پنجاب میں بزدار کی تبدیلی کا ’’باب‘‘ ختم ہوگیا؟

July 23, 2020

پچھلے چند ہفتوں سے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے جانے کی خبریں گرم تھی اور ان کی جگہ نئے متوقع وزرائے اعلیٰ کے نام سامنے آرہے تھے لیکن جمعہ کے روز وزیر اعظم عمران خان نے لاہور کا دورہ کیا اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ عثمان بزدار ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہینگےیعنی دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے عثمان بزدار کا ’’کلّہ‘‘ مضبوط ہے کا اعلان کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ حتمی فیصلہ ہے ؟ کیا یہ باب بند ہو گیا؟خبر رکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں عثمان بزدار کو ہٹانے کی تجویز اور تحریک کہاں سے آئی؟کیا وہ مطمئن اور رضامند ہیں؟ جواب ہے کہ ابھی تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو تحریک انصاف کے ہی ایک ذمہ دار رکن نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ بعض اوپر کے حلقوں کی طرف سے زور دیا گیا تھا کہ پنجاب کے اور ملک کے وسیع تر مفاد میں عثمان بزدار کی جگہ کسی متحرک اور فعال اور خاص طور پر تجربہ کار رکن کو وزیر اعلیٰ لایا جائے۔

بقول اس تحریک انصاف کے رکن کے عمران خان نے یہ بات قبول نہیں کی اب دیکھنا یہ ہے کہ معتبر حلقے اپنی بات کس طرح منواتے ہیں بہرحال یہ بات تحریک انصاف کے ارکان کو خوش آئند لگتی ہے کہ عمران خان کسی کے دبائو میں نہیں آتے ایک رکن نے تو اس حد تک کہا کہ عمران خان اور نواز شریف میں یہ ہی فرق ہے۔ نواز شریف نے ڈان لیکس کے دنوں میں دبائو میں آ کر پرویز رشید کو ہٹا دیا تھا اس سے پہلے بھی مشاہد اللہ خان کو ہٹایا گیا۔کہنے والے کہتے ہیں کہ ابھی اس معاملے کا ڈراپ سین نہیں ہوا اوپر سے عثمان بزدار کو ہٹانے کی تجویز سطحی یا محض سیاسی فرمائش نہیں تھی بلکہ اس جانب سے انتہائی سوچ بچار اور تمام پہلوئوں کو دیکھ بھال کر یہ تجویز آئی تھی اب قومی مفاد میں اس سے کیسے پیچھے ہٹا جا سکتا ہے یہ تجویز کوئی غیر سنجیدہ انداز میں سامنے نہیں لائی گئی تھی ۔بات یہ ہے کہ عمران خان کا بھی یہ ا علان یا فیصلہ حتمی نہیں سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ فیصلہ آنے والے دنوں میں یوٹرن لے گا۔

عثمان بزدار نے مسلم لیگ (ن) کے آٹھ دس ارکان کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے شاید وہ سوچتے ہیں کہ کبھی عوامی اکثریت کے اظہار کیلئے ان سے فائدہ اٹھایا جائے ۔عمران خان نے مائنس ون کی بات چھیڑ کر خود معاملات میں ہلچل پیدا کی ہے۔ ادھر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو لاہور میں تھے۔ شہباز شریف نے ٹیلی فون پر ان سے رابطہ کیا اور ایک وفد نے دونوں کے رابطوں کے بعد بلاول بھٹو سے ملاقات کی دراصل کچھ معاملات پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کی سوچ تاحال مختلف نظر آ رہی ہے ۔ آصف زرداری جنہوں نے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہٹانے اور سینٹ میں چیئرمین کو مسلم لیگ (ن)کی خواہش کے برعکس لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ابھی بھی سمجھتے ہیں ان سے کوئی کردار لیا جائے گا۔

پیپلز پارٹی یہ بھی سمجھتی ہے کہ نئے انتخابات میں اسے کچھ حاصل نہ ہو گابلکہ شاید سندھ میں بھی اسے حکومت بنانے کی مہلت نہ ملے ایسا کارکردگی کی ہی بنیاد پر ہو گا وہ نئے انتخابات کو مناسب نہیں سمجھتی مسلم لیگ (ن) کے وفد میں شامل احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق نے بلاول بھٹو پر نئے انتخابات کے انعقاد پر زور دیا احسن اقبال نے کہا کہ بحران کا حل نئے انتخابات ہیں ۔اس سیٹ میں کوئی مستحکم حکومت نہیں بن سکتی قومی حکومت بننے کا بھی کوئی جواز نہیں ملک کو بحران سے نکالنے کےلئے آزادانہ منصفانہ انتخابات کا جلد از جلد انعقاد ضروری ہے ۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم بھی ملک کو بحران سے نکالنا چاہتے ہیں ہر اچھی تجویز ہمارے لئے قابل قبول ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں جو فیصلہ ہو گا اس کے ہم پابند ہونگے ۔

ادھر شہباز شریف کی سرگرمیاں صحت کی حفاظت کے پیش نظر محدود ہیں جبکہ دوسری جانب سیاسی منظرنامہ کافی الجھا ہوا اور میدان میں کھل کر سامنے آنے کا متقاضی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی شاید یہ پالیسی ہے کہ تحریک انصاف اپنی عدم کارکردگی اور ناقص پالیسیوں، خراب معیشت ، مہنگائی ، بیروزگاری کے باعث عوام میں جو غیر مقبول ہو رہی ہے اس کو کسی طرح کے تردد اور جدوجہد کی ضرورت نہیں ۔ اس کا کام تو خود ہی بن رہا ہے وہ اوپر کے اشارے کے منتظر ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف بھی اس پالیسی پر کاربند ہیں؟ کیا واقعی مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کو اکٹھا کرنے کی کوئی منصوبہ بندی ہے اگر ہے تو کیا نواز شریف اس منصوبے کو قبول اور تسلیم کرلیںگے ؟ کیا یہ منصوبہ نواز شریف کے اپنائیے کی نفی نہ ہو گا ؟ مسلم لیگ (ن)کے اکثر ارکان کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو ریاست اور ملک کو بچانے کیلئے ہوشمندی اور حکمت سے کام لینا ہو گا ۔

زمینی حقائق کو سامنے رکھنا ہو گا ہماری اسٹیبلشمنٹ سے کوئی عداوت یا مخاصمت نہیں ہے نہ ہونی چاہئے ملکی مفاد میں ایسے فیصلے قبول کرنا ہونگے جس سے ملک جس گرداب میں پھنس گیا ہے اس کو اس سے نکالا جائے۔نواز شریف ،شہباز شریف ملک اور عوام کیلئے اب بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ملک کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب بھی مہنگائی ،بیروزگاری اور مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے ۔چینی، آٹے کی قیمتیں آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں عید کی آمد آمد ہے ۔سبزیاں مہنگی سے مہنگی ہو رہی ہیں کوئی کنٹرول نہیں انتظامیہ بے بس نظر آرہی ہے ۔

پنجاب میں نئے منصوبے ناپید ہیں خال خال کوئی منصوبہ شروع ہوتا نظر آتا ہے اس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ منصوبہ تو مسلم لیگ (ن)نے شروع کیا تھا مثلاً وزیر اعظم عمران خان نے راوی کنارے کس منصوبے کا آغاز کیا بقول عطا تارڑ اس پر تو مسلم لیگ کی حکومت 70فیصد کام مکمل کر چکی تھی ۔ باقی ادھورے منصوبے بھی تساہل اور بددلی سے مکمل کئے جا رہے ہیں اورنج لائن ٹرین منصوبہ اس کی واضح مثال ہے اگر شہباز شریف ہوتےتو اس منصوبے کو مکمل ہوتے ڈیڑھ سال ہوگیا ہوتا۔

یہاں عثمان بزدار کے پسندیدہ کمشنر اور سیکرٹری سروسز کو ہٹانے کا معاملہ بھی پیچیدہ ہے ان کو کیوں لگایا گیا اور ایک ہفتے بعد ہٹایا کیوں گیا؟ وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے اس میں اشارے موجود ہیں۔

کورونا کا پھیلائو خوش قسمتی سے کچھ کم ہوا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں نے علامات کو جان کر ٹیسٹ کرانے چھوڑ دیئے ہیں وہ خود کو مریض جان کر آئیسو لیٹ کرلیتے ہیں اس طرح مریضوں کی تعداد کم نظر آتی ہے لیکن یہ بھی خوش نصیبی ہے کہ اموات کی تعداد بھی کم ہے۔ ادھر پنجاب میں کچھ نہ کچھ مسئلہ ہے پنجاب کے وزیر جنگلی حیات و ماہی پروری ملک اسد کھوکھر عہدے سے فارغ ہوگئے اب یہاں سوال اٹھ گئے کہ ان سے استعفیٰ لیا گیا یا وہ خود مستعفی ہو گئے؟ کہا جا رہا ہے کہ مبینہ کرپشن کی خفیہ رپورٹ پر وزیر اعظم نے انہیں ہٹایا ایک اطلاع کے مطابق یہ فیصلہ رنگ روڈ کی تعمیر اور ریور راوی کے منصوبہ پر اعلیٰ سطح کے پارٹی اختلافات سامنے آنے کے بعد کیا گیا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے رپورٹ تیار کرکے وزیراعظم کو بھجوائی تھی بہرحال اصل صورتحال جلد سامنے آ جائے گی ادھر وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ موجودہ پنجاب حکومت کا کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔عین ممکن ہے کہ وہ صحیح کہہ رہے ہوں لیکن شوگر درآمدات میں سبسڈی دینے کا معاملہ ابھی طے نہیں ہوا یہ اربوں روپے کا معاملہ ہے۔