عیدالاضحی کے اقتصادی پہلو

July 29, 2020

دیگر اسلامی تہواروں کی طرح عیدالفطر اور عیدالاضحی کے تہواروں کے بھی دو پہلو ہیں یعنی دینی اور دنیاوی۔ ان دونوں تہواروںمیں کئی قدریں مشترک ہیں۔ ان کا ایک پہلو ایک دوسرے میں خوشیاں بانٹنے کا ہے اور دوسرا پہلو اپنے اندر خدا ترسی اور قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کا ہے۔ ان دونوں پہلوئوں کی دینی کے ساتھ دنیاوی اہمیت بھی ہے۔ اگر عیدین کے فلسفے پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو اس کے سماج پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

ان دونوں تہواروں میں یہ قدر مشترک ہے کہ ان مواقعے پر بڑے پیمانے پر مالی اور معاشی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اگر ہم ان سرگرمیوں کے پس منظر میں کارفرما فلسفے کو سمجھ لیں تو اسلامی معاشرے کی چند برس میں کایا پلٹ سکتی ہے۔ یہ دونوں تہوار صاحبان ثروت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے مال میں سے مقررہ حد تک مال نکال کر دوسروں کے حوالے کردیں یا اپنی عزیز ترین شے کو اللہ کی راہ میں قربان کردیں۔

عیدالاضحی میں جانوروں کی خریداری اور دیگر متعلقہ امور پر بھی بھاری رقوم خرچ ہوتی ہیں۔ قربانی کے بعد جانوروں کی مختلف باقیات کی خرید و فروخت اور ان سے مختلف مصنوعات کی تیاری اور اندرون و بیرون ملک فروخت کی معاشی اور اقتصادی سرگرمیوں کا طویل سلسلہ ہے۔ اس طرح اسلامی معاشرے میں ہر سال ان تہواروں کے مواقع پر زر کی زبردست گردش دیکھنے میں آتی ہے اور ارتکازِ دولت پر زبردست ضرب لگتی ہے۔ تاہم یہاں ہم صرف عیدالاضحی کے موقعے پر ہونے والی مالی اور معاشی سرگرمیو ںاور ان سے متعلق معاملات کا تذکرہ کریں گے۔

قربانی کے جانوروں کی کھالیں اور ہماری چمڑے کی صنعت

ہماری چمڑے کی صنعت ایک روایتی صنعت ہے اور پاکستان کے جی ڈی پی اور مینو فیکچرنگ جی ڈی پی میں اس کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کے جی ڈی پی میں اس صنعت کا حصہ ایک فی صد اور مینو فیکچرنگ جی ڈی پی میں 6 فی صد ہے۔ یہ صنعت تقریباً ڈھائی لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے اور ملک کے مجموعی ذرایع روزگار میں اس کا حصہ 0.70 فی صد ہے۔

اس صنعت میں سرگرمیوں کا آغاز جانوروں کی کھالوں کی خریداری سے ہوتا ہے اور اختتام چمڑے سے مختلف مصنوعات تیار کرکے انہیں اندرون اور بیرون ملک کی منڈیوں میں فروخت کرنے پر ہوتا ہے ۔لیکن اس دوران کھال کئی مراحل سے گزرتی ہے پھر چمڑے کا روپ دھار لیتی ہے اور اس کی ویلیو ایڈیشن ہوتی ہے۔ یہ مراحل طے کرنے کے لیے انسانی ہاتھوں، مختلف مشینوں، کیمیکلز اور ڈائیز (رنگوں) کا سہارا لیا جاتا ہے۔ سب سے پہلا مرحلہ کھال کو محفوظ بنانے کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ٹیننگ کا مرحلہ آتا ہے پھر مینو فیکچرنگ اور برآمدات کے مراحل طے ہوتے ہیں۔

دنیا بھر کی لیدر گارمینٹس کی برآمدات میں پاکستان کا حصہ تقریباً 8 فی صد ہے اور ملکی برآمدات میں اس شعبے کا حصہ تقریباً سات فی صد ہے۔ پاکستان میں تقریباً 750ٹینریز، لیدر گارمنٹس اور ایپرلز بنانے والے 761صنعتی یونٹس، فٹ ویئر بنانے والے 524،دستانے بنانے والے 348 ، چمڑے کی مختلف اشیاء تیار کرنے والے 142اور چمڑے سے کھیلوں کا سامان تیار کرنے والے 160رجسٹرڈ صنعتی یونٹس ہیں۔ یہ تمام ادارے پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہماری ٹینریز 90 ملین مربع میٹر چمڑا صاف کرتی ہیں۔ ہمارے ادارے 70 لاکھ لیدر گارمنٹس اور ایپرلز، دستانوں کے ایک کروڑ جوڑے فٹ ویئرز کے 20 کروڑ جوڑے تیار کرتے ہیں۔

پاکستان سے صرف چمڑے کی مصنوعات ہی نہیں بلکہ چمڑا بھی مختلف ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے، لیکن ہماری چمڑے کی صنعت ویلیو ایڈیشن کے معاملے میں دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔ ہم صرف 20 فی صد فنشڈ چمڑا تیار کرتے ہیں اور ہمارے اداروں میں تیار ہونے والی لیدر گارمنٹس اور ایپرلز کا صرف 26 فی صد اور فٹ ویئرز کا صرف 50 فی صد حصہ ویلیو ایڈڈ ہوتا ہے۔ ہماری چمڑے کی صنعت میں درمیانے درجے کی ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے۔

ایک طرف ہم اور دیگر اسلامی ممالک ہیں جہاں عیدالاضحی کے موقعے پر بڑی تعداد میں قربانی کے جانوروں کی کھالیں جمع ہوتی ہیں اور دوسری طرف وہ ممالک ہیں جو چمڑے اور چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات میں سرفہرست ہیں ۔تاہم ان ممالک کی فہرست میں صرف دو اسلامی ممالک کے نام شامل ہیں، یعنی پاکستان اور ترکی اور وہ بھی بہت ہلکے پھلکے انداز میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر سال چند خاص ایام میں بہت بڑی تعداد میں کھالیں پیدا کرنے والے زیادہ تر اسلامی ممالک میں انہیں محفوظ کرنے، ان کی ویلیو ایڈیشن کرنے اور ان سے عالمی معیارکی مصنوعات تیار کرنے والے ہنر مند اور سہولتیں نہیں ہیں۔ اس وقت لیدر فٹ ویئرز برآمد کرنے میں چین، اٹلی، اسپین، جرمنی اور بیلجیئم نمایاں ہیں۔ Raw skins/Hides برآمد کرنے میں امریکا، ڈنمارک، آسٹریلیا، فرانس اور کینیڈا سب سے آگے ہیں۔

چمڑا برآمد کرنے والے ممالک میں اٹلی، چین، برازیل، کوریا اور امریکا، چمڑے کی دیگر مصنوعات برآمد کرنے والے ممالک میں چین، اٹلی، فرانس، آسٹریا اور جرمنی چمڑے کے دستانے برآمد کرنے میں چین، بھارت، پاکستان، اٹلی، جرمن اور لیدر گارمنٹس برآمد کرنے والے ممالک میں چین، اٹلی، پاکستان، بھارت اور ترکی سرفہرست ہیں۔

پاکستان سےزیادہ تر امریکا، انگلستان، جرمنی، جنوبی افریقا، متحدہ عرب امارات، اسپین، فرانس، یونان، بیلجیم، نیدر لینڈ، کینیڈا، اٹلی، سویڈن، ڈنمارک، جاپان، ترکی، آسٹریلیا، ہانگ کانگ، سعودی عرب، چیک ری پبلک، ہنگری، پرتگال، آسٹریا، روس، چین، سوئٹزرلینڈ، کویت، فن لینڈ، ناروے، ملائیشیا، قطر، نیوزی لینڈ، آئرش ری پبلک، انڈونیشیا، قبرص، سلوینیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ، سری لنکا، عمان، لٹویا، اردن، سلوویک ری پبلک، یمن، ماریشس، مالٹا اور کینیا وغیرہ کو لیدر گارمنٹس برآمد کی جاتی ہیں۔

ان کے علاوہ بھی بعض ممالک کو برآمدات کی جاتی ہیں ،تاہم ان کا حجم کم ہوتا ہے۔ ہمارے بڑے خریدار ممالک میں امریکا، انگلستان، جرمنی، جنوبی افریقا، متحدہ عرب امارات، اسپین، فرانس، یونان اور بیلجیئم ہیں۔ ہماری 85فی صد برآمدات امریکا، انگلستان، چین، ہانگ کانگ اور کوریا کے لیے ہوتی ہیں۔

دنیا کی دیگر منڈیوں کی طرح چمڑے اور چمڑے کی مصنوعات کی بھی عالمی منڈی پر چین آہستہ آہستہ چھاتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں حکومت اس صنعت کو زر تلافی دیتی ہے۔ بھارت بھی اپنے برآمد کنندگان کو سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ ہمارے برآمد کنندگان کے لیے ان کا مقابلہ کرنا روز بہ روز مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے اور بہت سے افراد اس صنعت سے منہ موڑ چکے ہیں۔

عیدِ قرباں ملک اور قوم کے لیے ترقی اور خوش حالی کا سبب بن سکتی ہے

اگر ہم مناسب توجہ دیں اور پرخلوص انداز میں اقدامات اٹھائیں تو عید قرباں ملک اور قوم کے لیے ترقی اور خوش حالی کا بھی سبب بن سکتی ہے۔ اس موقعے سے ہم کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ چمڑے اور اس کی مصنوعات کی بین الاقوامی منڈی میں کاروبار کا کل حجم کتنا ہے، اس میں ہمارا حصہ کتنا ہے، ہم اس سے کس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس ضمن میں چرمِ قربانی کیا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ چمڑے اور اس کی مصنوعات کی بین الاقوامی منڈی میں کاروبار کا کل حجم 70 سے 80 ارب امریکی ڈالرز کے مساوی بتایا جاتا ہے۔

امریکا اور یورپی یونین کے ممالک اس منڈی میں آنے والے کل چمڑے اور چمڑے کی مصنوعات میں سے 50 فی صد مال خریدتے ہیں ۔اگر ہم چمڑے اور اس کی مصنوعات کی برآمدات میں صرف ایک فی صد کا اضافہ کردیں تو ہمیں بین الاقوامی منڈی میں سے ایک تا دو ارب امریکی ڈالرز کا حصہ مل سکتا ہے ۔لیدر گارمنٹس اس صنعت کا ذیلی شعبہ ہے۔ اس شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اسے سہولتیں فراہم کرے تو صرف وہ ایک ڈیڑھ ارب امریکی ڈالرز کے مساوی مالیت کی برآمدات کو ممکن بنا سکتا ہے۔

لیدر فٹ ویئرز کی بین الاقوامی منڈی میں ہمارا حصہ بہ مشکل ایک فی صد ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارا ٹیننگ سیکٹر اپنی کل استعداد کار کا 40 فی صد استعمال نہیں کر رہا۔ لاہور میں کئی فٹ ویئرز یونٹ اپنی 50 فی صد پیداواری صلاحیت استعمال نہیں کر رہے۔ لیدر گڈز سیکٹر بہت کم زور ہے ،حالاں کہ بین الاقوامی منڈی میں اس شعبے کے لیے تقریباً 10 ارب امریکی ڈالرز کے مساوی مالیت کی گنجایش موجود ہے ۔ہمارے چند بڑے برآمد کنندگان کے علاوہ زیادہ تر برآمد کنندگان کم معیار اور نرخ کی گارمنٹس تیار کر رہے ہیں۔

ہم زیادہ تر کام کے دوران استعمال ہونے والے دستانے اور جیکٹس تیار کر رہے ہیں۔ ہمارے چمڑے کے معروف برانڈز میں بیرونی تجارتی اداروں کی سرمایہ کاری تقریباً صفر ہے۔ صرف چند اداروں کے برانڈز معروف ہیں باقی یا تو فرنچائز ہیں یا جاب ورکرز کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اگر ہم سنجیدگی سے کوشش کریں تو پانچ دس برس میں اس صنعت کی برآمدات کو ڈیڑھ تا دو ارب امریکی ڈالرز کے مساوی کرسکتے ہیں۔

ہمارےبرآمد کنندگان کو عمدہ معیار کا چمڑا کم اور مشکل سے ملتا ہے۔ بڑے جانوروں کی خام کھال بڑ ی تعداد میں ایران اور ترکی اسمگل ہوجاتی ہیں۔ مذبحوں کی حالت خراب ہونے سے بھی کھالوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ مذبحوں کی حالت بہتر بنانے، وہاں کوالٹی کنٹرول اور منیجمنٹ کو بہتر بنانے، قصابوں کو مناسب تربیت دینے، ضروری آلات اور مشینری کی درآمد پر سے ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

عالمی معیار کا چمڑا اور چمڑے کی مصنوعات تیار کرنے کے لیے خاص اقسام کے کیمیکلز کی ضرورت ہوتی ہے جن پر درآمدی ڈیوٹی 5 تا 25 فی صد ہے۔ اس میں مناسب حد تک کمی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں زپر، بٹن، فیوزنگ، لائننگ، فر وغیرہ تیار کرنے کی صنعتیں نہیں ہیں یا ان کی تعداد بہت کم ہے، لہٰذا ہم یہ اشیاء درآمد کرتے ہیں جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ملک میں ان صنعتوں کو فروغ دیا جائے۔

چمڑے کی صنعت میں عیدالاضحی کا تہوار اس لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر یہ صنعت سال بھر میں 100 کھالیں خریدتی یا استعمال کرتی ہے تو اس میں سے تقریباً 60 اس تہوار کے موقعے پر کی جانے والی قربانی سے حاصل ہوتی ہیں۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ یہ 60 کھالیں سال بھر میں حاصل ہونے والی کھالوں سےکہیں زیادہ معیار کی ہوتی ہیں کیوں کہ مسلمان شرعی احکام کے مطابق اعلیٰ معیار کے جانور اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ چرم قربانی کا 25 تا 30 فی صد حصہ قربانی کرنے والوں، قصابوں اور کھالوں کے تاجروں وغیرہ کی کم علمی یا عدم توجہ کی وجہ سے ضایع ہوجاتا ہے یا اس کی مالیت یا معیار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔

ان واقفان حال کا کہنا ہے کہ اگر ہم فرنیچر، گدّوں، گاڑیوں کی نشستوں وغیرہ کے لیے مصنوعات (Upholstery)، فیشن گارمنٹس، فینسی دستانے، بیلٹس، دستی تھیلے، سوٹ کیس کی چین، چمڑے کے زیورات وغیرہ بنائیں، انہیں ترقی دیں اور عالمی منڈی میں متعارف کرائیں تو ہماری برآمدات میں کافی اضافہ ہوسکتا ہے۔ عالمی منڈی میں فٹ ویئرز کی مانگ بڑھ رہی ہے ۔ہمیں اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔

اگر اس صنعت کی ترقی کے لیے ٹھوس اور مخلصانہ کوششیں کی جائیں تو نہ صرف شہری بلکہ دیہی علاقوں تک اس کے ٹرکل ڈائون اثرات پہنچیں گے اور روزگار کے مواقعے بڑھیں گے۔ اس صنعت میں تحقیق ، ترقی، مارکیٹنگ، ڈیزائننگ اور کوالٹی کنٹرول کے شعبے بھی کم زور ہیں، کیمیکل انڈسٹری کی حالت خراب ہے۔ ہمارے ہاں استعمال ہونے والی لیدر پراسیسنگ تیکنیک پرانی ہوچکی ہے ۔

معیاری لیدر ٹیکنیشنز دست یاب نہیں۔ اس صنعت کے لیے درکار لوگوں کو تربیت دینے والے جو اکّا دکّا ادارے ہیں وہ زیادہ فعال نہیں ہیں۔ پی آئی اے کی کارگو لے جانے کی استعداد کم اور اس کے اسٹیشنز کم ہونے کی وجہ سے شپمنٹ بروقت بیرون ملک پہنچنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی مسائل ہیں جن پر قابو پاکر ہم عیدالاضحی کے موقعے پر خود بہ خود ملنے والے اس موقعے سے بھرپور انداز میں دنیاوی فوائد بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

ناتجربے کار قصائی بڑی تعداد میں کھالیں خراب کردیتے ہیں۔ کاشف، کھالوں کے تاجر

چرم قربانی متعدد افراد کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی ٹینریز تک پہنچتی ہے۔ ان افراد میں کھالوں کے چھوٹے، درمیانے درجے کے اور بڑے تاجر شامل ہوتے ہیں ۔کھالوں کے چھوٹے تاجر ہزاروں کی تعداد میں ملک بھرمیں پھیلے ہوئے ہیں اور عیدالاضحی کے موقعے پر ان کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوتاہے۔ یہ لوگ کس طرح کام کرتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے کراچی میں کھالوں کے ایک تاجر کاشف سے بات کی گئی۔ ان کے مطابق عیدالاضحی کے موقعے پر گائے، بکرے، اونٹ، دنبے اور بھیڑ کی کھالیں ان تک پہنچتی ہیں۔

چرم قربانی حاصل کرنے کے لیے کھالوں کے ہر سطح کے تاجر اپنی استطاعت کے مطابق عید سے قبل مساجد، مدارسِ دینیہ اور فلاحی و رفاہی اداروں اور تنظیموں سے رابطہ کرکے کھالیں خریدنے کے لیے نرخ پیش کرتے ہیں۔ جو زیادہ قیمت پر کھالیں خریدنے کی پیش کش کرتا ہے اس کے ساتھ یہ ادارے، تنظیمیں اور مساجد کے ذمے داران کھالیں فروخت کرنے کا معاہدہ کرلیتے ہیں۔

اس موقعے پر ٹینریز کھالوں کے چھوٹے بڑے تاجروں کے علاوہ اپنے ملازمین کے ذریعے بہ راہ راست بھی کھالیں خریدتی ہیں۔ کھالوں کے تاجر کھال جمع کرنے پر آنے والے اخراجات کا حساب لگا کر ٹینریز سے رابطہ کرتے ہیں اور سودا طے ہوجانے پر کھالیں ان کے حوالے کردیتے ہیں۔

اس تاجر کے مطابق کراچی میں قربان کیے جانے والے جانور بہت عمدہ معیار کے ہوتے ہیں ،لہٰذا ان کی کھالیں بھی عمدہ معیار کی ہوتی ہیں۔ چھوٹے تاجر کھالیں خریدنے کے بعد انہیں گوداموں میں لے جاکر ان کی اندرونی سطح پر موٹا والا (خاص قسم کا) نمک لگا کر انہیں سایہ دار جگہ پر رکھ دیتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک دو ماہ تک رکھی جاسکتی ہیں اور سڑنے کا خطرہ نہیں رہتا۔ نمک لگانے کے بعد کھالوں کو سر یا پیروں کی طرف سے کاٹا جاتا ہے۔ پہلی مرتبہ نمک لگانے کے دودن بعد پھر یہ ہی عمل کیا جاتا ہے ۔درمیانے درجے کے تاجر ان کی کسی حد تک ٹیننگ بھی کرتے ہیں۔

یہ مرحلہ Wet Blue کہلاتا ہے، جس میں تین چار اقسام کی مشینوں اور مختلف کیمیائی مرکبات کے ذریعے تین چار روز تک کھال کو ٹریٹ کیا جاتا ہے اور پھر انہیں بڑے اداروں کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ چھوٹے تاجر صرف نمک لگنے تک کا مرحلہ طے کرکے کھالیں آگے فروخت کردیتے ہیں۔ بڑے ادارے Wet Blue کھالیں خریدنے کے بعد یہ طے کرتے ہیں کہ ان کے خریدار کس قسم کی مصنوعات تیار کرنے کے لیے ان سے کھالیں خریدنا چاہتے ہیں، مثلاً فٹ ویئرز، لائننگ، لیدر گارمنٹس وغیرہ۔ یہ طے ہوجانے کے بعد وہ کھال کی مطلوبہ ضرورت کے مطابق ٹیننگ کرتے ہیں۔

کھالوں کے اس تاجر کے بہ قول نا تجربے کار قصائی عیدالاضحی کے موقعے پر بڑی تعداد میں کھالوں کو خراب کردیتے ہیں۔ یہ کٹی پھٹی یا گندی کھالیں صرف دستانے جیسی چھوٹی مصنوعات بنانے کے کام آتی ہیں۔ ملک اور قوم کو اس سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ بغیر کٹی پھٹی کھال سے تیار ہونے والے آرٹیکلز اگر دو تا ڈھائی امریکی ڈالرز میں بکتے ہیں تو دستانے صرف 60 تا 80 سینٹس میں فروخت ہوتے ہیں۔

چرم ِقربانی کی مالیت اربوں روپے

آل پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق قربانی کے جانوروں سے صرف کراچی میں ہر سال تقریباً 5 لاکھ چھوٹے اور بڑے جانوروں کی کھالیں حاصل ہوتی ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد چھوٹے جانوروں کی کھالوں کی ہوتی ہے۔گزشتہ برس پورے پاکستان سے چھوٹے جانوروں کی 60 لاکھ اور بڑے جانوروں کی 20 تا 30 لاکھ چرم قربانی حاصل ہوئی تھیں۔ سندھ میں گزشتہ برس حاصل ہونے والی چرم قربانی کی کُل تعداد (چھوٹے اور بڑے جانوروں کی ملا کر) 7 تا 10 لاکھ تھی۔ مجموعی طور پر ہر سال چرم قربانی کی مالیت اربوں روپے ہوتی ہے۔ تاہم اس برس قربانی کم تعداد میں ہونےکا امکان ہے۔

کورنگی انڈسٹریل ایریا میں ملک کی سب سے زیادہ، یعنی200 ٹینریز واقع ہیں۔ قربانی کی کھالوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور تین دنوں میں انہیں جمع کرنے کے ساتھ محفوظ بھی بنانا ہوتا ہے۔ اگر فوری مناسب انتظامات نہ کیے جائیں، تو کھال خراب ہوجاتی ہے، جس سے اس کی مالیت نصف رہ جاتی ہے۔

قربانی کی کھالوں میں جگہ جگہ چھری لگ جانے اور تاخیر سے انہیں دینے کی وجہ سے 30 تا 45 فی صد کھالوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ خیبر پختون خوا اور پنجاب کے صوبوں میں بہت سے لوگ چرم قربانی کی اہمیت سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔ بجلی کی فراہمی میں تعطل کی وجہ سے کھالوں کی ٹیننگ کا عمل رک جاتا ہے، تو کیمیکل اسے تباہ کردیتے ہیں۔

عیدالاضحی پر کراچی میں ٹنوں چربی جمع ہوتی ہے، محمد صدیق، چھوٹے بیوپاری

قربانی کے جانور کی دیگر باقیات بھی بہت قیمتی ہوتی ہیں، جن سے کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے اور بہت سے افراد اس کاروبار سے بھاری رقوم کماتے ہیں۔ ان اشیاء کے کاروبار پر نظر رکھنے والے ایک چھوٹے بیوپاری محمد صدیق کے مطابق کراچی میں نانک واڑہ کے علاقے میں ہری مسجد کے قریب جانوروں کے سری پائے کی خرید و فروخت اور انہیں کاٹنے اور بنانے کا بڑا مرکز ہے۔

یہاں چھوٹے اور بڑے جانوروں کی ہڈیاں اور چربی کی بھی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اسی طرح رنچھوڑ لائن میں واقع گوشت مارکیٹ میں بھی ہڈیوں اور چربی کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔ عیدالاضحی کے موقعے پر یہاں کے کاروباری مختلف علاقوں سے آنے والی ہڈیاں، چربی، سری پائے وغیرہ خریدتے اور آگے فروخت کردیتے ہیں۔ عیدالاضحی کے موقعے پر شہر میں جگہ جگہ چربی خریدنے والے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ انہیںکانٹے والےکہا جاتا ہے۔ یہ کانٹے والے اپنے کارندے مختلف علاقوں میں پھیلا دیتے ہیں، جو چربی جمع کرنے کے بعد انہیں فروخت کردیتے ہیں۔

قصاب اور کچرا چننے والے بھی انہیں چربی لاکر دیتے ہیں۔کراچی میں چربی کے بڑے خریدار نئی کراچی میں ہیں۔وہ چھوٹے تاجروں سے چربی خریدتے ہیں۔اس کے نرخ ہر سال عیدالاضحی سے پہلے بڑے تاجر مقرر کرتے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی چربی نسبتاً زیادہ بہتر معیار کی ہوتی ہے۔ اس میں سے چربی یا چرّی (وہ حصہ جو گرم کرنے پر پگھلتا نہیں ہے) کم اور مال (یعنی گھی کی طرح پگھلی ہوئی چربی) زیادہ نکلتا ہے۔ بڑا بیوپاری جگہ جگہ سے چربیاں خود اٹھواتا ہے اور چھوٹے بیوپاریوں کو ادائیگی کرتا ہے۔

مال دیکھ کر نرخ کا تعین کیا جاتا ہے۔ مٹی اور خون سے آلودہ چربی کے فی کلو نرخ تقریباً 4 روپے کم ہوتے ہیں۔ چربی جتنی سفید ہوتی ہے، نرخ اتنے زیادہ ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسے سوتی کپڑے میں کلف لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عیدالاضحی کے موقعے پر کراچی میں ٹنوں چربی جمع ہوتی ہے۔

قربانی کے جانور کی آنتیں اور معدے بھی فروخت ہوتے ہیں

قربانی کے جانور کی آنتیں (رودا) اور معدہ (بٹ) بھی فروخت ہوتاہے۔ کچرا چننے والے اور دیگر افراد انہیں جمع کرکے فروخت کردیتے ہیں ۔ اس کاروبار سے وابستہ ایک بیوپاری عبدالستار کے مطابق رودا ہوٹلوں میں اور سموسوں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔

عیدالاضحی کے موقعے پرکبھی اس کے نرخ کم اورکبھی زیادہ ہوتے ہیں۔ آنت کے ساتھ لگی چربی علیحدہ کرکے فروخت کی جاتی ہے۔ بڑے جانورکے رودے کے نرخ زیادہ ہوتےہیں۔ آنتوں کو صاف کرکے نمک لگا کر ایک تا ڈیڑھ ماہ رکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پائے اور سری کی بھی خرید وفروخت ہوتی ہے۔ گائے کے سر کا چمڑہ بھی خریدا جاتا ہے۔ یہ چمڑے کی چھوٹی مصنوعات بنانے والے خرید لیتے ہیں۔

ہڈّیوں کا کاروبار بھی کروڑوں روپے مالیت کا

قربانی کے جانوروں کی ہڈّیوں کا کاروبار بھی کروڑوں روپے مالیت کا ہوتا ہے۔ یہ ہڈیاں کچرا چننے والے جمع کرکے انہیں بڑے بیوپاریوں تک پہنچاتے ہیں، جو ہر طرح کا کچرا خریدتے ہیں۔ کراچی میں ایسے درمیانی درجے کے بیوپاریوں کی تعداد 800 تا 950 بتائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ 1000 سے زائد مرکزی یا بڑے بیوپاری ہیں۔ اس کے علاوہ 5000 کباڑی اور کچرا چننے والے تقریباً 1100 افراد ہیں۔

یہ تمام افراد ہڈیاں جمع کرنے کے بعد شیرشاہ کے علاقے میں اور لیاری ندی کے دونوں کناروں پر اور مختلف مقامات پر واقع کچی بستیوں میں مختلف بیوپاریوں تک پہنچاتے ہیں۔ پاکستان میں ہڈیوں کی ری سائیکلنگ طویل عرصے سے جاری ہے اور پنوں عاقل کے علاقے میں 1945ء میں اس کا ایک کارخانہ لگ چکا تھا۔ آج ایسے کئی کارخانے ملک میں موجود ہیں۔کراچی میں چشمہ گوٹھ، ابراہیم حیدری، شیرشاہ، ہارون آباد اور گل بائی کے علاقوں میں ایسے کارخانے قائم ہیں۔

جانوروں کی ہڈّیوں سے جیلاٹن، کھاد، پولٹری فیڈ کے لیے پائوڈر، رابون گرسٹ، رابون میل، اسٹیمڈ اسٹرلائزڈ بون میل، بون ایش، ڈی گریسڈ کرشڈ بون وغیرہ بنتا ہے۔ پاکستان سے ری سائیکل ہڈیاں اور درج بالا مصنوعات کئی ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں۔ جانوروں کے سینگ بھی ری سائیکل ہوتے ہیں۔ ان سے آگ بجھانے کے لیے استعمال ہونے والا فوم تیار کیا جاتا ہے۔

اسی طرح کُھر سے کھاد تیار کی جاتی ہے، جس کے لیے کُھر کا پائوڈر اور دانے بنا کر اٹلی، جرمنی اور انگلستان بھیجا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہڈیوں سے گلیو بھی بنتا ہے اور اس عمل کے نتیجے میں بچ جانے والے مادے سے کیلسی نیشن ہوتی ہے، جس سے بون چائنا بنتی ہے، جو برتن بنانے کے کام آتی ہے اور یہ بہت منہگے داموں فروخت ہوتی ہے۔ کراچی میں ہڈیوں کی ری سائیکلنگ کرنے والے کارخانوں میں کام کرنے والےافراد کی تعداد 1000 سے زاید بتائی جاتی ہے۔ پاکستان میں کچرے میں پھینکی جانے والی کل ہڈیوں کا صرف 50 فی صد ری سائیکل ہوپاتا ہے۔ پاکستان سے اسٹیمڈ ہارن اور ہوفس میل بھی برآمد کی جاتی ہے، جو سینگوں سے تیار ہونے والی مصنوعات ہیں۔

ایک بون کرشنگ مل کے ذمے دار بابر کے مطابق اوسطاً ایک بڑے جانور میں سے 40 کلوگرام ہڈیاں نکلتی ہیں۔ عیدالاضحی کے موقعے پر لاہور میں 5000 ٹن اور کراچی میں 15000 ٹن ہڈیاں کچرے کے ڈھیروں تک پہنچتی ہیں۔ پاکستان میں ہڈیوں سے تیار ہونے والا زیادہ تر جیلاٹن برآمدکردیا جاتا ہے۔یہ پاکستان سے ہڈیوں کی برآمد کی جانے والی مصنوعات میں مالیت کے لحاظ سے سب سے بڑے حصے کا مالک ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ نو، دس اقسام کی دیگر مصنوعات بھی تیار کی جاتی ہیں، جن میں سےچار اشیائے خورونوش میں، ایک شکر کی صفائی کے دوران، ایک ادویہ کی تیاری کے لیے،دو پولٹری فیڈ بنانے کے لیے اور ایک ٹیکسٹائل سیکٹر میں استعمال کی جاتی ہے۔ کینڈیز، کاغذ اور سیاہی کی تیاری میں بھی بون پروڈکٹس استعمال کی جاتی ہیں۔

پاکستان سے زیادہ تر مصنوعات یورپ کے ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں۔ پولٹری فیڈ تیار کرنے والے جانوروں کی ہڈیاں جلا کر اس کی راکھ فیڈ میں ملا دیتے ہیں۔ اس طرح بڑی مقدار میں ہڈیاں بہت کم نرخ پر استعمال ہوجاتی ہیں۔اگرحکومت اس سرگرمی پر پابندی لگا دے تو نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہوگی، بلکہ ان ہڈیوں سے جیلاٹن نکال کر برآمد کرنے سے ملک کو بہت زیادہ زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں ہماری ہڈیوں کی مصنوعات کی برآمدات میں تین گنا تک اضافہ ہوسکتا ہے۔