ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا

July 22, 2020

سیف الدین سیف

ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا

رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا

کیسے جیتے ہیں یہ کس طرح جیے جاتے ہیں

اہل دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا

جی نہیں آپ سے کیا مجھ کو شکایت ہوگی

ہاں مجھے تلخئ حالات پہ رونا آیا

حسن مغرور کا یہ رنگ بھی دیکھا آخر

آخر ان کو بھی کسی بات پہ رونا آیا

کیسے مر مر کے گزاری ہے تمہیں کیا معلوم

رات بھر تاروں بھری رات پہ رونا آیا

کتنے بیتاب تھے رم جھم میں پئیں گے لیکن

آئی برسات تو برسات پہ رونا آیا

حسن نے اپنی جفاؤں پہ بہائے آنسو

عشق کو اپنی شکایات پہ رونا آیا

کتنے انجان ہیں کیا سادگی سے پوچھتے ہیں

کہیے کیا میری کسی بات پہ رونا آیا

اول اول تو بس ایک آہ نکل جاتی تھی

آخر آخر تو ملاقات پہ رونا آیا

سیفؔ یہ دن تو قیامت کی طرح گزرا ہے

جانے کیا بات تھی ہر بات پہ رونا آیا