وزارت سائنس کے اداروں کی خلائی ریسرچ سے عوام کو فائدہ نہیں : سینیٹر مشتاق احمد

July 15, 2020

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ وزارت سائنس کے اداروں کی اب تک خلا میں ہی ریسرچ ہے، جس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد خان کی زیرصدارت قائمہ کمیٹی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس ہوا، کمیٹی اجلاس میں کورونا وبا کے دوران پیرا میڈیکل اسٹاف سمیت دیگر شہدا کیلئے دعائے مغفرت کی گئی۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ پاکستان کو کورونا اور ٹڈی دل دونوں وباؤں کا سامنا ہے، اگر ٹڈی دل تلف نہ ہوئے تو خطہ غذائی قلت کا شکار ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت سائنس کے اداروں کی اب تک خلا میں ہی ریسرچ ہے، جب ریسرچ کا فائدہ عوام کو نہیں ہورہا تو پھر یہ سب کس لیے ہے؟

اجلاس میں سیکرٹری سائنس نے کورونا وبا کے دوران وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے کردار پر بریفنگ دی۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ کورونا کے دوران پاکستان کونسل فار صنعتی ریسرچ نے سینیٹائزر تیار کیے، شوگر انڈسٹری ایتھنول باہر بیچ دیتی ہے جس سے مقامی پیداوار پر فرق پڑتا ہے۔

سیکرٹری سائنس وٹیکنالوجی نے کہا کہ یورپ، افریقا اور امریکا کو سینیٹائزر برآمد کر رہے ہیں، کورونا پر سائنس و ٹیکنالوجی اور دفاعی ادارے کی کمیٹی تشکیل دی ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ اسپرے گنز، ڈرونز اور سینیٹائز دفاعی ادارے بھی بنا رہے ہیں، این 95 ماسک، فیس شیلڈ، ٹمریچر گنز اور ویکیسین پر کام جاری ہے۔

سیکرٹری وزارت سائنس وٹیکنالوجی نے کہا کہ سینیٹائزر اور وینٹیلیٹرز ہم بناچکے ہیں، حکومت نے وبا کے دوران وزارت سائنس کے ذیلی اداروں کو اضافی فنڈ نہیں دئیے۔

چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ کورونا کا فنڈ کہاں گیا؟ ایک وفاقی وزیر کہتا ہے چیئرمین این ڈی ایم اے کو فون کیا تو انجکشن ملا۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کے فنڈز کہاں گئے؟ کیا این ڈی ایم اے ریسرچ کا ادارہ ہے؟ جس پر سیکرٹری وزارت سائنس وٹیکنالوجی نے جواب دیا کہ باقی کام این ڈی ایم اے کررہا ہے۔

سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں این ڈی ایم اے کو اور وزارت خزانہ کو بلایا جائے۔

ارکان کمیٹی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ویکسین پر کام وزارت سائنس کے تحقیقی اداروں کو ہی کرنا ہے، وزارت سائنس کے ذیلی اداروں کو نظرانداز کرنے سے وبا کے متعلق حکومتی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔