میں بال بال بچ گیا

July 14, 2020

سوچا تھا، آج میں اپنا خوف، اپنا ڈر، اپنی ہیبت آپ سے شیئر کروں گا۔ اپنی ہیبت، اپنا ڈر، اپنا خوف مجھ تک محدود نہیں ہیں۔ یہ ہم سب کی مشترکہ میراث ہے۔ بہت چاہنے کے باوجود ہم اپنی میراث کے منکر نہیں ہوسکتے۔ ایک نہ ایک دن ہم سب کو اس خوف، اس ڈر، اس ہیبت سے گزرنا ہے۔ پچھلے ہفتہ اپنے ہم عمر ہم عصر کرکٹ کے کھلاڑی خالد وزیر کے اس دنیا سے کوچ کرجانے پر کچھ کہنا چاہتا تھا۔

خالد وزیر پاکستانی کرکٹ کھلاڑیوں کی پہلی اور دوسری کھیپ سے تعلق رکھتا تھا۔ خالد وزیر کے انتقال کی خبر پڑھ کر میں ماضی بعید کی طرف لوٹ گیا تھا Travel back in time۔

اگلے منگل کے روز میں آپ سے کراچی میں کرکٹ کے اوائلی دور کی باتیں کروں گا جس دور میں خالد وزیر، وائس میتھائس اور حنیف محمد کھیلتے تھے۔

پی آئی اے کے پائلٹوں کے بارے میں لگاتار بحث مباحثے سنتے سنتے میں نے اپنے وجود میں بے چینی سی محسوس کی ہے۔ جھنجھناہٹ محسوس کی ہے۔ مجھے اب تک یقین نہیں آرہا کہ پی آئی اے کے ہوائی جہاز نالائق اور جعلی پائلٹ اڑاتے رہے ہیں۔ مگر ہوا بازی کے منسٹر صاحب بار بار ٹیلی وژن اسکرین پر نمودار ہوکر ہمیں یقین دلواتے رہے ہیں کہ پی آئی اے نالائق پائلٹوں سے بھرا ہوا ادارہ ہے۔ پورے ادارے میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ اپنی یونیورسٹی کی جانب سے میں نے برسہا برس ہوائی سفر کیا ہے۔

وہ سفر میں نے زیادہ تر پی آئی اے کے ہوائی جہازوں میں کیا تھا۔ ان جہازوں کے پائلٹ پاکستانی ہوتے تھے۔ وزیر موصوف صاحب کی بات اگر مان لی جائے تو پی آئی اے کی ہر تیسری چوتھی فلائٹ کو لازمی طورپر حادثے کا شکار ہونا چاہئے تھا۔ مجھے حیرت ہے کہ میں اب تک زندہ کیسے ہوں۔ اس قدر نالائق پائلٹوں کے ہوتے ہوئے مجھے بہت پہلے کسی ہوائی حادثے میں مرکھپ جانا چاہئے تھا۔ مگر میں حیرت انگیز طور پر زندہ ہوں۔

وزیر موصوف کی باتیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ میں نے کئی مرتبہ ایسی اڑانوں میں سفر کیا تھا جن کا دورانیہ لگاتار بارہ گھنٹے سے زیادہ ہوتا تھا، خاص طور پر کراچی سے نیویارک اور سڈنی آسٹریلیا آتے جاتے ہوئے۔

میں اعداد و شمار کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چھ سات دہائیوں سے اڑنے والے پی آئی اے کے جہاز چھ سات مرتبہ سے زیادہ بار حادثوں کا شکار نہیں ہوئے ہوں گے۔ حیران کن بات ہے کہ جعلی پائلٹ پی آئی اے جہاز چلا رہے ہیں اور مجموعی طور پر حادثوں کی تعداد اس قدر کم ہے! انتظامیہ کے لئے کیسے ممکن ہے کہ تین چار سو مسافروں کی زندگیاں ایک نالائق جعلی پائلٹ کے حوالے کردے۔ یہ ہو نہیں سکتا۔

آپ اپنی گاڑی چلانے کے لئے ایک ٹرک ڈرائیور کو اپنا ڈرائیور تو رکھ سکتے ہیں۔ مگر آپ ایک رکشہ چلانے والے کو اپنا ڈرائیور نہیں رکھ سکتے۔ سنا ہے کہ پی آئی اے کے جہاز کچھ ایسے پائلٹ بھی اڑاتے رہے ہیں جن کی تعلیم نامکمل اور جہاز اڑانے کا خاطر خواہ تجربہ نہیں تھا۔ وہ بیس پچیس برس بڑی مہارت سے جہاز اڑاتے رہے اور ایک مرتبہ بھی فلائٹ، ٹیک آف اور لینڈنگ کے دوران نااہلی نہیں دکھائی۔

ریٹائر ہوچکے ہیں۔ سنا ہے کہ ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ ان سے ان کی بیس پچیس برس کی تنخواہیں، مراعات، بونس وغیرہ واپس لئے جائیں گے۔ ان کی جائیدادیں ضبط کی جائیں گی۔ آپ یہ مت سوچیں کہ ان پائلٹس کا جرم کیا تھا، سوائے اس کے کہ ان کے پاس ہوائی جہاز اڑانے کا لائسنس نہیں تھا۔ ٹیک آف، فلائٹ اور لینڈنگ کے دوران انہوں نے کبھی بھی غیرپیشہ ورانہ رویوں کا ثبوت نہیں دیا تھا۔ یہ الجھا ہوا اور پیچیدہ معاملہ ہے۔ کسی کا کوئی نقصان نہ کرنے کے باوجود آپ کو سزا ہوجاتی ہے۔ اسی نوعیت کا آپ ایک غیرمعمولی اور حیران کن قصہ سنیں۔

تقریباً پچاس برس کے لگ بھگ پرانا قصہ ہے۔ جائے وقوع ہے، ڈائو میڈیکل کالج کراچی۔ ڈائو میڈیکل کالج اب یونیورسٹی بن چکا ہے۔ یہ قصہ ہے ایک حلیم الطبع نامور سرجن کا۔ میں ان کا نام بھول رہا ہوں۔ بڑھاپے کی نمایاں نشانیاں مجھ پر ظاہر ہونے لگی ہیں۔

میں نام بھولنے لگا ہوں۔ پروفیسر سرجن کا قصہ مجھے یاد ہے۔ ان کے بارے میں اخباروں میں خبریں آتی رہتی تھیں۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کے ہاتھوں کئے گئے آپریشن کبھی ناکام نہیں ہوتے تھے۔ پیچیدہ سے پیچیدہ آپریشن سے گزر کر مریض صحت یاب ہوجاتے تھے۔ تب کسی نے حکام کو خفیہ خبر دی کہ سرجن پروفیسر نقلی تھا۔

اس کے پاس سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں کسی اور کی تھیں جس کے نام سے وہ برسوں سے ڈائو میڈیکل کالج میں سرجری کررہا تھا اور طلبا کو سرجری سکھا رہا تھا۔ جے آئی ٹی قسم کی ایک کمیٹی بنائی گئی۔ پتہ چلا کہ وہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر میں ایک ڈاکٹر کی کلینک میں اس کا کمپائونڈر تھا۔ چھوٹے موٹے آپریشنز کے دوران ڈاکٹر کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ اچانک ڈاکٹر کا انتقال ہوگیا۔ ڈاکٹر کی اولاد نہیں تھی۔ اس کے رشتہ دار بھی کچھ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ تب ہمارے قصور وار سرجن پروفیسر نے، جب وہ کمپائونڈر تھے، مرحوم ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں اٹھائیں، اپنا نام بدلا، اور کراچی آگیا۔ ان دنوں شناختی کارڈ متعارف نہیں ہوا تھا۔

کراچی کے کسی پسماندہ علاقہ میں کلینک کھول کر بیٹھا۔ قدرت نے اس کے ہاتھ میں بے پناہ شفا دی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہوگیا۔ نام کمایا۔ ڈائو میڈیکل کالج میں اسامیوں کے لئے اشتہار آیا۔ ہمارے قصے کے کردار نے سلیکشن میں ٹاپ کیا۔ ڈائو میڈیکل کالج میں ڈاکٹر بنے۔ سرکاری گرانٹ پر سرجری میں اسپیشلائز کرنے بیرون ملک گئے۔ واپس آئے۔ اتنی عزت اور شہرت ملی کہ سب دنگ رہ گئے۔ اور پھر خفیہ خبر نے سب کچھ تہس نہس کردیا۔

جس شخص کے ہاتھوں ہزاروں مریضوں کو صحت یابی نصیب ہوئی تھی، اس کو فراڈ، دھوکا دہی اور کسی اور کا نام اپنانے کے جرم میں لمبی قید بامشقت ملی۔ میں آج تک سوچتا رہ جاتا ہوں کہ اس نے کسی کا کیا نقصان کیا تھا؟ قانون کے پیچیدہ نکتے ہم بونگوں کی سمجھ میں نہیں آتے۔