کم توانائی خرچ کرنے والے گھروں کی تعمیر

July 26, 2020

کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں لاگو ہونے والے لاک ڈاؤن کے ماحولیات پر انتہائی مثبت اثرات دیکھے گئے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے اس اچھی خبر پر بھی دِل خوش ہونے کا نام نہیں لیتا کہ یقیناً اس عالمی وبا کے باعث دنیا تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، جہاں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہے۔

پائیدار ترقی کے اہداف 2030ء میں ایک ہدف یہ بھی ہے کہ دنیا میں بڑھتے درجہ حرارت کو کس طرح قابو میں رکھا جائے، وگرنہ ہم جس سیارے (زمین) پر رہتے ہیں، یہ انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گا کیونکہ درجہ حرارت حد سے زیادہ بڑھ جائے گا۔ عالمی درجہ حرارت بڑھنے میں سب سے بڑا کردار کاربن اخراج کا ہے اور بدقسمتی سے یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر کاربن اخراج میں چالیس فی صد حصہ تعمیراتی عمارتوں کا ہے اور انڈسٹری کے تمام تر دعوؤں کے باوجود اس میں ہر سال ایک فی صد کا قابلِ تشویش اضافہ ہورہا ہے۔

ہرچند کہ دنیا میں سبز تعمیرات (گرین کنسٹرکشن) کے حوالے سے کنکریٹ سے لے کر انسولیشن تک جدت لانے پر کام ہورہا ہے لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ابھی اس سطح پر جاکر کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان ’انرجی ایفیشنٹ‘ عمارتوں کی تعمیر پر توجہ دے کر ناصرف توانائی کے خرچ میں بچت لاسکتا ہے بلکہ اس سے ماحولیاتی گرمی کو بھی اعتدال میں رکھنے میں مدد ملے گی۔

انرجی ایفیشنٹ گھر

انرجی ایفیشنٹ سے مراد ایسا گھرہے، جہاں آپ توانائی کا دانشمندانہ استعمال کریں یا پھر ایسے متبادل کا انتخاب کریں جو آپ کی جیب اور ماحول پر گراںنہ گزرے۔ اب جبکہ شمسی توانائی (سولر انرجی) کا زمانہ ہے تو آپ پرائمری پاور ذرائع کیلئے 100فیصد شمسی توانائی پر انحصار کر سکتے ہیں۔

شمسی توانائی کا تعارف

دھوپ سے حاصل ہونے والی توانائی ’’سولر انرجی‘‘ یا ’’شمسی توانائی‘‘ کہلاتی ہے۔ دھوپ کی تپش کو پانی سے بھاپ تیار کرکے جنریٹر چلانے اور بجلی بنانے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دھوپ قدرت کا عطیہ ہے، ہر روز دنیا پر اتنی دھوپ پڑتی ہے کہ اس سے کئی ہفتوں کے لیے بجلی تیار کی جا سکتی ہے۔

سولر ٹائلز

ہمارے ملک میں اکثر لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ رہتا ہے۔ بجلی کے بار بار تعطل کے نتیجے میں گھر کی برقی مصنوعات کو نقصان سے بچانے کیلئے ہمیں توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے، اس کا سب سے آسان اور سستا حل سولر پینل ہے۔ تین طرح کے سولر پینلز دنیا بھر میں استعمال ہوتے ہیں، سنگل کرسٹل سیلیکون پینلز یا مونوکرسٹلائن، پولی سیلیکون پینلز یا پولی کرسٹلائن اور ٹی ایف ٹی پینلز۔ عموماً صارفین کی جانب سے سنگل کرسٹل سیلیکون یا پولی سیلیکون پینلز کا انتخاب کیا جاتاہے، طلب کی وجہ سے مارکیٹ میں ان کی بھرمار ہے۔

اس کے علاوہ برطانیہ کی گلاسگو یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایسے ٹائلز بھی ایجاد کیے ہیں جونہ صرف بجلی پیدا کر سکتے ہیں بلکہ انسان کا وزن برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ واٹر پروف بھی ہیں۔ سڑکوں پر سولر ٹائلز کی تنصیب سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ متبادل توانائی کے بہت سارے ذرائع قدرت نے ہمیں دیے ہیں۔ ان کا دانشمندانہ استعمال کرکے ہم بہت سے مسائل سے بچ سکتے ہیں اور ایک آرام دہ زندگی گزار سکتے ہیں۔

دیواروں کی تعمیر

عمارت کے بیرونی اور اندرونی حصے میں دیواریں، چھتیں، فرش، کھڑکیاں اور دروازے وغیرہ مل کر ایک عمارت کی شکل سامنے لاتے ہیں۔ اگر اسی خاکے میں مؤثر توانائی والے پہلو شامل کرلیے جائیں اور کم توانائی سے ملنے والی بھرپور روشنی، حرارت، ٹھنڈ ک اور ہواکی آمد و رفت کا بہتر نظام ہو تو یوٹیلیٹی بلز پر آنے والے اخراجات میں کافی کمی آسکتی ہے۔ اپنے مکان کا ڈھانچہ کھڑا کرتے وقت آپ درج ذیل اقدامات کرسکتے ہیں۔

٭ دیواروں میں کسی قسم کا رخنہ نہ ہو، بھرائی کرکے ہر قسم کے لیکیج کو بند کیا جائے۔

٭ ہوا کی آمدورفت میں رکاوٹوں کو دور کرکے اس کا بہتر نظام بنائیں۔

٭ چھت کو ٹھنڈا رکھنے اور دھوپ کی شد ت سے بچنے کے لیے اس کے اوپر پودے وغیرہ یاشیڈ لگایا جائے۔

ایل ای ڈی لائٹس

بجلی کے لوڈ کو کم کرنے کے لیے ایل ای ڈی لائٹس کا استعمال کیا جائے جو کہ بہت کم بجلی استعمال کرتی ہیں جبکہ چلتی بھی زیادہ ہیں۔ یہ قدرے مہنگی ہوتی ہیں مگر طویل المیعاد بنیادوں پر کفایتی رہتی ہیں۔ اسی طرح انورٹر والے ریفریجریٹرز، فریزر اور ایئرکنڈیشنرز بھی مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں تعمیراتی شعبے میں آنے والی تیزی کے پیشِ نظر یہ بات بآسانی کہی جاسکتی ہے کہ آج صورتِ حال 2013ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ گھمبیر ہوچکی ہے۔

گلوبل کمیشن آن اکنامک اینڈ کلائمیٹ افیئرز کے مطابق 2050ء تک تعمیراتی صنعت مزید 470ارب ٹن کاربن خارج کرے گی۔ ان حقائق کے پیشِ نظر تعمیراتی صنعت کے لیے یہ ایک چیلنج ہے کہ وہ کنکریٹ کے استعمال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کاربن گیس کے اخراج کو کس طرح کم کرتی ہے۔