معیشت کی زبوں حالی کا ذمہ دار کون؟

July 15, 2020

برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں اپوزیشن اپنے شیڈو وزراء کا اعلان کرتی ہے جن کی توجہ متعلقہ وزراء کی پالیسیوں اور کارکردگی پر مرکوز ہوتی ہے اور شیڈو وزراء خراب کارکردگی پر حکومتی وزراء کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

پاکستان میں ایسی کوئی روایت نہیں تاہم تحریک انصاف وہ واحد جماعت ہے جس کے سربراہ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ اُن کی حکومت میں اسد عمر وزیر خزانہ ہوں گے۔ تاثر یہ تھا کہ اسد عمر کو معیشت پر عبور حاصل ہے اور 7فیصد جی ڈی پی، 5500ارب روپے محصولات اور معیشت کی تیز ترقی حاصل کرنا اُن کیلئے کوئی مشکل کام نہ ہوگا مگر وزارت خزانہ کا حلف اٹھانے کے بعد جب وہ کوئی کارکردگی نہ دکھاسکے تو پی ٹی آئی کی اُمیدوں کے محور وزیر خزانہ کو 7 مہینوں بعد عہدے سے فارغ کرکے خزانے کی چابیاں ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے سپرد کردی گئیں۔

حفیظ شیخ کو اُس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے اپنی گزشتہ سال کی کارکردگی اکنامک سروے رپورٹ بڑے فخر کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کو پیش کی جس میں زیادہ تر اہداف منفی تھے اور 70سالہ تاریخ میں پہلی بار پاکستان کی جی ڈی پی منفی 0.40 کی سطح پر آگئی جبکہ ریونیو کی وصولی میں 900ارب روپے شارٹ فال ہوا۔ انہوں نے اس خراب کارکردگی کی ذمہ داری کورونا وائرس پر ڈال دی حالانکہ کورونا پاکستان میں مارچ کے آخر میں نمودار ہوا تھا۔

اس موقع پر میں پی ٹی آئی حکومت کے وزیر خزانہ کا مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے موازنہ کرنا چاہوں گا۔ میں اسحاق ڈار کی کارکردگی کا بڑا معترف ہوں جنہوں نے پاکستان کی معیشت کو مستحکم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

مجھے اسحاق ڈار صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع اُس وقت ملا جب میں ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر کے عہدے پر فائز تھا اور ہم انہیں بزنس کمیونٹی سے انٹرکشن کیلئے فیڈریشن ہائوس مدعو کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک میٹنگ میں انہوں نے یہ فخریہ اعلان کیا تھا کہ بہت جلد وہ پاکستان کی جی ڈی پی شرح 7 فیصد تک لے جائیں گے اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان کا شمار دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ (ن) لیگ دور حکومت میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ریونیو کا ہدف 2000ارب روپے سے بڑھ کر 4000 ارب تک پہنچا اور آئی ایم ایف نے اعتراف کیا کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان میں 5 فیصد افراد سطح غربت کی لکیر سے اوپر آگئے ہیں۔

پی ٹی آئی کے حکومت سنبھالنے کے بعد پاکستان کی معیشت عدم استحکام اور زبوں حالی کا شکار ہے اور مجھ سمیت بزنس مینوں کی یہ خواہش تھی کہ اسحاق ڈار صاحب موجودہ معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال کریں جس کے پیش نظرگزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ (ن) بزنس فورم جس کا میں مرکزی صدر ہوں، نے اسحاق ڈار صاحب کے ساتھ ایک زوم میٹنگ کا اہتمام کیا جس سے انہوں نے لندن بذریعہ وڈیو لنک خطاب کیا۔

انہوں نے ملکی معیشت کی شدید تنزلی پر تشویش کا اظہار کیا کہ غلط پالیسیوں اور خراب گورننس سے پاکستانی معیشت دو سالوں میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ان کی باتوں میں واضح درد محسوس کیا جاسکتا تھا جیسے کسی کی محنت سے بنائے گئے آشیانے کو کوئی اجاڑ دے۔

اسحاق ڈار نے اپنے خطاب میں بتایا کہ انہیں کس حالت میں ملکی معیشت ملی تھی اور وہ کس طرح بلندی تک لے کر گئے تھے۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی نے برسراقتدار آنے کے بعد یہ پروپیگنڈہ مہم چلائی کہ پاکستان کی معیشت اُنہیں تباہ حالت میں ملی تھی جس میں قطعی صداقت نہیں۔

اسحاق ڈار صاحب نے بتایا کہ جب انہوں نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا تو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 7.65 ارب ڈالر تھے اور جب عہدہ چھوڑا تو زرمبادلہ کے ذخائر 18.46 کی سطح پر پہنچ چکے تھے جبکہ ایک موقع پر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 22 ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔ یہاں میں اپنے قارئین کیلئے (ن) لیگ حکومت اور پی ٹی آئی حکومت کی معاشی کارکردگی کا ایک موازنہ پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ آج پاکستان کی معیشت کس سمت گامزن ہے۔

جی ڈی پی گروتھ 5.8 فیصد منفی 0.4 فیصد

ڈالر 102 روپے 167 روپے

چینی فی کلو 52 روپے 85 روپے

آٹا 20 کلو 710 روپے 1150 روپے

کوکنگ آئل 5لیٹر 740 روپے 1300 روپے

دال چنافی کلو 100 روپے 200 روپے

بجلی کی اضافی پیداوار 12000 میگاواٹ صفر

موٹر ویز 2200 کلومیٹر صفر

سی پیک 47 ارب ڈالر پروجیکٹ پروگریس صفر، Slow Down

اسٹاک ایکسچینج 52000 32000

مہنگائی 4 فیصد 9 فیصد

ڈسکائونٹ پالیسی ریٹ 4 سے 5فیصد کے درمیان 7 سے 13فیصد کے درمیان

زرمبادلہ کے ذخائر 22.03 ارب ڈالر 16.5 ارب ڈالر

آج موجودہ ملکی معاشی صورتحال میں مجھ سمیت ہر شخص یہ سوچ رہا ہے کہ ہم تبدیلی کے نام پر دو سالوں میں کہاں سے کہاں آگئے اور ’’تبدیلی‘‘ اور ’’ریاست مدینہ‘‘ کے نام پر عوام کو جس طرح ’’بیوقوف‘‘ بنایا گیا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ مسلم لیگ (ن) دور حکومت میں پاکستان نے 13سالوں میں سب سے زیادہ 5.8کی جی ڈی پی شرح حاصل کی جو پی ٹی آئی دور کے پہلے سال گر کر 1.9 فیصد کی سطح پر آگئی جبکہ دوسرے سال یہ شرح منفی 0.45 پر آگئی۔

موجودہ مالی سال آئی ایم ایف یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ پاکستان منفی 1.5جی ڈی پی حاصل کرے گا، اس طرح پی ٹی آئی حکومت، (ن) لیگ حکومت کا 5.8 فیصد بلند جی ڈی پی گروتھ کو منفی گروتھ میں تبدیل کردے گی جس پر عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ معیشت کی زبوں حالی کی ذمہ دار مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی یا پی ٹی آئی کی حکومت؟