وشال ملہوترا کے والد نے بیٹے کے قتل کی ازسرنوتفتیش کامطالبہ کردیا

July 15, 2020

لندن (پی اے) 39 سال قبل قتل کئے گئے 8سالہ لڑکےوشال ملہوترا کے والد نے اپنے بیٹے کے قتل کی ازسرنوتفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ بی بی سی کی تفتیشی رپورٹ کے مطابق وشال ملہوترا 1981 میں ویسٹ لندن سے غائب ہوگیاتھا اور 7ماہ بعد اس کی باقیات ملی تھیں۔ مقتول کے والد وشمبر نے بتایا کہ بی بی سی کی حاصل کی گئی اطلاعات اور سزایافتہ پیڈوفائلز کے انٹرویوز سے حاصل کردہ معلومات سے بڑے انکشافات ہوئے تھے۔ سسیکس پولیس کا کہناہے کہ اس معاملے کی دوبارہ تحقیقات کرانے کا ان کا فی الوقت کوئی ارادہ نہیں ہے، وشال 29جولائی 1981 کوشہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کی شادی کے دن غائب ہوا تھا، اس وقت اس کی فیملی سینٹرل لندن میں پریڈ دیکھ رہی تھی اور پٹنے کے راستے میں تھے، جہاں سے وہ غائب ہوا تھا،اس کی باقیات ویسٹ سسیکس میں ہیمپشائر کے قریب واقع ایک دوردراز علاقے ریگوٹ کے ایک فارم سے کبوتروں کاشکار کرنے والوں کو ملی تھیں، 1983میں اس کی موت کی تحقیقات کے دوران کھلی گواہی ریکارڈ کی گئی لیکن ویسٹ سسیکس کے کورونر مارک کلورٹ لی نے کہا کہ کچھ غلط ہوسکتا ہے، سسیکس پولیس نے اس بات کی تصدیق کی کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں سزا پانے والے 3 افراد سے وشال کے قتل کے بارے میں 2019 میں پوچھ گچھ کی گئی تھی، ان میں سے ایک شخص نے انکشاف کیا تھا کہ اس نے 1983 میں برطانیہ میں ایشیائی بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے وشال کے عنوان سے ایک کنفیڈنشیل رپورٹ تیار کی تھی، اس کے باوجود سسیکس پولیس کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مزید تفتیش کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ وشمبرملہوترا نےسوال کیا ہے کہ آخر میرے بیٹے کا نام بار بار ایک پیڈوفائل نے، جو پولیس کی حراست میں تھا، لکھا تھا اور پولیس کا فیصلہ ہے کہ اب کسی تفتیش کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔سسیکس پولیس نے دو ہفتے قبل ملہوترا کے گھر پہنچ کر انھیں بتایا کہ انھوں نےاس شخص سے ان کے بیٹے کے قتل کے بارے میں تفتیش کی تھی۔ انھوں نے انھیں بتایا کہ اس میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی اور وشال کے زیر عنوان تیار کردہ ڈاکومنٹ کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ ملہوترہ کا کہنا ہے کہ مجھے شدید حیرت ہوئی اور دھچکہ لگا۔ انھوں نے کہا کہ میرا تو یہی خیال ہے کہ وہ اس معاملے کو قالین کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کوششیں 38سال قبل شروع ہوئی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں تھک گئے ہیں۔ اس کے جواب میں سسیکس پولیس کا کہناہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ 2019کی معلومات میں کوئی بڑا انکشاف ہے۔ فورس کا کہناہے وہ ان معلومات کو نہ تو افشا کرسکتے ہیں نہ ہی اس کی تصدیق کریں گے، گزشتہ سال جس پر غور کیا گیا تھا لیکن یہ بتایا کہ انکوائری افسران نے تفصیلی معلومات حاصل کیں۔ ایک ترجمان نے بتایا کہ یہ معاملہ اب بھی حل طلب ہے اور دیگر ایسے معاملات کی طرح ہر دوسال بعد اس کاتجزیہ کیا جاتا رہے گا اور 40 سال بعد بھی وشال اور ان کی فیملی سے ملنے والی کسی نئےتفتیشی رخ پر جس سے حقائق سامنے آسکتے ہوں، تفتیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ پولیس نے 3 افراد میں سے جن2 افراد سے وشال کے قتل کے بارے میں پوچھ گچھ کی، انھوں نےبتایا کہ وشال جب غائب ہوا اس وقت پیڈوفائل کے گروہ سرگرم عمل تھے، وشال نامی رپورٹ کے مصنف سے بی بی سی نے انٹرویو کیا، جس میں اس نے بتایا کہ یہ ڈاکومنٹ ایک لڑکے کے بارے میں سائوتھ ہال ویسٹ لندن میں، جس سے ملاقات کی تھی، اس میں ایک بچے کا بھی ذکر کیا گیا ہے، پیڈوفائل سیکس گروہ میں شامل ایک سزایافتہ پنشنر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس نے بے سہارا بچوں کے اسکول میں 1980میں ملازمت کے دوران بھارتی نژاد دو لڑکوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس نے کہا کہ اسے یاد نہیں کہ شہزادہ چارلس اور ڈیانا کی شادی والے دن، جس دن وشال غائب ہواتھا وہ کہاں تھا، اس نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ اس کا وشال ملہوترا کے قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس نے اپنے پرائیویٹ ڈاکومنٹ کا نام وشال رکھنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ سسیکس پولیس کے سابق تفتیشی چیف سپرنٹنڈنٹ کیون مور نے کہاکہ بی بی سی نے جن نئی معلومات کی نشاندہی کی ہے، ان کی بنیاد پر پورے معاملے کو دوبارہ دیکھا جاسکتا ہے اور فارنسک دوبارہ تفتیش کی جاسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انکوائری کے مخصوص خطوط ہوتے ہیں اور اس سے دوسرے راستے کھلتے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس میں کون ملوث ہوسکتاہے۔ سسیکس پولیس کا کہنا ہے کہ2019 میں ان کی تفتیش میں یہ پتہ چلانا شامل تھا کہ کیا ان کے پاس کوئی ایسی معلومات ہیں جن سے وشال کے قتل کے حل نہ ہونےوالے مقدمے کے بارے میں کوئی سرا مل جائے لیکن ایسا کوئی سرا نہیں مل سکا۔ ایک ترجمان نے مزید بتایا کہ وہ کسی سے بھی مزید معلومات حاصل کرنے کوتیار ہیں غیر حل شدہ کیس نئی معلومات سامنے آنے پر کسی بھی وقت کھولے جاسکتے ہیں۔