مقبوضہ کشمیرمیں نئی میڈیا پالیسی سے صحافت کے خاتمے کا خدشہ

July 16, 2020

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی نئی میڈیا پالیسی سے خطے میں صحافت کا مکمل خاتمہ ہو سکتا ہے، بھارتی صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی نظر میں مودی حکومت کی یہ نئی پالیسی مقبوضہ کشمیر میں بیانیہ کنٹرول کرنے کی کوشش ہے۔

نئی میڈیا پالیسی ایسے وقت پر جاری کی گئی ہے جب مقبوضہ کشمیر میں رپورٹنگ پہلے ہی انتہائی مشکل ہے اور کئی صحافی انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت گرفتار ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے لیے میڈیا پالیسی 2020 کے تحت بھارتی حکومت نے یہ اختیار حاصل کر لیا ہے کہ وہ میڈیا کی خبروں اور مواد کا جائزہ لےکر فیصلہ کرے گی کہ آیا وہ جعلی، غیر اخلاقی یا ملک کےخلاف تو نہیں ہے۔

جموں میں انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا جاموال کا کہنا ہے کہ یہ نہ صرف میڈیا کو دبانے اور خاموش کرنے بلکہ میڈیا کو مارنے کی کوشش ہے۔

بھارتی حکومت کا مقصد صحافیوں کو سزا دینا اور حکومتی لائن پر چلنے سے انکار کرنے والے میڈیا ہاؤسز کو ختم کرنا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے لیے اعلان کردہ نئی میڈیا پالیسی کے تحت بھارتی حکومت کے فیصلوں پر تنقید کرنے والے یا بظاہر تشدد کو ہوا دینے کی کوشش کرنے والے میڈیا ہاؤسز کو سرکاری اشتہار نہیں دیا جائے گا۔

جب سے انورادھا جاموال نے مقبوضہ کشمیر میں فور۔جی انٹرنیٹ سروس پر پابندی اور میڈیا پر پابندیوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے تب سے اُن کے اخبار کو بھی سرکاری اشتہارات ملنا بند ہو گئے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ مودی حکومت میڈیا کو اس لیے کنٹرول کرنا چاہتی ہے کیونکہ اُس کا بیانیہ ناکام ہو رہا ہے۔

کشمیر پریس کلب کے صدر شجاع الحق کا کہنا ہے کہ مودی حکومت پہلے صحافیوں کو ہلاک کر رہی تھی، اب وہ صحافت کو ہی ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ دنیا کو پتہ نہ چل سکے کہ مقبوضہ وادی میں کیا ہو ریا ہے۔