خیبر پختونخوا میں کورونا کا زور ٹوٹ گیا

July 23, 2020

خیبر پختونخوا میں بھرپور کوششوں اور عوامی آگہی مہمات کے بعد اب کورونا کیسوں کی تعداد میں کافی حد تک کمی آتی دکھائی دے رہی ہے، گزشتہ ہفتہ کے کئی دن تک چار ماہ میں پہلی مرتبہ پشاور میں کورونا کیوجہ سے کسی مریض کے جاں بحق ہونے کی خبر رپورٹ نہیں ہوئی جو یقینا ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے، جب کورونا کی وبا آئی تو خیبر پختونخوا میں اس نے تباہی کا ایک خطرناک سلسلہ شروع کیا، بے اختیاطی کی وجہ سے کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا جس کے بعد مرنے والوں کی شرح بھی بڑھتی گئی، یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں حکومت نے صورت حال کو قابو میں رکھنے کیلئے سخت اقدامات بھی کئے اور پھر مارچ میں پورے ملک میں لاک ڈائؤن کا اعلان کر دیا گیا۔

جس کے ذریعے سماجی فاصلہ رکھنے کی مہم چلائی گئی، کاروبار، اسکول، کالجر حتیٰ کے بعض مقامات پر مساجد بھی بند کرا دی گئیں، میل جول کی کمی کی وجہ سے صورت حال بگڑنے سے بچ گئی، اگرچہ لاک ڈائؤن کے دوران عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ہزاروں، لاکھوں افراد کے روزگار بند ہو گئے، دیہاڑی دار مزدوروں نے سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کیا، بہرحال یہ مجبوری تھی لیکن یہ امر خوش آئند ہے کہ سیاسی جماعتوں نے بھی حکومتی ایس او پیز کے حوالے سے اپنے کارکنان کو ہدایات جاری کئے رکھیں اور اب جبکہ لاک ڈائؤن کو چار ماہ ہو چکے ہیں تو پہلی مرتبہ کورونا کیسوں میں کمی آنے لگی ہے تاہم رمضان کے آخری دنوں میں جب حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کی اور پھر عیدالفطر کے تین دنوں میں عوام نے جس بے اختیاطی کا مظاہرہ کیا تھا اسکی وجہ سے کورونا میں بھی کافی شدت آگئی تھی چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت عیدالاضحیٰ کے موقع پر مزید نرمی کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہی ہے اور امکان ہے کہ عید تک کیلئے پابندیاں مزید سخت کر دی جائیں گی اور یقینا اس کی ضرورت بھی ہے، عید الاضحی گزرنے کے بعد نہ صرف لاک ڈائؤن میں نرمی کے راستے بھی کھل سکیں گے بلکہ کورونا کے خدشات میں بھی کمی آجائے گی۔

تاہم یہ حقیقت ہے کہ ابھی بھی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے خیبر پختونخوا میں حالات بتدریج بہتر ہوتے دیکھ کر بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں کے دوبارہ آغاز کے اعلانات بھی ہوئے، اے این پی ،قومی وطن پارٹی اور ن لیگ کے بعد اب جے یو آئی نے بھی سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کا اعلان کر دیا ہے اور صوبائی قیادت کے صوبہ گیر دوروں کا شیڈول بھی جاری کر دیا ہے تاہم تمام سیاسی جماعتوں نے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ سیاسی سرگرمیاں محدود رکھی جائیں اور ان میں ایس او پیز کا خیال رکھا جائے، یوں اب عید الاضحی کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سیاسی سرگرمیاں بتدریج بڑھ جائیںگی ،ویسے بھی اب اپوزیشن کا موڈ یہ نظر آرہا ہے کہ کورونا اور موسم گرما کی شدت میں کمی کیساتھ ہی حکومت مخالف سرگرمیوں کا آغاز کیا جائے، ظاہر ہے انہوں نے بھی اپنے کارکنوں کو متحرک رکھنے کیساتھ انہیں مایوسی سے بھی بچانا ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت مخالف کم سے کم نکات پر یکجا ہو کر اپوزیشن جماعتیں مشترکہ طور پر احتجاجی سیاست کا آغاز کریں۔

دوسری جانب گزشتہ ہفتہ صوبائی حکومت کی کشتی میں ایک اور دراڑ اسوقت پیدا ہوئی جب آڈیو سکینڈل کی بنیاد پر صوبائی حکومت کے ترجمان اور مشیر اطلاعات اجمل وزیر کو ان کے عہدہ سے اچانک ہٹانے کا اعلان کیا گیا، ان پر حکومت کے اشتہاراتی مہم کے دوران مخصوص اشتہاری ایجنسی سے کمیشن لینے کا الزام سامنے آیا جس کے بعد وزیر اعلیٰ نے فوری طور پر اجمل وزیر کو برطرف کرتے ہوئے محکمہ اطلاعات کی اضافی ذمہ داریاں معاون خصوصی بلدیات کامران بنگش کے حوالے کر دیں، ساتھ ہی حکومت نے چیف سیکرٹری کو مراسلہ ارسال کیا کہ وہ آڈیو کی فرانزک کیساتھ ساتھ اس حوالے سے پوری چھان بین کے بعد حقائق سامنے لائے تاہم حکومت کی جانب سے تکنیکی غلطی ہوئی کیونکہ چیف سیکرٹری کو کسی کابینہ رکن کےخلاف کارروائی کا اختیار حاصل نہیں چنانچہ اگلے روز انہوں نے صوبائی حکومت کو جوابی مراسلہ میں آگاہ کیا، چیف سیکرٹری کا موقف تھا کہ اس سلسلے میں وزیر اعلی کو خود کمیٹی بنانی چاہیے جس کے بعد کمیٹی بنادی گئی ہے، سابق صوبائی سیکرٹری خزانہ صاحبزادہ سعید کی سربراہی میں قائم کمیٹی میں سابق جج بشیر احمد اور ریٹائرڈ ڈی آئی جی طارق جاوید شامل ہیں اور اس کو وسیع مینڈیٹ دیتے ہوئے آڈیو سکینڈل کی تحقیقات کیساتھ اجمل وزیر کے دور میں اشتہارات کی تقسیم اور محکمانہ خریداری کے حوالے سے تمام تفصیلات جمع کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔

اگرچہ اجمل وزیر ان تمام الزامات کی تردید کر چکے ہیں تاہم اصل حقائق اب تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئیں گے لیکن بظاہر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اجمل وزیر کے مخالفین نے بڑی صفائی کیساتھ ان کو راستہ سے ہٹا دیا ہے اور فی الحال ان کی واپسی کے امکانات بہت کم دکھائی دے رہے ہیں، ان کی پوزیشن اس وجہ سے بھی بہت کمزور ہے کہ وہ منتخب رکن اسمبلی نہیں ہیں ان کو جب ضم شدہ اضلاع کیلئے مشیر لیا گیا تھا تو اس وقت ذہن میں یہی تھا کہ ایک طرف پی ٹی ایم کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو اجمل وزیر کے قبائلی پس منظر کے ذریعے کائونٹر کیا جاسکے گا اور دوسری طرف قبائلی اضلاع میں حکومت میں نمائندگی کا احساس دلایا جائیگا۔

لیکن جب پہلے مرحلہ میں قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن ہوئے اور دوسرے مرحلہ میں وہاں سے ایک وزیر اور ایک معاون خصوصی کو صوبائی کابینہ میں شامل کیا گیا تو تب سے بتدریج اجمل وزیر کی قبائلی اضلاع کے حوالے سے اہمیت کم ہوتی چلی گئی مگر خوش قسمتی سے کابینہ میں ردوبدل کے وقت شوکت یوسفزئی کا محکمہ تبدیل کرتے ہوئے اجمل وزیر کو مشیر اطلاعات کا قلمدان سونپ دیا گیا یوں وہ ایک مرتبہ پھر تمام معاملات میں ان ہو گئے تاہم بعض کمزوریوں کی وجہ سے اجمل وزیر میڈیا اور حکومت کے درمیان اس طرح پل کا کردار ادا نہ کرسکے ۔