آٹے کا بحران

July 24, 2020

جب سیاست اور کاروبار مل جائیں تو عوام کی شامت آ جاتی ہے ۔ کاروبار کا مقصد منافع کمانا اور سیاست کا میدان ہے عوام کی خدمت کرنا۔ بھلا یہ دو متضاد عناصر ایک ساتھ کیسے چل سکتے ہیں۔ بحران آٹے کا ہو یا چینی کا۔ پٹرول غائب ہو جائے یا بجلی کی آنکھ مچولی ہو، ان سب بحران کی جڑ ایک ہی ہے۔ جن کے ذمے عام آدمی کو سہولتیں پہنچانا تھا وہی کاروبار کرنے لگ گئے اور جائز اور ناجائز منافع کی دوڑ میں مصروف ہوگئے تو اب غریب کی کون سُنے گا۔وطن عزیز میں گندم کی قلت کا پہلا سامنا 1952ء میں خواجہ ناظم الدین کے دورِ حکومت میں ہوا اور اس کے لئے امریکہ سے گندم درآمد کی گئی۔

یہ وہ وقت تھا جب ہماری گندم کی پیداوار ہماری آبادی کی ضروریات سے کم تھی لیکن زراعت پر مسلسل توجہ کی بدولت اور انواع و اقسام کے بیجوں کے تجربات اور فرٹیلائزر کی دستیابی سے گندم کی پیداوار بڑھتی رہی۔ فصلوں کو پانی ملتے رہنا چاہئے۔ بارشوں سے سیراب ہونے والی زمین سے ایک محدود پیداوارہوتی ہے، کیونکہ ہمارے ہاں بارشوں کا صرف ایک موسم ہے مئی سے ستمبر گرمی کے مہینے۔ ہماری بیشتر زمینیں نہروں سے سیراب ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے ہمارا نہری نظام بڑھتا گیا اور جب دریائے جہلم پر منگلا بند کی تعمیر اور دریائے سندھ پر تربیلہ بند نے پانی اکٹھا کرنا شروع کیا جو مون سون کے ختم ہونے پر نہروں کو دیا جاسکتا تھا، ہماری زرعی پیداوار بشمول گندم بڑھتی گئی۔ سب سے بڑا فرق اس وقت آیا جب ایک سادہ سی ٹیکنالوجی ہمارے ہاتھ لگ گئی، جسے ٹیوب ویل کہتے ہیں۔

جو زیرزمین پانی کو کھینچ کر کھیتوں کو سیراب کرسکتا تھا تو ایک وقت میں سندھ اور پنجاب کے میدانوں میں چھ لاکھ ٹیوب ویل کام کرنے لگے تھے اور ہم اپنی آبادی کے لیے وافر گندم پیدا کرتے تھے بلکہ کچھ اضافی گندم بھی جو ہمسایہ ملکوں کو ایکسپورٹ کی جاسکتی تھی یا اسمگل ہوتی تھی۔پچھلے دس سال سے ہم مسلسل 25ملین ٹن سے زائد گندم پیدا کررہے ہیں جو بڑھتی ہوئی آبادی کو مناسب قیمت پر آٹا فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔ اکثر و بیشتر ایک سے ڈیڑھ ملین ٹن گندم ہمارے اپنے استعمال کے بعد بچ جاتی ہے تو اصولاً ہمارے ہاں آٹے کا کوئی بحران نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی معمول سے زیادہ قیمتوں میں اضافہ ہونا چاہئے۔

لیکن بُرا ہو، اہلِ ہوس کا جو جائز منافع پر بس نہیں کرتے اور مصنوعی قلت پیدا کر کے حکومت سے بھی قیمت بڑھوا لیتے ہیں اور مارکیٹ میں بھی۔ اور اس پر طرّہ سرکاری اہل کاروں کی نااہلی کا۔ وفاق ہو یا صوبے ہر جگہ محکمہ خوراک موجود ہے جو کسانوں سے بروقت گندم خریدنے کا اور گوداموں میں اسٹاک کرنے کا ذمہ دار ہے، جہاں سے آٹا پیسنے والی ملوں کو گندم ایک منظم پروگرام سے مہیا کی جا سکے۔ لیکن کبھی خریداری بروقت نہیں ہوتی، کبھی ملوں کو، کوٹا دیر سے ملتا ہے اور کبھی گوداموں میں ناقص حفاظتی انتظامات کے سبب گندم ضائع ہوتی ہے۔

آٹا پیسنے والی ملوں کے مالکان کی ایک انجمن ہے۔ یوں تو انجمن بنانے کا سب کو حق ہے لیکن یہ حق کسی کو نہیں کہ آپ ملی بھگت کر کے گندم ذخیرہ کر لیں اور مارکیٹ میں آٹے کے تھیلے نہ سپلائی کریں یا آپس میں طے کر کےقیمت بڑھا دیں۔ اس پر مشکل یہ ہے کہ آٹے کی ملوں والے صرف کاروباری نہیں ہیں یہ سیاست میں بھی دخیل ہیں۔ یہ پارلیمنٹ کے رُکن ہیں اور بعض تو حکومتوں کا حصہ بھی ہوتے ہیں۔

پاکستان ایک بڑی آبادی والا ملک ہے۔ نہ صرف یہ کہ ہم 22کروڑ کی آبادی کے ساتھ دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہیںبلکہ یہ بھی کہ ہماری آبادی میں اضافے کی رفتار 2.4فیصد سالانہ ہے جس کا شمار نہایت اونچی رفتار کے اضافے میں ہوتا ہے۔ اتنی بڑی آبادی کو خوراک کے لیے ہماری کمزور معیشت کیا مہیا کرسکتی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ عوام کی خوراک کا سب سے بڑا حصہ روٹی ہے۔ ہمارے ہاں سالانہ 124کلو آٹا فی کس کھایا جاتا ہے جسے متوازن غذا ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن غریب کو پیٹ بھرنے کے لیے روٹی تو مل جاتی ہے ، گوشت ،سبزی، پھل،انڈے اور دودھ تک جن کی رسائی ہے وہ آٹے کا استعمال کم کردیتے ہیں لیکن ایسا صرف خوشحال شہری آبادی میں ممکن ہے ورنہ ہماری ساٹھ فیصد دیہی آبادی اور غریب تر شہری آبادی کی خوراک روٹی پر ہی منحصر ہے، اس لیے آٹے کی مسلسل سپلائی اور وہ بھی مناسب قیمتوں پر عوام کی زندگی پر سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والا عنصر ہے۔

سال میں گندم کی دو فصلیں ہوتی ہیں۔ خریف کی فصل اپریل میں بوئی جاتی ہے اور ستمبر میں تیار ہوتی ہے جبکہ ربیع کی فصل اکتوبر میں بوتے اور مارچ میں کاٹتے ہیں۔ ہمارے 80 فیصد کسان گندم کی کھیتی میں پورا سال مصروف رہتے ہیں اور 40 فیصد قابل کاشت رقبے پر اس کی فصلیں لہلاتی ہیں جب جا کر 20 سے 24 ملین ٹن سالانہ گندم پیدا ہوتی ہے۔ اس میں سے 40 فیصد پیداوار آٹا پیسنے والی ملوں کے لیے حکومتی خوراک کے محکمے خرید لیتے ہیں تا کہ سارا سال آٹے کی سپلائی بغیر کسی خلل کے جاری رہ سکے۔ 60 فیصد پیداوار کسانوں کے پاس ان کے اپنے استعمال کے لیے رہ جاتی ہے جس میں اگلی فصل کی بوائی کے لیے بیج بھی شامل ہیں۔

کسان کی محنت اپنی جگہ لیکن ہماری فی ایکڑ گندم کی پیداوار ہمسایہ ملکوں سے بہت کم ہے۔ ہم اوسطاً 2700 کلوگندم فی ایکڑ پیدا کرتے ہیں جبکہ مشرقی پنجاب میں 4500 کلو فی ایکڑ کی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ زمین کی خاصیتیں اور موسمی حالات تقریباً ایک جیسے ہیں لیکن بڑا فرق سسٹم کا ہے۔ زرعی تحقیق اور زیادہ پیداوار والے بیج مہیا کرنا، فرٹیلائز کی صحیح قسم اور رعایتی نرخوں پر دستیابی، ٹریکٹر اور ٹیوب ویلوں کی سہولت جیسی مشرقی پنجاب کے زرعی نظام کے تحت کسانوں کو حاصل ہے ۔ہمارے ہاں اس سطح پر نہیں ہے لیکن ان سب کے باوجود ہم اپنی ضرورت کے مطابق گندم پیدا کر لیتے ہیں جو کسی کسی سال ایک سے ڈیڑھ ٹن زائد بھی ہو جاتی ہے۔

لیکن اس سال ہماری پیداوار ضرورت سے ایک ملین ٹن کم رہی۔ وجوہات بیشتر خراب موسم، آندھیاں اور ایسے عوامل رہے کہ ہم 25 ملین ٹن کی پیداوار نہ حاصل کر سکے ۔ اس وقت جو آٹے کا بحران ہے، تو اس کا ایک سبب تو پیداوار میں ایک ملین ٹن کی کمی ہے۔ چلئے فصلوں میں موسمی تغیرات کے باعث اُتار چڑھائو ایک قدرتی عمل ہے۔ لیکن حیرانی ہوتی ہے پالیسیوں پر کہ جب پیداوار میں ایک ملین ٹن کی کمی متوقع تھی تو پھر نصف ملین ٹن ایکسپورٹ کی اجازت کیوں دی گئی۔ یہی چیز چینی کے معاملے میں ہو چکی تھی کہ چینی ایکسپورٹ کی گئی تھی۔ نتیجتاً شہروں کی مارکیٹوں میں قیمت بڑھ گئی اور تب انکوائری کمیٹی بٹھائی گئی اور چینی منگوانے کی اور مقررہ قیمت پر بازار پہنچانے کی تگ و دو شروع ہوئی۔ ایسا لگتا ہے کہ بااثر طبقات اور جن افراد کا ایکسپورٹ سے مفاد وابستہ ہوتا ہے وہ چینی ہو یا گندم فاضل پیداوار نہ ہونے پر بھی ایکسپورٹ کی منظوری حاصل کرلیتے ہیں۔ ایک طرف تو پیداوار میں کمی کے باوجود گندم ایکسپورٹ ہو رہی تھی دُوسری طرف پولٹری فیڈ کے لیے ایک اور ٹن گندم مختص کر دی گئی۔

اسباب پھر وہی ہیں کہ کاروبار آٹا پیسنے کی ملوں کا ہو یا پولٹری فارم کا۔ ہر کاروبار پر طاقتور افراد کی اجارہ داری ہے اور وہی لوگ اہل سیاست بھی ہیں تو پھر ان کا ہاتھ کون روک سکتا ہے اور غریب کے منہ سے نوالہ چھیننے والے ہاتھوں کو کون پکڑے گا۔گندم کی پیداوار میں کمی کا علم اگر حکومت کو تھا تو آٹاملوں کے مالکان بھی بے خبر نہ تھے اور آٹے کے تھیلوں کی قیمتیں بڑھانے کے لیے پر تول رہے تھے بلکہ کچھ قیمت بڑھا بھی چکے تھے۔

قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے محکمہ خوراک کو یہ تدبیر سوجھی کہ اگر نئے سال کا کوٹہ ایک ماہ پہلے ہی ملوں کو پہنچانا شروع کر دیا جائے تو ان کے لئے ذخیرہ اندوزی مشکل ہو جائے گی اور وہ مارکیٹوں میں آٹے کی ترسیل کو تیز کر دیں گے لیکن مل مالکان اس کے لئے بھی تیار بیٹھے تھے اور مسئلہ وہیں کا وہیں رہا بلکہ جو ایک متوازن دور گندم کی سپلائی اور آٹا پیسنے کے عمل کا تھا وہ بھی پٹری سے اُترنے لگا۔

ملک بھر میں آٹا پیسنے کی 1400 ملیں ہیں۔ یوں تو یہ پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن ایک بڑی تعداد یعنی دو تہائی ملیں صرف پنجاب میں ہیں۔ ایک درمیانی یا بڑی مل سو سے ڈیڑھ سو ٹن گندم روزانہ پیسنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان میں سے چند ایک ہی باہر سے منگوائی گئی مشینوں پر مشتمل ہوں گی ورنہ اکثریت پاکستانی ساختہ کل پرزوں سے ہی بنی ہوتی ہیں۔ یہ گندم سے موٹا آٹا، باریک آٹا، میدہ اور سوجی کے تھیلے تیار کرتی ہیں۔

ان ملوں کے کارکنوں کی تربیت کا کوئی خاص انتظام نہیں، بس یہ کام کرتے کرتے خود ہی سیکھ جاتے ہیں۔ غرض یہ ایک سادہ صنعتی عمل ہے۔ اس میں زیادہ سرمائے کی ضرورت بھی نہیں اس لئے ان ملوں کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہے۔ ان کے لگانے کا اصل سبب متوقع منافع ہے جو گورنمنٹ کے مقرر کردہ گندم کے کوٹے سے آٹے کے تھیلے بنانے سے حاصل ہوتا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ جب یہ تھیلے افغانستان طورخم کے راستے ایکسپورٹ ہوتے ہیں۔

یہ بتانا مشکل ہے کہ کتنا آٹا اسمگل ہوتا ہے کیونکہ پاکستانی آٹے کا تھیلا ہمسایہ ملکوں سے سستا ہوتا ہے اس لئے یہ تین ہمسایہ ملکوں میں سرحد پار جاتا ہے اور کبھی کبھی ملک کے اندر بحران کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ہمارے اکثر بحران مصنوعی اور خودساختہ ہوتے ہیں۔ یعنی اشیا کی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ اور بھاری منافع کا حصول۔ پچھلے دنوں جو پے در پے بحران آتے رہے ان سب کی تہہ میں یہی عمل کارفرما تھا۔ لیکن حقیقی بحران وہ ہوتا ہے جو ہمارے کنٹرول سے باہر ہو۔ قدرتی اسباب سے یا ہماری بے توجہی سے۔ آٹے یا گندم کا بحران دو ایسے عوامل سے نتھی ہیں جنہیں ہم حقیقی بحران کہہ سکتے ہیں اور جن کے حل کے لیے ہمارا کوئی عملی پلان نہیں۔ وہ ہے بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کی عدم دستیابی۔

دُنیا کے نقشے پر جب پاکستان نمودارہوا تو جس خطے کو ہم آج پاکستان کہتے ہیں اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی۔ پانچ دریائوں کی سرزمین تھی اور ہمالیہ کی چوٹیوں کے گلیشیئر تھے جہاں سے پانی آتا تھا۔ تو جتنا پانی ہمیں دستیاب تھا جب اسے ساڑھے تین کروڑ کی آبادی سے تقسیم کرتے تو فی کس پانی پانچ ہزار کیوبک میٹر بنتا تھا، جو ہماری زراعت صنعت اور گھریلو استعمال کے لیے کافی تھا۔ پانی تو وہی رہا لیکن آبادی بڑھتی چلی گئی اور وہ بھی دُنیا میں تیز ترین رفتار سے۔ صرف ستّر سال میں ہماری آبادی 22 کروڑ ہوگئی یعنی پانچ گنا زیادہ۔ تو اب جب اسی پانی کو ہم 22 کروڑ سے تقسیم کرتے ہیں تو فی کس پانی صرف ایک ہزار کیوبک میٹر ہر فرد کے حصے میں آتا ہے۔ یہ وہ آخری حد ہے جس کے نیچے جانے سے ہم پانی کے قحط والے ملکوں میں شمار ہوں گے۔ ابھی 2009ء تک ہمارا اوسط 1500 کیوبک میٹر فی کس پانی تھا لیکن ہر سال کی بڑھتی آبادی اس تناسب کو نیچے گراتی جا رہی ہے۔ ہم آبادی کی روک تھام کی کوئی کارروائی کرتے ہیں نہ پانی کے ذخیرے بڑھانے کی طرف ہمارا کوئی قدم ہے۔

ہمارے پہاڑوں پر چھوٹے بڑے پانچ ہزار گلیشیئر جب مئی کےمہینے میں پگھلنا شروع ہوتے ہیں تو ہمارے دریائوں میں 145 ملین ایکڑ فٹ پانی بہہ رہا ہوتا ہے۔ یہ پانی ہم نہروں کے ذریعے کھینچ کر خشک زمین تک لے جاتے ہیں اور کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ لیکن بہتے پانی کو سال بھر کے لیے ذخیرہ کرنے کے لیے ہمارے پاس صرف دو بڑے ڈیم ہیں۔ منگلا ڈیم جو ساڑھے چھ MAF پانی ذخیرہ کرتا ہے اور تربیلا ڈیم 7MAF۔

اسی طرح صرف ساڑھے تیرہ ملین ایکڑ فٹ پانی دونوں ڈیموں کی جھیلوں میں جمع ہوتا ہے حالانکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم کم از کم 40 ملین ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ کریں اوراس کے لئے کئی بڑے ڈیم بنائیں۔ ایک ڈیم یعنی دیامیر بھاشا ڈیم ہمارے پلان میں ہے جس کا کئی برسوں سے ہم ذکر سُنتے آ رہے ہیں۔ جس کے لئے ہم نے کچھ فنڈ بھی اکٹھا کرنے کی مہم چلائی اور جس کا افتتاح حال ہی میں وزیراعظم نے کیا ہے۔ یہ ایک ڈیم بھی بن جائے تو ہمیں سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔ لیکن اس کی جو لاگت ہے اور اس کی تعمیر میں جو وقت لگنا ہے وہ حوصلہ شکن ہے۔

لیکن اگر قوم کمر کس لے تو ممکن بھی ہے اور پھر اس کے بعد اگلا بند بھی تعمیر ہوجائے۔پانی کا ذخیرہ کرنا ایک کام ہے لیکن ہمارا زرعی نظام ایسا ہے جس میں پانی بہت ضائع ہوتا ہے۔ ہماری نہریں بہت کم حصوں میں پختہ ہیں اور کچی نہروں میں بہت سا پانی جذب ہونے سے ضائع ہو جاتا ہے۔ اس طرح فصلوں کو پانی دینے کا ہمیں ایک ہی طریقہ آتا ہے اور وہ ہے کہ نالیوں میں پانی چھوڑ دیا جائے۔ یہ بھی بے تحاشہ زیاں کا سبب ہے۔ پھر وہ فصلیں جو کم پانی مانگتی ہیں اور دوسری فصلیں جنہیں بہت زیادہ پانی چاہئے۔

ہم نے گنّے کی فصل بہت بڑھا لی جو کپاس سے پانچ گنا زیادہ پانی پی جاتی ہے۔ غرض ہمارے پاس کرنے کے بہت کام ہیں جس سے ہم غذائی بحرانوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں لیکن یہ سب طویل المدت پلاننگ اور سخت مانیٹرنگ مانگتے ہیں۔ آنے والے برسوں میں گندم یا آٹے کا بحران ایک تو پانی کی کمی کے سبب واقع ہو سکتا ہے لیکن اگر ہم اتنی ہی گندم اُگاتے رہیں جتنی آج اُگا رہے ہیں تو آبادی کا اضافہ بحران پیدا کر دے گا۔

آبادی میں اضافے کا موضوع وطن میں متنازع ہے اس کی روک تھام کے حامی بھی ہیں اور مخالفین بھی۔ اس بارے میں سب سے پہلی کوشش ایوب خان کے دور میں ہوئی جسے خاندانی منصوبہ بندی کا نام دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد قوم ایسے بحرانوں میں مبتلا ہوئی کہ اس کا کسی کو خیال بھی نہ رہا۔ لیکن کوئی کچھ بھی کہے یہ حقیقت تو اپنی جگہ رہے گی کہ بڑھتی آبادی کو گندم بھی چاہئے اور پانی بھی۔ اگر آبادی کوبڑھنے دیتے ہیں تو پھر وہ تمام اقدامات بھی اُٹھایئے جو پانی کے استعمال کو ایسے کارگر طریقے سے کیا جائے کہ وہ فصلوں کو بھی پہنچے اور انسانی ضرورتیں بھی پوری ہوں۔ گندم کی پیداوار کے لیے مزید رقبہ کاشت کے قابل بنانا پڑے گا۔

ایسے بیجوں کی تلاش کرنا پڑے گی جو فی ایکڑ پیداوار بڑھائیں۔ فرٹیلائزر اور ٹریکٹر رعایتی داموں اور وافر سپلائی میں کسانوں تک پہنچانا ہوگا۔ ہم اب تک آبادی اور گندم کی پیداوار میں اضافہ برقرار رکھتے آئے ہیں۔ اگر ہم آنے والے دنوں میں بھی یہ کر سکیں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔

گندم اور پانی کی قلت

پاکستان کو ان 36 ملکوں میں شامل کیا جا رہا ہے جہاں پانی کی قلت ہے اور چند برسوں میں یہ قلت شدید ہو سکتی ہے۔ جب ہماری آبادی بڑھتے بڑھتے 20 کروڑ ہوگئی تو ہمارے پاس فی کس دستیاب پانی 1000 مکعب میٹر کی سطح پر آ گیا اور یہ خطرے کی گھنٹی تھی۔ اب جیسے جیسے ہماری آبادی بڑھتی رہی ہے، فی کس پانی 1000 مکعب میٹر سے بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ 2025ء تک ہم 500 مکعب میٹر کی سطح تک نہ پہنچ جائیں تو پھر ہمارا شمار شدید قلت والے ملکوں میں ہونے لگے گا۔

لیکن ایسا ہو کیوں رہا ہے؟۔ ہم پانچ دریائوں کی سرزمین ہیں۔ دُنیا کے بڑے بڑے گلیشیئر ہماری سرحدوں کے اندر واقع اُونچے پہاڑوں پر موجود ہیں جن کے پگھلنے سے دریائوں میں پانی رواں دواں ہوتا ہے۔ اس کی تین وجوہات ہیں۔ اوّل آبادی میں اضافہ، دوم پانی کا زیاں اور سوم موسمیاتی تبدیلیاں۔ دریائوں کے پانی کو سمندروں میں بہنے سے روکنے کے لیے ڈیم بنائے جاتے ہیں۔ ہم نے 1965 میں منگلا ڈیم اور 1978ء میں تربیلا ڈیم بنا لئے تھے۔

1986 میں ہم کالا باغ ڈیم بنانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ تمام ابتدائی سروے ہوچکے تھے۔ تعمیر کا ڈیزائن اور تخمینہ لگ چکا تھا اور ورلڈ بینک سرمایہ مہیا کرنے کے لیے تیار تھا کہ اچانک اس پر اعتراضات اٹھنے لگے۔صوبہ سرحد کا خیال تھا کہ کالا باغ کے مقام پر جب دریائے سندھ کے پانی کو روکا جائے گا تو ایک جھیل بن جائے گی جس کی سطح اتنی بلند ہوگی کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا۔

صوبہ سندھ کو اعتراض تھا کہ دریائے سندھ پر پہلے تربیلہ ڈیم بن چکا ہے جو ساڑھے سات ملین ایکڑ فٹ پانی روکتا ہے۔اب اگر اس پر ایک دوسرا ڈیم یعنی کالا باغ ڈیم تعمیر ہوا تو دریائے سندھ میں پانی کم ہو جائے گا اور جب یہ سندھ کے علاقوں میں داخل ہوا تو اس میں پانی سیرابی نہیں کرسکے گا، خصوصاً کچے کا علاقہ بالکل سوکھ جائے گا۔ سندھ کے انجینئروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈیلٹا میں بھی اتنا پانی پہنچنا چاہئے کہ ساحلی کٹائو سے زمین ضائع نہ ہو یا ساحلی علاقےکی پٹی شورزدہ پانی میں آجائے۔

یہ بحث بیس سال چلتی رہی لیکن صوبوں میں اتفاق رائے نہ ہوسکا اور اب اس کا ذکر سننے میں نہیں آتا۔ اس ڈیم کی لاگت صرف تین ارب ڈالر تھی اور یہ چھ سال میں بن جاتا۔ اب بیس سال گزرنے کے بعد ہم نے دیامیر بھاشا ڈیم میں ہاتھ لگایا ہے۔ جس پر 14ارب ڈالر کا خرچہ آئے گا اور یہ دس سے بارہ سال میں مکمل ہوگا۔موسمیاتی تبدیلی کی زد میں یوں تو پورا کرہ ارض ہے لیکن ہم چونکہ گرم ملک ہیں اور ہمارے بڑے علاقے ریگستانی یا خشک زمین پر مشتمل ہیں اس لیے ایک درجہ حرارت کے بڑھنے کے واضح اثرات محسوس ہوں گے۔زراعت کے لیے جو پانی ہم استعمال کریں گے وہ جلد بخارات بنے گا اور زمین کو نم رکھنے کے لیے زیادہ پانی کی ضرورت ہوگی اگر ہم نے اپنے زراعتی طور طریقے نہ بدلے تو موجودہ پانی کی مقدار ہمیں گندم یا کسی بھی فصل کے لیے ناکافی ہونے لگے گی اور آٹے کا بحران اور دیگر اجناس کی دستیابی بھی خطرے میں پڑے گی۔

پانی کی قلت شہروں میں بھی محسوس ہوتی ہے پاکستان کے 24 بڑے شہروں میں ہر شہر کا بڑا حصہ پانی کی قلت کا سامنا کرتا ہے۔ کراچی کچی آبادیوں میں رہنے والوں کو پائپ کا پانی ملتا ہی نہیں اور وہ ٹینکروں سے پانی خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ملک میں دستیاب پانی کا نوے فیصد زراعت میں استعمال ہوتا ہے جس میں گندم، چاول ،گنا، کپاس بڑی فصلیں ہیں ان فصلوں کو سیراب کرنے کے طریقے اتنے پرانے ہیں کہ وہ 60فیصد پانی کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں اگر ہمیں ملک کو زرعی طور پر خودکفیل رکھنا ہے تو ہمیں پانی کی قلت سے بچنا ہوگا اور ایسی پلاننگ کرنا ہوگی کہ جو بھی پانی استعمال ہو اس کے نتیجے میں اتنی فصل ہاتھ آئے کہ ہم اسے پانی کا نفع بخش استعمال کہہ سکیں۔