شکیل الرحمٰن کے ساتھ یہ سلوک کیوں؟

July 14, 2020

لگ بھگ دو ماہ سے یہ دستور ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کی پیشی سے چند روز قبل بدخواہ بے پر کی اُڑاتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جنگ‘‘گروپ نے گھٹنے ٹیک دیئے ،معاملات طے پا گئے بس اب ان کی رہائی کا پروانہ جاری ہو جائے گا۔لیکن جب عدالت سے کسی قسم کا ریلیف نہیں ملتا تو یہ دروغ گو معذرت کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔

ایسی افواہیں پھیلانے والے ایک طرف عدلیہ کو بے توقیر کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف ہمت اور حوصلے سے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے میر شکیل الرحمٰن کا قد کاٹھ اپنے تئیں کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ باتیں تراشنے والوں کو بھی یقین تھا کہ اب شکیل الرحمٰن کو ضمانت پر رہا کئےبغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ گرفتار ہوئے چارہ ماہ بیت چکے ہیں۔

یہ فیصلہ سن کر یاد آیا کہ جنرل ضیاء الحق کے24اور25مارچ 1981ء کی درمیانی شب پی سی او جاری کرنے پر چیف جسٹس انوارالحق اور سینئر موسٹ جج جسٹس دراب پٹیل سمیت کئی جج فارغ ہو گئے تو جسٹس حلیم چیف جسٹس بن گئے مگر انہیں محض قائم مقام چیف جسٹس بنایا گیا اور پھر کئی سال تک مستقل نہ کیا گیا۔

جنرل ضیا الحق بھٹو دور میں اٹارنی جنرل کا منصب سنبھالنے والے قانون دانی یحییٰ بختیار کو نشان عبرت بنانا چاہتے تھے۔اسلئے انہیں انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر خصوصی عدالت کے ذریعے پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنادی گئی۔ یحییٰ بختیار نے انصاف کے حصول کیلئے بلوچستان ہائیکورٹ سے بھی رجوع کیا مگر شنوائی نہ ہوئی تو سپریم کورٹ کی زنجیر عدل ہلائی۔10فروری 1983ء کو چیف جسٹس محمد حلیم کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بنچ نے خصوصی عدالت کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یحییٰ بختیار کو باعزت بری کردیا۔

یہ فیصلہ اس لئے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ تب تک جسٹس حلیم قائم مقام چیف جسٹس تھے اور انہیں مستقل نہیں کیا گیا تھا۔

معاملہ دراصل یہ تھا کہ یحییٰ بختیار نے 1977ء کے عام انتخابات میںبلوچستان کے حلقہ این اے 195پشین سے محمود خان اچکزئی کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اورسرکاری نتائج کے مطابق جیت گئے۔ضیا الحق نے برسراقتدار آنے کے بعد Holders of representative offices (punishment for misconduct) orderجاری کیا جس کے تحت دھاندلی میں ملوث عوامی نمائندوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی تھی

اگرچہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق یحییٰ بختیار ،محمود خان اچکزئی ،غوث بخش رئیسانی ،محمد خان باروزئی اور تاج محمد جمالی سمیت کئی افراد کو دھاندلی کا مرتکب قرار دیا گیا مگر صرف یحییٰ بختیار کو ہی انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ٹرائل کے دوران بھی سنگین نوعیت کی بے ضابطگیاں پائی گئیں۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران یہ حقیقت سامنے آئی کہ دھاندلی تو ہوئی مگر یحییٰ بختیار براہ راست ملوث نہ تھے بلکہ چیف سیکریٹری بلوچستان نصرمن اللہ نے وفاقی حکومت کے ایماء پر دھاندلی کروائی۔یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا۔

یہ فیصلہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے تحریر کیا جبکہ قائم مقام چیف جسٹس ،جسٹس محمد حلیم اور جسٹس اسلم ریاض حسین سمیت باقی ججوں نے اس فیصلے سے اتفاق کیا۔

میر شکیل الرحمٰن کے خلاف لگائے گئے الزامات یحییٰ بختیار کے مقدمے کے مقابلے میں نہایت بے بنیاد ہیںبلکہ سچ تو یہ ہے مذکورہ معاملہ سرے سے نیب کے دائرہ کار میں ہی نہیں آتا۔اگر کوئی بے ضابطگی ہوئی تو ایل ڈی اے قوانین کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔جس انداز میں میرشکیل الرحمٰن کو انتہائی ابتدائی سطح پر گرفتار کیا گیا ،اس پر کئی سوالات ہیں لیکن انہیں سردست بالائے طاق بھی رکھ چھوڑا جائے تو نیب کی طرف سے گرفتار کئے گئے افراد کو 90دن تک تحویل میں رکھا جاسکتا ہے۔

اگرچہ 90دن کی مدت پوری ہونے سے پہلے بھی کئی افراد ضمانت پر رہا ہوئے مگر جسمانی ریمانڈ کی مدت ختم ہونے پر اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے ضمانت پر رہا کیا جانا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔نیب کا طریقہ کار یہ ہے کہ شکایت یا درخواست موصول ہونے کے بعد انکوائری ہوتی ہے ،پھر بورڈ تفتیش کی منظوری دیتا ہے اور آخر میں ریفرنس داخل کیا جاتا ہے جسے آپ مقدمہ کے اندراج کا مرحلہ قرار دے سکتے ہیں ؟

اس سے بڑھ کر ناانصافی اور کیا ہوگی کہ جس شخص کے خلاف کوئی ایف آئی آر یا مقدمہ درج نہیں ،اسے چار ماہ سے حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے؟اس دوران ان کے بھائی جاویدالرحمٰن فوت ہوئے اور اب ان کی ہمشیرہ لندن میں انتقال کرگئیں۔جب یہ مقدمہ جھوٹا اور بے بنیاد ثابت ہوگا تو کیا یہ سب میر شکیل الرحمٰن کو لوٹایا جا سکے گا؟

ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ تفتیش کی منظوری ہونے کے باوجود وفاقی وزیر خسرو بختیار کو گرفتار نہیں کیا جاتا؟وزیراعظم کے مشیر بابر اعوان کے خلاف ریفرنس دائر ہو جاتا ہے ،وہی جج ارشد ملک جو اب برطرف ہو چکے ہیں ان کے ذریعے کلین چٹ لے لی جاتی ہے مگر اس دوران گرفتاری کا مرحلہ نہیں آتا۔ایک اور وفاقی وزیر پرویز خٹک کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری ہو جاتی ہے مگر انہیں حراست میں نہیں لیا جاتا۔سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نیب عدالت سے باعزت بری ہو جاتے ہیں مگر انہیں گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

سابق وزیر اعظم نوازشریف کو بھی تب تک گرفتار نہیں کیا گیا جب تک فیصلہ نہیں آگیا لیکن میر شکیل الرحمٰن کو اندراج مقدمہ سے پہلے ہی نہ صرف گرفتار کرلیا گیا بلکہ ضمانت پر رہائی بھی نہیں دی جا رہی۔

آپ نے دیکھا ہوگا جب کوئی قافلہ روکنا ہو تو میر کارواں کو نشان ِ عبرت بنا یا جاتا ہے۔ یہاں بھی صحافت کا گلا گھوٹنے کا ارادہ تھا اس لئے ’’میر صحافت ‘‘کو پابند سلاسل کردیا گیا تاکہ جب کوئی سچ بولنے یا لکھنے لگے تو اسے بتایا جا سکے ،پاکستان کےسب سے بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر انچیف کیساتھ یہ سلوک ہو سکتا ہے توتم کس کھیت کی مولی ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)