ملتان میں تحریک انصاف داخلی محاذ آرائی کا شکار

July 16, 2020

ملتان میں اس وقت تحریک انصاف پوری شدت کے ساتھ ساتھ داخلی محاذ آرائی کا شکار ہے اور الزامات در الزامات کی ایک ایسی کھچڑی پک رہی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ایسی گرد اڑائی جا رہی ہے جس میں تحریک انصاف کا چہرہ نہ صرف گدلا ہوتا جارہا ہے بلکہ جگ ہنسائی کا سامان بھی پیدا ہو رہا ہے، جب سے جنوبی پنجاب کے لیے علیحدہ سیکرٹریٹ کا اعلان ہوا ہے تحریک انصاف کے اندر پہلے سے موجود اختلافات شدت سے ابھر کر سامنے آگئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ملتان کو نظر انداز کر کے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لئے بہاولپور کو منتخب کیا گیا ہے،حالانکہ وہاں تحریک انصاف کی کوئی مضبوط نمائندگی ہی موجود نہیں ہے جبکہ ملتان سے تحریک انصاف کو 2018 ءکے انتخابات میں بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی اور سب امید کر رہے تھے کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا جب بھی اعلان ہوگا اس کا صدر مقام ملتان کو ہی بنایا جائے گا ، مگر اس تاریخی شہر کے باسیوں پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بہاولپور میں قائم کر دیا گیا ہے اور ملتان میں اس کا کیمپ آفس کام کرے گا۔

اس اعلان کے سامنے آتے ہی عوامی حلقوں میں جہاں ایک شدید ردعمل پیدا ہوا ،وہیں تحریک انصاف کے اندر بھی واضح گروپ بندی ہوگئی اور شاہ محمود قریشی کا گروپ ہی ایسا تھا کہ جس نے اس علیحدہ سیکرٹریٹ کے اس حکومتی فارمولے کی حمایت کی، باقی تحریک انصاف کے تمام عہدے داران اس کی مخالفت کرتے نظر آئے، اس دوران تحریک انصاف کے ایم این اے احمد حسن دیہڑنے ایک دھواں دار انٹرویو دے کر ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا، اس میں انہوں نے براہ راست وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر سنگین الزامات لگائے اور انہیں اس حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ ملتان کی عوام کو ان کا حق نہیں دلا سکے ،کہنے کو تووہ اس خطہ کے بہت بڑے لیڈر کہلاتے ہیں ،اس انٹرویو کی بازگشت ملتان کے سیاسی حلقوں میں مسلسل سنائی دے رہی ہے کیوں کہ اس میں یہ بھی کہا گیا ہےکہ شاہ محمودقریشی تحریک انصاف کو اپنی جاگیر سمجھ کر چلا رہے ہیں۔

ملتان میں انہوں نے تنظیمی ڈھانچے کو بری طرح پامال کر رکھا ہے وہ صرف ان لوگوں کو پارٹی کے عہدے دلاتے ہیں جو ان سے ذاتی وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں تحریک انصاف کے وہ بانی کارکن جنہوں نے عمران خان کے ساتھ آغاز میں اپنی جماعت کے لیے جدوجہد کی، شاہ محمود قریشی کی اسی امتیازی پالیسی کی وجہ سے آج وہ تنظیمی ڈھانچے میں کہیں نظر نہیں آ رہے، احمدحسن دیہڑ ملتان کے پرانے سیاستدان ہیں،جو ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کا حصہ تھے اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے انتہائی قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔

انہوں نے انہیں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دلا کر اپنے حلقے سے کامیاب بھی کرایا تھا، پھران سے دوریاں ہوئیں، تو احمد حسن دیہڑنے پی ٹی آئی کا رخ کیا، 2018 ءکے انتخابات میں ٹکٹ ملنے کا مرحلہ آیا، توان کے مطابق شاہ محمود قریشی کا جھکاؤ حاجی سکندر حیات بوسن کی طرف تھا، جو مسلم لیگ ن کی وفاقی وزیر رہے اور آخری دنوں میں ان کی یہ کوشش تھی کہ تحریک انصاف کی طرف سے ان کو ٹکٹ مل جائے، دوسری طرف یہی احمد حسن دیہڑ شاید ملتان کی واحد سیاسی رہنما تھے جنہوں نے اپنی ٹکٹ کے لئے بنی گالہ کے سامنے مظاہرے کیے،دھرنے دیئے اور بالآخر عمران خان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ،جنہوں نے آخری لمحات میں انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کر دیا ، کہا یہ جاتا ہے کہ شاہ محمود قریشی ان کی ٹکٹ کے خلاف تھے۔

جبکہ جہانگیرترین انہیں ٹکٹ دینے کے حق میں تھے بالآخر قرعہ فال ان کے نام نکلا اور تحریک انصاف کی لہر میں یہ بھی ایم این اے بننے میں کامیاب ہوگئے،تاہم شاہ محمودقریشی کے ساتھ ان کے تعلقات میں جو دراڑ ٹکٹ کے حصول کے حوالے سے آئی تھی، وہ ختم نہ ہو سکی ،چونکہ شاہ محمودقریشی س وزیراعظم عمران خان کے بہت قریب ہیں اور خاص طور پر ملتان کے حوالے سے تمام فیصلے وہ خود کرتے ہیں ،جنہیں وزیراعظم اور وزیراعلی بھی تسلیم کر لیتے ہیں اس لئے انہوں نے احمد حسن دیہڑ کے مطابق ان کو سبق سکھانے کے لئے ان کے حلقہ میں ترقیاتی کام نہیں ہونے دیئے اور سرکاری افسروں کو بھی مبینہ طور پر یہ پیغام بھجوایا کہ احمد حسن دیہڑ کا کوئی کام نہ کیا جائے۔

یہ ہے وہ پس منظر جس کی وجہ سے احمد حسن دیہڑ نے وہ پینڈورا باکس کھولا ہے جس کی گونج اب پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے، خاص طور پر ان کا یہ کہنا ہے کہ پنجاب میں سب سے زیادہ کرپشن ملتان میں ہو رہی ہے اور اس کے ذمہ داربالواسطہ شاہ محمود قریشی ہیں کیونکہ انہوں نے چن چن کر اپنے پسندیدہ افسر تعینات کرائے ہیں جنہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اکثر یہ افواہ سامنے آتی رہتی ہےکہ ملک میں اگر مائنس ون فارمولا نافذ ہوا تو اگلے وزیراعظم شاہ محمود قریشی ہوں گے ، تاہم اس بات کو اس سے پہلے کبھی کھلے انداز میں نہیں کہا گیا تھا،جیسے احمد حسن دیہڑنے کہہ دیا ، انہوں نے کہاکہ مائنس ون کی خواہش رکھنے والے عمران خان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ہیں اور یہ خواہش رکھنے والوں نے کئی بار مقتدر قوتوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ اگر انہیں یہ ذمہ داری سونپی جائے تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔

شاہ محمود قریشی اور ان کے ملتان میں سب سے قابل اعتماد ایم این اے ملک عامر ڈوگر یہ بھانپ چکے ہیں کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے معاملے پر ملتان کی فضا ان کے لئے سازگار نہیں رہی ،یہی وجہ ہے کہ ملک عامر ڈوگر شاہ محمود قریشی کی عدم موجودگی میں یہ تاثردے رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ ملتان میں ہی بنے گا اور اس سلسلے میں ان کی وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلی عثمان بزدار سے بات بھی ہوچکی ہے۔

مقامی حلقے ان کے اس دعوے پر یقین کرنے کو تیارنہیں، کیونکہ اس فیصلے کو اب اتنی آسانی سے تبدیل نہیں کرایا جا سکتا نہ ملتان کے اراکین اسمبلی میں اتنا سیاسی دم خم ہے کہ وہ اتنے بڑے فیصلے کو وزیراعظم اوروزیراعلی سے تبدیل کرا سکیں، یہ صرف شاہ محمود قریشی کے کورونا آئیسولیشن سے باہر آنے کے بعدملتان متوقع آمد سے پہلے فضا کو ہموار کرنے کی ایک کوشش ہے مگر شاید ایسی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوں ۔ادھر ملتان سٹی اور ضلع کی تنظیموں نے شاہ محمودقریشی پر الزمات لگانے پر ایم این اے احمد حسین دیہڑ کو نشانے پر رکھ لیا ہےاور ان کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ شاہ محمودقریشی کی حمایت سے ایم این اے بننے والے احمد حسین دیہڑ نے احسان فراموشی کی انتہا کردی ہے ،جبکہ احمد حسن دیہڑ کے حامیوں کا موقف یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کسی صورت یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ انہیں پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملے ۔