بولٹن میں مسلم کمیونٹی

July 14, 2020

بولٹن کی ڈائری۔۔۔ \\\ابرار حسین
برطانیہ کے سب سے بڑے ٹائون بولٹن میں مسلمانوں کی قابل ذکر آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے یہاں کے مسلمانوں نے اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت کئی شاندار اور خوبصورت مساجد قائم کی ہیں، بولٹن کونسل آف ماسکس کی آن لائن فراہم کردہ معلومات کے مطابق بولٹن کی کل دو لاکھ اسی ہزار آبادی میں مسلم کمیونٹی کی تعداد 12فیصد ہے اور یہاں پر 28مساجد ہیں۔ بولٹن کونسل آف ماسکس کا کہنا ہے کہ یہ اس ٹائون کے 30ہزار مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ کوویڈ 19لاک ڈائون سے پہلے یہاں کے دینی مدارس میں 6ہزار بچے روزانہ دینی تعلیم حاصل کرنے آتے رہے ہیں۔ اس ملک کو اپنا مسکن بنانے والے ہمارے بزرگوں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا تھا کہ اب یہاں سے جانا ناممکن ہے اس لئے یہاں پر اپنی تہذیب ثقافت اور مذہبی اقدار کی حفاظت تب ہی ممکن ہوسکے گی کہ یہاں پر مساجد اور مدارس کی تعمیر کی جائے اس مقصد کو جہاں برطانیہ کے دیگر شہروں اور قصبہ جات میں بسنے والے مسلمانوں نے پیش نظر رکھا اور کئی جگہوں پر عالیشان دینی مدارس قائم کئے وہاں بولٹن کی مسلمان کمیونٹی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی اور دو درجن سے زائد دینی مدارس اپنے خون پسینے کی کمائی سے تعمیر کئے جن سے مغرب کے معاشرہ میں ہماری نوجوان نسل کو اپنے مذہب اور وطن سے بھی جڑے دینے میں مدد ملی۔بولٹن نے پہلی مسلم جنریشن کو 1927ء کی دہائی میں خوش آمدید کہنا شروع کیا تھا،یہاں ذکر کرتے ہیں 1950ء کی دہائی کا جب مسلمان انڈیا پاکستان اور دیگر ممالک سے آئے تھے پہلے پہل بولٹن کے مسلمان کرایہ پر گھر لے کر رہائش پذیر ہوتے رہے تاہم 1960ء کے عرصے میں بولٹن آنے والوں میں راجہ حاجی محمد فاضل مرحوم، چوہدری نادر علی، راجہ سکندر خان اور چوہدری ممتاز علی جنہوں نے اپنے گھر خریدنے شروع کردیئے تھے 1962ء کے عرصے میں پہلی کمیٹی تشکیل دی گئی جو بعدازاں اسلامک کلچرل سنٹر کی شکل اختیار کرگئی راتھ ویل سٹریٹ پر ایک مکان کو اسلامی تعلیمات سے متعلق کلاسز کا بیس بنایا گیا اور اسی عرصے میں جمعہ کی نماز پرائیوٹ گھروں میں ادا کی جاتی رہی۔ ڈربی ا سٹریٹ پر موسیٰ بھائی کی رہائش گاہ پر جمعہ کی نماز میں لگ بھگ 25افراد نے شرکت کی تھی اس وقت مسلم کمیونٹی میں مذہبی امور سے جذبات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نماز کے اوقات کار کے کلینڈر گھروں کے اندر رضاکارانہ طور پر تقسیم کئے جاتے تھے۔ ساتھ ہی جب نمازیوں کے شرکاء کی تعداد میں ہفتہ وار اضافہ ہوا اور مستقل عبادت گاہ کی تعمیر کی ضرورت کا احساس بڑھتا گیا 1965ء میں والٹر اسٹریٹ کے کارنر پر ایک گھر صرف اس مقصد کیلئے خریدا گیا جس میں اسلامی کلاسز کا اجرا ہوا۔ آج کی ہماری نئی نسل کو علم ہونا چاہئے کہ اس وقت بولٹن کی مسلم کمیونٹی کو سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بولٹن
آف ماسکس کی ویب سائٹس پر موجود معلومات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ایک وقت پہلے مدرسہ اسکول میں پولیس نے داخل ہوکر اس کو بند کردیا تھا پہلی مسجد جو لیتھم اسٹریٹ بلیک برن روڈ ایریا پر قائم کی گئی تھی کو بھی پولیس نے ابتدائی عرصہ میں بند کردیا تھا لیکن بولٹن کی مسلمان کمیونٹی نے جدوجہد جاری رکھی تھی اور لیتھم ا سٹریٹ مسجد کو دوبارہ کھولا گیا تھا اور پھر ایک نئی مسجد والٹر روڈ پر قائم کی گئی پہلی عید 1964ء میں سینر ہال میں ادا کی گئی یہ روایت ابھی جاری تھی کہ لیتھم سٹریٹ اور والٹر روڈ پر دونوں مساجد کو کونسل کی جانب سے بھی دبائو کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ ان کو بند کردیا جائے گا کیونکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ چکی تھی اور اب یہ جگہیں ان کے نمازیوں کی تعداد کو پورا کرنے اور سہولت کیلئے موزوں نہیں رہی تھیں حتیٰ کہ ایک بار نائٹ کلب کی جگہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کیلئے کرایہ پر لی گئی جسے رضا کار مذہبی فریضہ کی ادائیگی کیلئے صاف ستھرا کرتے، اللہ پاک ان رضا کاروں کو اجرعظیم عطا فرمائے، اسی عرصے میں مسلم کمیونٹی میں شدت سے کسی بڑے اور مستقل اسلامک مرکز کیلئے احساس ابھرا بولٹن کونسل نے متعدد جگہوں کی پیشکش کی مگر کوئی موزوں جگہ میسر نہیں آرہی تھی پھر اسی عرصے میں ایک چرچ اور اسکول کی عمارت واقع پیس سٹریٹ فروخت کیلئے لگائی گئی۔ اس عمارت کو آگ لگنے سے شدید نقصان پہنچا تھا اس وقت یہ عمارت مسلم برادری نے خرید لی اور ذکریہ مسجد کی بنیاد رکھی گئی ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ 1975ء میں پیر علائوالدین صدیقیؒ سجادہ نشین نیریاں شریف برطانیہ تشریف لائے، انہوں نے جب دیکھا کہ تمام مکتبہ فکر ہائے کے لوگ ایک ہی مسجد میں نمازیں ادا کرتے ہیں تو انہوں نے مسلک جماعت اہلسنت والجماعت کے لوگوں سے کہا کہ ایسا کرنا ممکن نہیں جس پر پاکستانی اور کشمیری اپنے مسلک کے مطابق نمازیں ادا کرنے کیلئے جگہ تلاش کرنے لگے 1977ء کی دہائی میں مکہ مسجد کی جگہ چرچ کی عمارت تھی جو فروخت کیلئے مارکیٹ میں موجود تھی جس کو خریدنے کیلئے کوششیں شروع ہوگئیں ابتدائی طور پر بولٹن کے چار بس ڈرائیوروں نے جن میں سالار ممتاز احمد چشتی، چوہدری عزیز احمد مرحوم، چوہدری محمد سرور اور چوہدری نورحسین نے موزلے اسٹریٹ میں نومی نامی وکیل سے اس سلسلے میں بات چیت کی جس کے ذریعے یہ عمارت 25ہزار پونڈ میں خرید لی گئی مگر خریدنے سے قبل کسی نے اس کے شیشے توڑ دیئے جس پر انہیں تھوڑی رعایت ملنے کے بعد 17ہزار پونڈ میں معاملہ طے ہوگیاپھر دوسرا مرحلہ اس کو بنانے کیلئے تھا چار ٹرسٹی بنائے گئے جن میں چوہدری ممتاز علی، چوہدری سردار علی مرحوم، چوہدری رحمداد مرحوم اور حاجی بوستان خان جو صحت کی خرابی کے باعث ان دنوں پاکستان میں ہیں پھر اس کی تمام تر ذمہ داری حاجی راجہ انور خان مرحوم پر ڈال دی گئی جنہوں نے مسجد کو اپنے آخری دم تک بنانے کیلئے جدوجہد کرتے رہے، آج اگر دیکھا جائے کہ اتنی بڑی تعداد میں دینی مدارس اس ٹائون میں قائم ہیں تو یقیناً ان کے پیچھے عزم و حوصلے کی طویل داستانیں رقم ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ مختلف مساجد اور مدارس کی موجودہ انتظامیہ کے عہدیداروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اپنے اداروں کے بانیان کی جدوجہد اور کارہائے نمایاں سے برطانیہ میں پروان چڑھنے والی نوجوان نسل کو آگاہ کرنے کیلئے بھی پروگراموں کا انعقاد کیا کریں اور اس متعلق لٹریچر مہیا کریں پھر آج یہ بھی جائزہ لیا جائے کہ جو دینی مدارس اور مساجد ہمارے اکابرین نے سخت جدوجہد کے نتیجے میں قائم کئے کیا آج یہ ان مقاصد کو بھی کما حقہ پورا کررہے ہیں جن کی بنیاد بولٹن کی مسلم کمیونٹی کی پہلی اور دوسری نسلوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے ڈالی جب کہ یہ بھی نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ یہاں پر بولٹن میں جہاں مذہبی امور کی انجام دہی کیلئے تو اب ماشاء اللہ کافی مراکز موجود ہیں وہاں پاکستانی کشمیری کمیونٹی کی سیاسی سماجی اور ثقافتی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ایک پاکستانی کمیونٹی سنٹر کا قیام ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا، حالانکہ کونسل میں پانچ پاکستانی اوریجن کونسلرز موجود ہیں، ایک ممبر پارلیمنٹ بھی اس ٹائون سے پاکستان نژاد ہیں اور کہنے کو متعدد تنظیمات پاکستان اور کشمیر کے نام پر کھڑی کی گئی ہیں مگر کمیونٹی کا یہ دیرینہ مطالبہ آج تک پورا نہیں کیا گیا۔