی کے پاس رکھا گیا تا کہ اہم معاملات’’لاہور‘‘کی گرفت میں ہی رہیں۔ سیکرٹریٹ بناتے وقت بھی ’’لڑائو اور راج کرو‘‘کے فارمولے کو مدنظر رکھا گیا حکمراں جماعت کے کرتا دھرتا اور حکومت کے اتحادی نورا کُشتی لڑنے میدان میں آگئے جہانگیر ترین گروپ کہہ رہا تھا کہ صوبہ بہاولپور بنے گا جبکہ مخدوم شاہ محمود اور ان کے حواری سرائیکی صوبہ کی بات کرر ہے تھے اور پھر اس کا انجام یہ ہوا کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق نہ سرائیکی صوبہ بنا اور نہ ہی صوبہ بہاولپور بلکہ تقسیم یہ کردی گئی کہ آدھے افسر ملتان بیٹھیں گے جبکہ باقی کے بہاولپور یعنی سیکرٹریٹ بنا تو وہ بھی تقسیم شدہ اب جس کو انتظامی معاملات درپیش ہوں گے اُسے بہاولپور یاترا کرنا ہوگی جبکہ پولیس کےمعاملات کےلئے ملتان آنا ہوگا۔راجن پور‘روجھان‘ڈیرہ غازی خان‘ تونسہ، لیہ، چوبارہ‘رحیم یار خان‘صادق آباد‘بہاولپور اور دیگر دور دراز علاقہ جات کے لوگ بدستور شٹل کاک ہی بنے رہیں گے بس فرق یہ ہوگا کہ انہیں ملتان اور بہاولپور سے آگے 3گھنٹے کا اضافی سفر جو پہلے لاہور کے لئے کرنا پڑتا تھا اب یہ بظاہر بچ جائے گا لیکن جو معاملات ملتان اور بہاولپور کی سرکاروں سے حل نہیں ہو پائیں گے اُس کے لئے انہیں پھر اُسی طرح لاہورہی جانا پڑے گا۔وزیر اعلیٰ اور دیگر با اختیار بدستور لاہور ہی تشریف رکھیں گے۔


محرومیوں کے ساتھ ساتھ مسئلہ یہ بھی تھا کہ رحیم یار خان کی آخری تحصیل صادق آباد جبکہ ضلع راجن پور کی آخری تحصیل روجھان کے لوگوں کو جب کوئی مسئلہ درپیش آتا تھا تو انہیں لاہور یاترا کرنی پڑتی تھی اور یہاں کے لوگوں کو لاہور جانا ’’پردیس‘‘ لگتا تھا‘اس سے بڑھ کر تخت لاہورمیں بیٹھنے والے اور وہاں سے آنے والے افسران کا رویہ تھا کہ جو اپنے آپ کو عوامی خادم کم جبکہ و ائسرائے زیادہ سمجھتےہیں‘ان رویوں سے تنگ آکر یہاں کے لوگ علیحدہ صوبہ کا مطالبہ کررہے تھے‘لیکن سیکرٹریٹ سے مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ اس کا نقصان یہ ہوا کہ پہلے سے ہی کئی آکائیوںمیں تقسیم شدہ معاشرہ میں ملتانی اور بہاولپوری کی ایک اور دراڑ پیدا کردی گئی۔


سرائیکی وسیب کے لوگوں کاسب سے بڑا مسئلہ ’’وائسرائے نظام‘‘ ہے کیونکہ یہاں روایت یہی رہی ہے کہ جو بھی سرکاری افسران تخت لاہور سے یہاں آتے ہیں ان کا رویہ ہمیشہ وائسرائےجیسا ہوتا ہے۔لاہور سیکرٹریٹ میں آئی جی‘سیکرٹریز کے دفتر کے باہر گھنٹوں انتظار کرنے والے ڈی سی‘کمشنر اور پولیس افسران جب ان علاقوں میں آتے ہیں تو ان کا رویہ جابر حاکموں جیسا ہوتا ہے اس کی بنیادی وجہ بھییہاں کے جاگیردار، وڈیرے اور مخدوم ہیں جو سرکاری افسران کے سامنےتو بھیگی بلی بنے رہتے ہیںجبکہ عوام کے سامنے خون خوار بھیڑیے‘ان کی ہمیشہ ہی پالیسی رہی ہے کہ مقامی لوگوں کو پولیس اور انتظامیہ سے ڈراتے رہو‘جھوٹے مقدمات اور پٹوار خانوں میں الجھائے رکھو اور اس مقصد کےلئے یہ افسران کو استعمال کرتے چلے آئے ہیں جس کے بدلے افسران نہ صرف اپنی من مانیاں کرتے ہیں بلکہ جی بھر کر کرپشن بھی کرتے ہیں اور وہ تھوڑے بہت فنڈز جو یہاں کے مکینوں کے لئے آتے ہیں وہ ’’وائسرئیوں‘‘ کی جیب میں چلے جاتے ہیں اس لئے کہا جاتا ہے کہ جو افسر ایک بار یہاں آتا ہے اس کا یہاں سے جانے کو دل نہیں کرتا۔


سرائیکی وسیب کے لوگوں کی آنکھیں اب کھل جانی چاہیے اور انہیں اس علاقہ کے وڈیروں اور مخدوموں کے خلاف اپنی جدوجہدتیز کرنی ہوگی کہ جو صرف اپنے مفاد کی سیاست کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے خلاف غدار غدار کے فتوے لگانے کے بجائے متحد ہونا ہوگا اور صوبہ کے مطالبہ کو ایک تحریک کی شکل دیکر’’وڈیرہ مافیا‘‘اور وائسرائے نظام سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔