پاکستانی بوائز

July 15, 2020

خیال تازہ … شہزادعلی
لوٹن کے ایک سرکاری تعلیمی ادارے میںپاکستان نژاد جمیل احمد اعلیٰ منصب پر فائز ہیں، درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق اور ریسرچ سے بھی خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں، کمپیوٹر سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی، لنگویسٹکسlinguistics اور ایجوکیشن ان کے دلچسپی کے موضوعات ہیں، اکیڈمک لیول پر کمیونٹی بچوں کی انڈر اچیومنٹس پر ریسرچ کام کر چکے ہیں تاہم جیساکہ کہتے ہیں کہ بعض محققین کے لیے علم سیکھنے کی کوئی حدود متعین نہیں کی جاسکتی اسی طرح جمیل احمد بھی اپنا علمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔جمیل احمد کی فائنڈنگز سے متعدد کامن تھیمز common themes سامنے آئے تھے کہ والدین اور اسکولوں کے مابین کمیونی کیشنز ، رابطوں کی کمی نوٹ کی گئی ہے، مزید والدین کی اپنے بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں میں انوالومنٹ کا بھی فقدان پایا گیا، اس ریسرچ میں متعدد امور پر اسکول، والدین اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے لیے تجاویز پیش کی گئی تھیں، جن میں یہ بھی شامل تھا کہ اسکول اور والدین کے علاوہ مذہبی اداروں کے درمیان مضبوط پارٹنر شپ قائم کرنے سے خاطر خواہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے، کیوں کہ مساجد اور مدارس کا ہماری کمیونٹی پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے لیکن ریسرچر نے معلوم کیا کہ مساجد کا اسکول کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط نہیں، اسی طرح متعدد دیگر عوامل و عوارض کو وسیع طور پر گہرائی سے زیر بحث لایا گیا اور وے فارورڈ سامنے رکھا گیا تاہم ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اس طرح کی ریسرچ اور تحقیق کے کام کو کمیونٹی، اسکول لائف اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ وسیع طور پر متعارف کرانے کی ضرورت ہے ، گزشتہ ہفتے انہی اکیڈمک جمیل احمد کی ترغیب پر پاکستانی بوائز Pakistani Boys کے موضوع پر پروفیشنل ڈویلپمٹ کا ایک تربیتی سیشن اٹینڈ کرکے اس اہم موضو ع پر فرسٹ ہینڈ معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا، اس سیشن میں پاکستانی بچوں کے حوالے رحجانات کو تحقیق اور اعدادوشمار کے ساتھ پیش کیا گیا اور ان کے تدارک کے لئے سٹریٹجییز بھی تجویز کی گئیں _۔اس سیشن کا نچوڑ یہ تھا کہ برطانیہ کے اندر پاکستانی کمیونٹی کا عمومی میڈیا پرسپیشن منفی نوعیت کا پیش کیا جاتا ہے، جب ہم وسیع تر پیمانے پر نظر دوڑائیں، مسلم کمیونٹی کی ذرائع ابلاغ میں منظر کشی، (جبکہ اکثر و بیشتر پاکستانی اور مسلم ہم مترادف لیے جاتے ہیں) ادارتی تعصب، صحت، جسمانی غربت و افلاس پسماندگی کے ایشوز اور نتیجہ کے طور پر پر ان بچوں کی تعلیم پر نیگیٹو امپیکٹ تو عمومی تصویر مدہم سی ابھرتی ہے اس کمیونٹی سے متعلق اکثر لڑکے اپنے ہم عصر لڑکوں کی نسبت کم تعلیمی استعداد کا مظاہرہ کر رہے ہیں جب وہ مین سٹریم اسکولنگ سے فارغ ہوتے ہیں تو اپنے ساتھیوں سے تعلیمی اعتبار سے پیچھے رہ جاتے ہیں، اس صورت حال کا اسکولوں اور دیگر اسٺیک ہولڈرز کو ادراک ہونا چاہئیے اس مقصد کے لیے تمام عملہ کو پیشہ ورانہ تربیتی کورسز کرائے جائیں اس موضوع کو نصاب کا حصہ بنایا جائے ۔ جو والدین پیرنٹس ایوننگز کے سٹیشنز مس کر جاتے ہیں اگلی مرتبہ ان کو ترجیح طور پر یاددہانی کرائی جائے اور اپائیننٹس میں فوقیت دی جائے ۔ والدین اپنے بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں میں بھرپور طور پر دلجمعی سے شامل ہوں انہیں اسکول اپنے تعلیمی دوروں پر اپنے بچوں کے ساتھ جانے کی موثر طریقوں سے ترغیب دیں ۔اس سیشن کا اہتمام ایک خاتون ٹیچر صنم نے کیا تھا، مہیا کی گئی معلومات کے مطابق یہ گولڈ ایمبیسڈرُ برائے ایجوکیشن پارلیمنٹ ہیں ان کی یہ کاوش واقعی ایک قابل قدر کوشش ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جمیل احمد ، محترمہ صنم اور اس طرح کے تخلیق کاروں کی کاوشوں کو آگے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے اور اٹھائے گئے نقاط کو آن بورڈ کرنا ہی اس طرح کے مسئلہ سے عہدہ برآ ہونے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ان کالموں کے ریڈررز کو بخوبی علم ہے کہ یہاں پر اکثر و بیشتر کمیونٹی کے اس سلگتے ہوئے مسئلہ کی اہمیت پر بات کرنے کی سعی کی جاتی رہی ہے ، ہمارے لیے بطور ایک کمیونٹی یہ امر کسی بھی طور خوش آئند نہیں قرار دیا جا سکتا کہ برطانیہ میں بھی اپنی کمیونٹی کے لڑکے جیسا کہ بعض ریسرچ بتاتی ہیں اپنے ہم عصر دیگر برادریوں کے لڑکوں سے تعلیم کے لحاظ سے پسماندہ رہ گئے ہیں ، عمومی طور پر بھی کمیونٹی بچے انڈر اچیورز ہیں اور پاکستانی لڑکوں کی تعلیمی استعداد کی جو تشویشناک صورت حال سامنے آرہی ہے اس پر برطانیہ بھر میں کمیونٹی سے اصل ہمدردی رکھنے والے باشعور افراد کو فرنٹ لائن پر کام کرنے جیب اشد ضرورت ہے ۔ صنم کی جانب سے پاکستانی بوائز تربیتی۔ سیشن کا انعقاد اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستانی لڑکوں کی تعلیمی صورت حال قابل توجہ ہے ۔ پہلے نجیب کمیونٹی کے باشعور اور اکیڈیمک حلقے ان حوالوں سے مختلف سطح پر اپنے اپنے دائرہ کار میں تشویش اور فکر کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں مگر معلوم یہی ہوتا ہے کہ ہماری کمیونٹی میں اس مسئلہ کو گھر گھر کی سطح پر سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ، بعضں جگہوں پر خوش گوادر مثالیں بھی موجود ہیں جہاں پر پاکستانی بوائز نے شاندار کارکردگی کا انفرادی طور پر ہی نہیں بحیثیت ایک تعلیمی ادارہ بھی شاندار پرفارمنس دکھائی مگر ضروری ہے کہ برطانیہ بھر میں پاکستانی لڑکیوں کے علاوہ پاکستانی لڑکے بھی ہر سطح پر شاندار تعلیمی کارکردگی دکھائیں ، والدین بچوں کو ترغیب دیں کہ وہ تمام کمیونٹیز کے بچوں کے ساتھ باہم مل کر اس سوسایٹی میں اپنے حصے کا کردار اادا کریں اپنے فرینڈز کا دائرہ وسیع کریں ، تمام اساتذہ کی عزت و احترام کے جذبوں کو فروغ دیں۔ اور جو تفاوت ہے اس کو پاٹنے کی کوشش کریں۔اس موضوع پر ابھی ایک اور تحقیق برٹش پاکستانی بوائز، ایجوکیشن اور دی رول آف رلیجن راقم کے زیر مطالعہ ہے، اس کے مصنف ایک محقق کرامت اقبال ہیں۔British Pakistani Boys, Educationand the Role of Religionاس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی بچے یوکے اسکولز میں دوسری بڑی اقلیت ہیں لیکن اس لمحہ فکریہ کو اجاگر کیا ہے کہ اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ان کی ضروریات کے مطابق تحقیق اور ریسرچ نہ ہونے کے برابر ہے،اس ریسرچ میں بھی یہ توجہ بھی دلائی گئی ہے کہ پاکستانی بچوں کی تعلیم میں مذہب کا رول کلیدی حیثیت رکھتا ہے جبکہ اسکولز کی ورک فورس میں اس کمیونٹی کی نمایندگی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے _ ۔محقق کرامت اقبال کی اس موضوع پر تحقیق کمیونٹی کی سماجی اور ثقافتی ترقی، پش رفت کے ڈھانچے (ڈویلپمنٹ آف سوشل اینڈ کلچرل انفراسٹرکچر) پر پس پردہ مناظر پیش کرتی ہے، انہوں نے پاکستانی طلبہ کی اچیومنٹ کی قومی سطح پر صورتحال کو بھی آوٹ لائن کیا ہے، تاہم اس تحقیق کا مرکز برمنگھم ہے، جہاں پر پاکستانی کمیونٹی کی قابل ذکر آبادی ہے۔ریسرچ بتاتی ہے کہ انگلینڈ میں اقلیتی برادریوں کی انڈر اچیومنٹ کو ریمپٹن 1979 اور سوان 1985 دو گورنمنٹ رپورٹس میں تسلیم کیا گیا، جبکہ ایک وقت ماہرین تعلیم اور پالیسی میکرز میں یہ اعتقاد پایا جاتا تھا کہ ایشیائی بچوں کی تعلیمی کارکردگی متعلق کسی تشویش کی ضرورت نہیں، جبکہ بلیک کیریبین بچوں کی ضروریات کو ان کی کمیونٹی کے دباؤ اور تگ و دو کے باعث شناخت کیا جا چکا تھا۔ (جاری ہے)