بڑی عید، بڑا امتحان

July 26, 2020

ساہی وال کے ایک دُور افتادہ گاؤں میں اوسط درجے کا ایک کاشت کار بے حد فکرمند ہے کہ شاید اِس بار عیدِ قرباں پر اُس کے خواب پورے نہیں ہو پائیں گے۔ اُس نے کئی سال پہلے اپنی زرعی زمین کے ساتھ ایک بڑے باڑے میں مویشی پالنے شروع کیے تھے۔ محنت رنگ لائی، تو پچھلی بار عیدِ قرباں پر اُس نے ایک ٹرک کرائے پر لیا اور اپنے جانور لاہور کی مویشی منڈی میں لے جاکر بہت اچھی قیمت پر بیچ دیئے۔

اُسے یاد ہے کہ وہ مویشی منڈی میں ایک چارپائی پر بیٹھا حقّے کے کَش لگاتے ہوئے دن میں لاکھوں کے سودے طے کرتا رہا۔ اور منافع اُس کی توقّع سے کہیں بڑھ کر تھا۔ تب ہی عید کے بعد گائوں واپس جاکر اُس نے اپنی بہت سی ناتمام خواہشات پوری کیں۔چھوٹی بہن کی شادی کی، گھر کی چھتیں بدلوائیں، ایک بھینس خریدی، پُرانی موٹر سائیکل بیچ کر نئی موٹرسائیکل خریدی اور ملحقہ اراضی پر حقِ تشفع کے لیے وکیل کی فیس بھی ادا کی، لیکن اب 2020ء کی عید نے تو جیسے اُس کے سب ارمانوں پر پانی ہی پھیر دیا ہے۔

لاہور سے روزانہ وحشت ناک خبریں آ رہی ہیں کہ اِس بار کورونا کی وجہ سے منڈی کا کاروبار بہت مندا ہے۔لوگ مویشی منڈیوں کا رُخ کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ یوں بھی کمر توڑ منہگائی نے پہلے ہی عوام کی قوّتِ خرید کم، بلکہ ختم کر دی ہے، تو یہ اِس بات کے واضح اشارے ہیں کہ اِس بار کی عید، پچھلی عیدوں سے بالکل مختلف اور پھیکی رہےگی۔لہٰذا اُس نے ٹریکٹر اور ملحقہ اراضی خریدنے کے جو منصوبے بنائے تھے، وہ سب وبا کے دُھندلکوں میں گم ہوتے دِکھائی دے رہے ہیں۔

لاہورکی چمڑا منڈی کے ایک تاجر، ریڈی میڈ ملبوسات کے دُکان دار، جوتوں کے ہول سیل ڈیلر اور ایک شاپنگ پلازا کا مالک بھی کچھ اِسی قسم کے خدشات میں مبتلا نظر آئے۔’’اسمارٹ لاک ڈائون‘‘ سے پہلے ہی کاروبار متاثر تھا اور اب حکومتی عمائدین کے اِن بیانات کے بعد کہ’’ عید کے موقعے پر مِلنے جُلنے اور شاپنگ سے کورونا مزید بے قابو ہو سکتا ہے‘‘ لوگ مزید سہم گئے ہیں۔

گزشتہ عیدین کے مواقع پر اُنہوں نے عوام کی جانب سے کی گئی اندھا دُھند شاپنگ سے جھولیاں بھر بھر منافع کمایا، لیکن اب اُنہیں صاف لگ رہا ہے کہ اِس سال گزشتہ عیدوں والے رنگ ڈھنگ نہیں ہوں گے۔ایک جدید آبادی کے بڑے گھر کے باسی اِس بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ اِس بار قربانی حسبِ سابق انفرادی طور پر کی جائے یا پھر حالات کے پیشِ نظر اجتماعی قربانی میں حصّہ ڈالا جائے؟ پھر یہ بھی کہ اگر جانور خریدنا ہی ہے، تو مویشی منڈی کیسے جایا جائے؟کیوں کہ حکومت نے خریداروں اور بیوپاریوں کے لیے جو ایس او پیز طے کیے ہیں، وہ صرف کاغذات ہی تک محدود ہیں۔کوئی اُن پر عمل پیرا ہے اور نہ ہی کوئی عمل درآمد کروانے کے لیے کوشاں۔

نیا ماحول، نئے تقاضے

گائوں کے کاشت کار کی ادھوری خواہشات، کاروباری طبقے کا اضطراب اور گھر گھر ہونے والے بحث مباحثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس بار کی عیدِ قرباں ذرا مختلف انداز سے آئی ہے۔ اِس بار عید پر کورونا کے خوف ناک سائے لہراتے دِکھائی دے رہے ہیں، جن کے سبب وہ مناظر دیکھنے کو نہیں ملیں گے، جو ماضی کی عیدوں کی رونق تھے، جیسے گلیوں، بازاروں، چوراہوں اور فُٹ پاتھوں پر لگنے والی مویشی منڈیاں، جن میں دھوتی، کُرتے میں ملبوس، حقّے کا کَش لگاتے بیوپاری جانوروں کے سودے کرتے نظر آتے۔

گھر کے بڑوں کے ساتھ بچّوں کا بھی اُچھلتے کودتے مویشی کی خریداری کے لیے جانا، مَن پسند بکرا، دُنبہ، بیل یا گائے خریدنا اور واپسی پر اونچی آواز میں اہلِ محلّہ کو اپنی’’ کام یابی‘‘ کا احساس دِلانا، بچّوں کا بکرے کے ساتھ محلّے کا چکر لگانا، سیلفیاں بنانا، چاند رات کی شاپنگ، نمازِ عید کے بعد ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا، قربانی کے وقت عزیز واقارب کا اکٹھا ہونا گویا عید کے موقعے پر ہماری سماجی زندگی کا اصل حُسن ہیں، مگر اِس بار چھوٹی عید دَبے پاؤں گزر گئی اور اب بڑی عید بھی چُپکے سے گزرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ سوشل ڈسٹینسنگ کی اصطلاح کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھی اور نہ ہی کسی نے سوچا تھا کہ بڑی عید، جو فیملی اجتماع کے حوالے سے جانی جاتی ہے، سماجی فاصلوں، ماسک، دستانوں اور دوسری سماجی پابندیوں کے ساتھ ایک امتحان بن کر آئے گی۔

عیدالاضحی اور معیشت

یوں تو معاشی سرگرمیوں کا پہیّہ سارا سال گھومتا رہتا ہے، لیکن عیدِ قرباں ایک ایسا تہوار ہے، جس کے دس پندرہ دنوں میں اقتصادی سرگرمیاں اپنے جوبن پر ہوتی ہیں۔ اگر دُور دراز کے دیہات کا کوئی بیوپاری اِس کاروباری سیزن سے فائدہ اُٹھاتا ہے، تو وسیع وعریض بنگلے میں مقیم چمڑے کا تاجر بھی گھنٹوں نوٹ گنتا ہے۔ماہرینِ اقتصادیات کے مطابق، اس موقعے پر صرف شہروں کی دولت ہی دیہات میں منتقل نہیں ہوتی، بلکہ دیہات کا سرمایہ بھی شہروں کا رُخ کرتا ہے۔

مویشی پالنے والے کاشت کار، ٹرانسپورٹرز،مویشی منڈیوں کے منتظمین، مزدور، چمڑا منڈیوں کے تاجر، چمڑے کی مصنوعات بنانے والی فیکٹریز، چارہ وغیرہ بیچنے والے دُکان دار، چاقو چُھریاں بنانے اور تیز کرنے والے لوہار، قصّاب گویا درجنوں پیشوں سے وابستہ افراد اِس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی دال، روٹی کا بندوبست کرتے ہیں، بلکہ بہت سے ایسے افراد بھی ہیں، جو اپنی سال بھر کی روزی اِنھیں ایّام میں کماتے ہیں۔

نیز، عید کے موقعے پر ملبوسات، جوتوں، جیولری، کاسمیٹکس اور دوسری اشیاء کی خریداری پر بھی کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔یوں عیدالاضحٰی کے چند دنوں میں مُلکی تجارت میں اربوں کا لین دین ہوتا ہے، ماہرینِ معاشیات نے اِس کا اندازہ 335ارب روپے لگایا ہے۔گزشتہ سال پاکستان بزنس فورم نے تین سو کھرب سے زائد کی اِس خطیر رقم کی تقسیم کچھ اِس طرح کی تھی۔

قربان کیے گئے جانوروں کی مجموعی مالیت 298ارب روپے، قصابوں کی کمائی 26ارب، چمڑے کا کاروبار 10ارب روپے اور عید کی خریداری 70کروڑ روپے۔ 2018میں مجموعی طور پر 80لاکھ جانور قربان کیے گئے۔2017ء میں 3ارب ڈالرز کی معاشی سرگرمیاں ریکارڈ کی گئیں، جو 2019ء میں قدرے بڑھیں، لیکن 2020ء کے بارے میں ماہرین کا اندازہ ہے کہ گزشتہ سالوں کی نسبت کاروباری سرگرمیوں میں کم از کم 30فی صد کمی ہوگی۔

واضح رہے، پاکستان کی چمڑے کی صنعت 30فی صد کھالیں صرف عید کے موقعے پر اکٹھی کرتی ہے۔ چوں کہ عوام کورونا وبا کی وجہ سے جانوروں اور دیگر خریداری کے لیے گھروں سے کم ہی باہر نکل رہے ہیں، لہٰذا معاشی اعتبار سے یہ عید، گزشتہ عیدوں سے بہت مختلف ہے۔ لوگ اِس عید پر اِس لیے بھی(وزیرِ اعظم کی ہدایت کے برعکس ) زیادہ ’’گھبرائے‘‘ ہوئے ہیں کہ حکم ران کورونا کے بڑھتے کیسز کو عیدالفطر کے موقعے پر زیادہ میل جول کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں اور اب بار بار یہ بیانات بھی داغ رہے ہیں کہ’’ عید الاضحٰی کے موقعے پر کورونا کے بے قابو ہوجانے کے خدشات بہت زیادہ ہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم، عمران خان نے عیدالاضحٰی سادگی سے منانے کی اپیل کی ہے۔

اقتصادی سرگرمیوں کے حساب کتاب اور اعدادو شمار سے قطع نظر، عیدِ قرباں پر ہماری معاشرتی سرگرمیاں بھی روایتی جوش وخروش اور گہما گہمی سے محروم ہیں۔ لاہور ایئرپورٹ کے نزدیک ایک نسبتاً جدید آبادی کے مکین، محمّد افضل اور اُن کے اہلِ خانہ کے لیے بھی یہ عید خاصی مختلف ہے کہ وہ چار بھائی اور دو بہنیں گزشتہ کئی سال سے ایک ہی جگہ مل کر قربانی کرتے چلے آ رہے ہیں، جہاں اُن کے والدین مقیم ہیں۔

وہ بکرے اور گائے ایک ہفتہ پہلے اپنے آبائی گائوں سے منگوا لیتے ہیں اور پھر عید پر اُن کے ہاں جشن کا سماں ہوتا ہے کہ خاندانی قصّاب نماز کے فوراً بعد قربانی کا کام شروع کر دیتا ہے۔ محمّد افضل خان کا کہنا ہے’’ اِس بار تو مویشی خریدنا ہی ایک مسئلہ بن گیا کیوں کہ وہ خود بھی جانور گھر میں رکھنے کے حق میں نہیں۔

آخر کار یہی طے پایا کہ قربانی گھر سے دُور کرکے صاف ستھرا گوشت گھر میں لایا جائے۔ظاہر ہے ان احتیاطی پابندیوں اور اَن جانے خوف میں عیدالاضحٰی کا روایتی جوش وخروش ماند ہی پڑ جائے گا۔ اِس بار چاند رات کی شاپنگ کا پروگرام بھی ملتوی کردیا، حالاں کہ بچّے بضد تھے، مگر جناب جان ہے، تو جہان ہے۔‘‘ یہ صرف محمد افضل کے خاندان کا مسئلہ نہیں، اگر صرف لاہور کی بات کی جائے، تو یہاں کی بیش تر گلیوں میں عید سے چند روز پہلے جا بجا بکرے، گائے، چھترے، اونٹ، بندھے نظر آتے ہیں۔

جب بچّے بکروں کو پیروں میں بندھے گھنگھرئوں کے ساتھ گلیوں میں گھماتے ہیں، تو پتا چلتا کہ عید قریب ہے۔ اِسی طرح گائے، بکرے بھی اپنی آوازوں سے پورے محلّے کو سَر پر اُٹھائے رکھتے ہیں، لیکن اندرون لوہاری گیٹ کے ایک مکین اور اردو بازار کے تاجر، عبدالحئی کے بقول،’’ اِس بار عید سے پہلے ایک عجیب سا سناٹا، اداسی اور مایوسی نظر آرہی ہے۔مَیں کوئی 60-70 عیدیں دیکھ چُکا ہوں، مگر ایسی عید پہلے کبھی نہیں دیکھی۔‘‘

قربانی کے نئے رجحانات

اب ایسا بھی نہیں کہ عیدِ قرباں کی سرگرمیوں پر مکمل جمود طاری ہو۔ مویشیوں کی خریداری کے لیے کئی نئے رجحانات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ اِس بار ماضی کی نسبت درجنوں ادارے جانوروں کی آن لائن خریداری کے لیے میدان میں اُترے ہیں، جہاں تصویر دیکھ کر جانور کا انتخاب کیا جاسکتا ہے اور یہ جانور، مویشی منڈی جائے بغیر آپ کے گھر پہنچا دیا جاتا ہے۔سماجی کارکن، پروفیسر رضوان الحسن کے مطابق ’’اب لوگ گھر پر قربانی، قصّاب اور صفائی ستھرائی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے۔

وہ کمپنی یا ادارے کو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ’’ وہ گوشت خود غریبوں میں تقسیم کر دیں۔‘‘ یہ رجحان بڑے شہروں میں اِس لیے بھی مقبول ہوا ہے کہ کورونا کے خوف، حبس اور بارش کے موسم میں عام طور پر مویشی منڈی جانا پسند نہیں کیا جارہا۔ مغربی ممالک میں تو آن لائن جانوروں کی خریداری کا رُجحان پہلے ہی عام ہے، اب پاکستان میں بھی یہ انداز مقبول ہو رہا ہے۔اِس طرح عوام پارکنگ اور لوڈنگ کی زحمت سے بھی بچ جاتے ہیں۔نیز، اِس سال اجتماعی قربانی میں حصّہ ڈالنے کا رُجحان بھی کہیں زیادہ دیکھنے میں آرہا ہے۔‘‘

مویشی منڈیاں

2020ء کی عیدِ قرباں اِس اعتبار سے بھی مختلف ہے کہ ماضی میں گلی گلی لگنے والی مویشی منڈیاں اِس بار شہر سے باہر، کُھلے مقامات پر منتقل کر دی گئیں۔لاہور میں ایسی 14منڈیاں بنائی گئیں، جہاں عوام کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ جانور خریدنے کی اجازت ہے۔ جب کہ کراچی میں ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی، شہر سے باہر ایک ہزار ایکڑ رقبے پر بنائی گئی ہے، جہاں کے 48بلاکس میں 35ہزار سے زائد جانور سما سکتے ہیں، جب کہ مجموعی طور پر 6لاکھ جانوروں کی گنجائش ہے۔

یہاں بھی ماسکس اور سینی ٹائزرز کا استعمال ضروری ہے۔بہر کیف، ان منڈیوں کے قیام سے ماضی کی عیدین کا وہ منظر چُھپ گیا، جب جگہ جگہ جانوروں کا بھائو تائو ہو رہا ہوتا تھا، تاہم موجودہ حالات میں عوامی جان کی حفاظت کے پیشِ نظر سخت اقدامات ضروری تھے۔

عیدِ قرباں پر قصّاب اربوں روپے کماتے ہیں اور اُنہیں یقین ہے کہ اِس بار بھی کم از کم اُن کے لیے کمائی کے لحاظ سے عید کچھ زیادہ مختلف نہیں ہو گی، کیوں کہ اِس بار جعلی اور ایک دن کے قصّابوں کا صفایا ہو جائے گا۔ایک جدّی پُشتی لاہوری قصّاب، عبدالرّحمٰن کے مطابق، وہ کئی دہائیوں سے عید پر جانور ذبح کرتا چلا آ رہا ہے، لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ وہ جانور ذبح کرنے کے لیے ماسک اور دیگر حفاظتی لباس پہن کر جائے گا اور اُسے قربانی سے پہلے اپنے تمام اوزاروں کو ایک مخصوص محلول سے دھونا پڑے گا۔