وزارتِ خارجہ میں کیا ہو رہا ہے؟

July 14, 2020

جو بھی مشن سے ہٹ جائے، غداری کرے، اُسے سزا ضرور ملنی چاہئے۔ اُسے چھوڑ دینا ایسے ہی ہے جیسے سانپ کو چھوڑ دیا جائے۔ گزشتہ سال فوج نے غداری کے مرتکب لیفٹیننٹ جنرل جاوید کو تیرہ برس قید کی سزا دی۔ جرم کی سنگینی پر بریگیڈیئر راجہ رضوان کو سزائے موت دی۔

فوج نے تو یہ کام کر لیا کیا ہمارے باقی ادارے ایسا سوچتے ہیں، پانی سے بھرے ہوئے دریائوں کو خشک بنانے والے ایک افسر سے کسی نے پوچھا؟ ہماری ہریالی کے دشمن کے بارے کسی کو پتا ہے کہ وہ آج کل کس ملک میں رہتا ہے؟ کئی شعبوں کے افراد کو تو دشمن سے ملاپ کا موقع نہیں ملتا مگر وزارتِ خارجہ کے افراد کا تو اکثر دشمن سے پالا پڑتا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ذمے ملکی مفادات ہوتے ہیں مگر آج تک کسی نے اس وزارت کے افسران سے پوچھا ہی نہیں کہ کیا کر رہے ہو۔

بیرونی دنیا میں ہمارے بعض سفیر بزنس سیٹ کرتے ہیں، اپنی اولاد سیٹ کرتے ہیں، اپنی کمیونٹی سے ملنا توہین سمجھتے ہیں، کئی سفیروں کو ملک سے زیادہ بزنس اور بچوں کی فکر لاحق رہتی ہے۔ سفیروں کی یہی سوچ اُنہیں دولت کی ہوس میں مبتلا کرتی ہے اور پھر وہ دولت کیلئے وہ کھیل بھی کھیل جاتے ہیں جو کسی بھی قیمت پر نہیں کھیلنا چاہئے۔ سفارت خانوں میں تعینات چھوٹا عملہ بھی انہی چکروں میں پڑا رہتا ہے، ان میں سے کئی ٹیکسی ڈرائیو کرتے ہیں، افسوس ہمارے بعض سفارت خانوں سے پاکستانیت کم اور ذاتی مفادات کا پیغام زیادہ جاتا ہے۔

قصے کہانیاں بہت مگر یہاں صرف دوچار ہی بیان کروں گا، اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہماری وزارتِ خارجہ میں کیا ہو رہا ہے؟ حال ہی میں کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ ہوا تو سلامتی کونسل کی طرف سے مذمتی بیان روکنے کیلئے بھارت بہت سرگرم ہوا مگر ہمارے دوست چین نے ساری سرگرمی پر پانی پھیر دیا۔ بھارت آج سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ بھارت کو سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن بنوانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔

اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب نے ایک اہم اجلاس میں انڈیا کو سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن بنانے کی حمایت کی۔ گزشتہ برس ایک اہم عہدیدار کو اچانک عہدے سے ہٹایا گیا پھر اُس کی سابق وزیراعظم سے لندن میں ملاقاتیں ہوئیں۔

گزشتہ برس وزیراعظم عمران خان کی اقوامِ متحدہ میں تقریر سے محض ایک روز قبل اقوامِ متحدہ کی سب کمیٹی کا حافظ سعید سے متعلقہ خفیہ مراسلہ کس نے افشا کیا؟ نیو یارک میں پاکستانی وزیراعظم سے سکھوں کا ایک وفد ملنا چاہتا تھا، خالصتان تحریک سے وابستہ یہ وفد بتانا چاہتا تھا کہ بھارتی حکومت سکھوں پر کس طرح ظلم وستم کر رہی ہے مگر عین آخری لمحات میںیہ ملاقات منسوخ کر دی گئی، سکھ ناراض ہوئے، ہمارے ادارے بھی ناراض ہوئے مگر کام لگ چکا تھا۔

ہمارے سفارتخانوں پر غریب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ خرچ ہوتا ہے مگر دفترِ خارجہ کو اس سے کیا؟ ہمارے ایک درجن سے زائد سفیروں کی بیگمات غیرملکی ہیں، غیرملکی بیویوں کے حامل سفیر بعض اوقات بیگم کے ملک کے حامی بن جاتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ کو اس واقعہ سے ہوگا۔

ایک صاحب سابق دور میں وزارتِ خارجہ میں اہم عہدیدار تھے۔ ہر وقت وزیراعظم کی خوشامد کرتے تھے، انہیں خوشامد کا صلہ یہ دیا گیا کہ گریڈ بائیس کی پوسٹ پر سابق سویت یونین کے ایک ملک میں پاکستان کا سفیر لگا دیا گیا حالانکہ وہ گریڈ بیس میں تھے۔ ابھی انہیںچند مہینے ہوئے تھے کہ وہاں کی وزارتِ خارجہ نے ڈپلومیٹک کیبل کے ذریعے ایک مفصل رپورٹ بھجوائی۔

اس رپورٹ میں سفارتی آداب کی خلاف ورزیوں کے علاوہ ایک سنگین بات بھی تھی۔ اُس ملک کے ادارے حیران تھے کہ پاکستان اور اُس ملک کے مابین ہونے والی خفیہ باتیں امریکہ تک کیسے پہنچ جاتی ہیں پھر پتا چلا کہ سفیر صاحب کی بیگم امریکی ہے۔

جونہی یہ رپورٹ ملی تو وزارتِ خارجہ نے سفیر کو واپس بلا لیا اور قاضی خلیل اللہ کو وہاں سفیر تعینات کر دیا۔ ایک روز پاکستان میں تعینات اُس ملک کے سفیر نے نامزد سفیر قاضی خلیل اللہ سے طنزاً کہا ’’آپ کی بیوی امریکن تو نہیں‘‘ اس پر قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ نہیں اس کا تعلق سندھ سے ہے۔اس خوفناک رپورٹ کے بعد بھی اُس عہدیدار کوسزا نہ ملی بلکہ اسے یورپ ڈیسک کا انچارج بنا دیا گیا۔

دو برس پہلے ایک پاکستانی ہائی کمشنر نے غیرسفارتی آداب اپنائے، ایک فنکشن کو چار چاند لگائے،وزیر خارجہ نے صرف نوٹس لیا تو سیکرٹری خارجہ نے جنوبی امریکہ میں سفیر کے طور پراُس کے نام کی منظوری لے لی۔ اِن صاحب کو بھی کسی اور کی طرح گریڈ بیس میں ہوتے ہوئے گریڈ بائیس کی پوسٹ پر ایک یورپی ملک میں ہائی کمشنر تعینات کیا گیا۔

خواتین و حضرات! صرف دو سادہ سوال ہیں کہ کیا سفیر لگانے سے قبل جوائنٹ انٹیلی جنس کلیئرنس نہیں ہوتی؟ غلطی پر سزا کیوں نہیں ہوتی؟ طاہر حنفی یاد آ گئے کہ

آنکھیں ترے مزاج کےسانچوں میں ڈھال کر

بدلے میں لے کے آ گیا ہوں رتجگوں کی راکھ