کیا جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کیلئے نئی عمارت تعمیر ہوگی؟

July 23, 2020

کیا جنوبی پنجاب کے لیے علیحدہ سیکرٹریٹ پنجاب کے لیے سفید ہاتھی ثابت ہو گا ؟ابھی تک اس ضمن میں جو کچھ سامنے آیا ہے ،اس سے تو یہی لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اس کمبل سے ہر صورت جان چھڑانا چاہتی ہے اور اس کے لئے جو بھی اخراجات آئیں، یاد اؤ پیچ استعمال کرنا پڑیں ، وہ کیا جا رہا ہے،مثلاً پہلے یہ اعلان کیا گیا کہ علیحدہ سیکرٹریٹ کا صدر مقام بہاو ل پور ہوگا ، ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں کیمپ آفس قائم کیے جائیں گے، اس اعلان پر جب ملتان میں احتجاج کی لہر چلی اور شاہ محمود قریشی سمیت ملتان کے تمام ارکان اسمبلی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا کہ انہوں نے ملتان جیسے بڑے شہر کو چھوڑ کر بہاول پور جیسے مضافاتی شہر کو جنوبی پنجاب کا صدر مقام کیوں قبول کیااور درمیان میں ایم این اے احمد حسن دیہڑنے گھر کے بھیدی کی طرح لنکا ڈھا دی اور شاہ محمود قریشی سمیت دیگرارکان کو ملتان دشمنی کا مرتکب قرار دیا تو ایک ہلچل سی مچ گئی اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار سے یہ درخواست کی گئی کہ وہ ایک ایسا حل نکالیں کہ جس میں ان کی لاج بھی رہ جائے اور مقاصد بھی پورے ہو جائیں۔

اس پر ایک دوسرا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ،جس میں یہ کہا گیا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ ملتان اور بہاولپور میں قائم کیا جائے گا جبکہ اس کا کیمپ آفس ڈی جی خان میں ہوگا اس نئے نوٹیفکیشن کو لہرا کر تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی یہ دعوی کر رہے ہیں کہ انہوں نے جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ ملتان میں بنوا دیا ہے ،حالانکہ سوائے چند لفظوں کے ہیرپھیرکے معاملہ جوں کا توں موجود ہے، یعنی ایک لحاظ سے بہاولپور کو ملتان کے برابر لا کھڑا کیا گیا ہے ،حالانکہ اس سے پہلے کوئی اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ بہاول پوراور ملتان میں کوئی مماثلت ہو سکتی ہے ،دلچسپ بات یہ ہے کہ دو جگہوں پر سیکرٹریٹ بنانے کے باوجود ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی کی پوسٹیں ایک ایک ہی رکھی گئی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکرٹریٹ دو نہیں، ایک ہے اور ملتان کوجو تین دن دیئے گئے ہیں وہ ایک ایسا حربہ ہے جس کے ذریعے یہاں کی عوام کو مطمئن کرنا مقصودہے،اس چال کو ملتان کے دانشور، سرائیکی قوم پرست تنظیموں کے نمائندے، سیاسی جماعتوں کے رہنما سمجھ چکے ہیں اور انہوں نے ایک بار پھر اس فیصلہ کو مسترد کر دیا ہے۔

ان کا استدلال ہے کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ صرف ملتان میں ہی قائم ہو سکتا ہے،اسے مختلف شہروں میں تقسیم کرکے درحقیقت جنوبی پنجاب صوبہ کے مطالبے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ادھر جنوبی پنجاب کے لئے مقرر ہونے والے ایڈیشنل چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان نے وزیر اعلی پنجاب کو ایک سمری بھجوائی ہے جس میں ملتان اور بہاولپور میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لئے علیحدہ عمارتیں اور تعینات ہونے والے افسران اور ملازمین کے لیے جی او آرزبنانے کی تجویز پیش کی ہے جس کے مطابق درخواست کی گئی ہے کہ 21-2020ءکے سالانہ ڈویلپمنٹ میں اس مقصد کے لیے چار ارب روپے کی رقم مختص کی جائے، اس کو پڑھنے کے بعد پہلا خیال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سیکرٹریٹ اگلے دو تین سال بعد کام کرے گا؟

کیا اتنی بڑی رقم اس مقصد کے لیے مختص کر کے جنوبی پنجاب کو کوئی فائدہ پہنچ سکے گا ؟حیران کن امر یہ ہے کہ ملتان اور اور بہاول پور میں متعدد ایسی عمارتیں موجود ہیں جہاں یہ سیکرٹریٹ بآسانی قائم کیے جا سکتے ہیں، ملتان میں تو ایسی عمارتیں موجود ہیں کہ جن میں ایک نہیں ،کئی سیکرٹریٹ قائم کیے جاسکتے ہیں، مگر ان تمام عمارتوں کو مسترد کرکے کے نئی زمین خریدنے اور نئے سیکرٹریٹ تعمیر کرنے کی تجویز اس بات کو ظاہر کرتی ہے ہے کہ ہماری بیوروکریسی سب سے پہلے اپنے لیے سہولتیں مانگتی ہے اسے عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہیں ہوتی،جب پاکستان بنا تو قائداعظمؒ کی سربراہی میں میں ٹوٹی پھوٹی عمارتوں اور بے سروسامانی کے عالم میں حکومت پاکستان کو چلایا گیا، اس وقت بھی یہ مطالبہ اگر سامنے رکھ دیا جاتا کہ پہلے عمارتیں بناؤ پھر حکومت چلے گی، تو شاید پاکستان آغاز ہی میں خاکم بدہن ناکامی کا شکار ہو جاتا ،یہاں بڑی بڑی عمارتیں ، بڑی بڑی رہائش گاہوں اور تمام تر وسائل کے باوجود جنوبی پنجاب کے لیے لیے دو سیکرٹریٹ بنانے اور دوجی او آرز قائم کرنے کی تجویز حیران کن ہے ، سوال یہ ہے کہ دو سیکرٹریٹ بنانے کا یہ خیال کیوں آیا؟ کیا یہاں دو صوبے بنائے جانے ہیں ؟پھر دوجی او آرز قائم کرنا ،جبکہ پہلے ہی ان شہروں میں سرکاری رہائش گاہیں موجود ہیں سرکاری کالونیاں موجود ہیں، یہ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق والی بات ہے، پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر ساری توجہ زمین خریدنے اور اس پر تعمیرات کرانے سمیت کاموں پر کئی سال ضائع کرنے پر مرکوز رہے گی تو عوام کو کو ریلیف کیا ملے گا؟

یہی چارارب روپے اگر یہاں کی ترقی پر خرچ کئے جائیں ، ملتان کے سیوریج اورپینے کے پانی کے مسائل کو حل کرایا جائے تو عوام کو بہت بڑا ریلیف مل سکتا ہے ، ملتان میں ایک بہت بڑا جوڈیشل کمپلیکس موجود ہے جسے عدلیہ نے اپنے لئے غیر مناسب قرار دیا ہے، وہاں ایک سیکرٹریٹ کا قیام کیوں نہیں کیا جاتا ؟چونگی نمبر نو میٹروبس مانیٹرنگ کمپلیکس کی ایک بڑی عمارت قریب التکمیل ہے اسے بھی اس مقصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی یہ سمری مسترد کر دینی چاہیے ، اس ضمن میں یہ حکم جاری کرنے کی ضرورت ہے کہ جو مسائل موجود ہے انہیں بروئے کار لا کر فوری طور پر کام شروع کیا جائے، عوام فوری ریلیف چاہتے ہیں نہ کہ وہ یہ انتظار کرتے رہیں کہ کب بادشاہوں کے محل تعمیر ہوں گے اور کب انہیں انصاف ملے گا۔گزشتہ دنوں جب وزیراعظم عمران خان لاہور آئے تو ان کی جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی سے بھی ملاقات ہوئی ملتان کے ارکان اسمبلی کا دعوی تھاکہ وہ شاہ محمود قریشی کے مخالف رکن قومی اسمبلی احمد حسین دیہڑ کو وزیراعظم سے جھاڑ پلوائیں گے کیونکہ انہوں نے پارٹی میں انتشار پیدا کیا ہےمگر ایسا نہ ہو سکا۔

مگر ان کی سب امیدیں اس وقت ناکام ثابت ہوئیں، جب وزیراعظم سے ملاقات میں احمدحسن دیہڑ نے اپنا موقف بیان کیا کہ ملتان میں شاہ محمود قریشی اور ان کے بیٹے نے پوری تحریک انصاف کو ہائی جیک کیا ہوا ہے ، اس پر وزیراعظم عمران خان نے پاس کھڑے ہوئے وزیر اعلی عثمان بزدار سے کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں اوراگرامتیازی سلوک ہورہا ہے،تو ان کا ازالہ کریں۔