’داستانِ گوئی‘ خیال یا حقیقت

July 29, 2020

یگانہ نجمی

داستان گوئی ادب کی ایک ایسی صنف ہےجو اردو ادب میں رفتہ رفتہ ختم ہوتی جارہی ہے یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ناپید ہوچکی ہے۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہےکہ چوں کہ یہ دور حقیقت پسندی کا دور ہے ،لہذاایسی چیزیں بے کا ر تضیح اوقات ہیں یعنی ٹیکنالوجی کےاس دور میں ایسی باتیں مضحکہ خیز لگتی ہیں۔ بہرحال داستان گوئی دراصل قدیم ہندوستانی فن ہے ۔ہندوستان کی سر زمین جن، بھوتوں بدروحوں اور دیو مالائی فرضی قصوں کی سر زمین ہے۔

داستان گوئی کی بڑی تعداددراصل اس دور کی ہےجب لوگ لمبی راتوں میں کوئی مصروفیت نہ ہونے کی وجہ سے دلچسپی کے لیے داستانیں سنا کرتے تھے ، جن میں واقعہ در واقعہ موجود ہوتا اور داستان گو واقعات کی کڑی سے کڑی ایسی مربوط رکھتا کہ سننے والا اس کے فرضی ہونے پر جھوٹ کا گمان بھی نہیں رکھ سکتا اور بھوت پریتوں کی طلسماتی ہوش ربا دنیامیں خیالوں کے ذریعے پہنچ جاتا لیکن طلسم داستان کے اختتام پر ہی ٹوٹتا۔داستان گوئی کو قلم کی زد میں لاکر داستان نگاری کی بنیاد ڈالی گئی۔

ان تصوراتی کہانیوں میں الف لیلی کو لے لیجئے اس میں مختلف عنوانات پر کہانیاں لکھی گئیں،جن میں جادوئی قالین یعنی اڑنے والے قالین کا تصور پیش کیا گیاجس پر بیٹھ کر شہزادہ کوہ قاف میں سیر کرتا ۔شراب کے پیالے میں بادشاہ کا اپنی ساری سلطلنت کو دیکھ لینا ،جنہیں دیومالائی داستانیں کہا جاتا ہے۔ جن کی بدولت جدید ایجادات جیسے اڑنے والے قالین نے جہاز یا ہیلی کاپٹر بنائے گئے اور اورایران کے بادشاہ کا شراب کاپیالا ٹیلی ویژن کی ایجاد کا سبب بنا۔ایسی بہت سی تصوراتی چیزیں جو داستان گوئی میں بتائی گئیں، انھیں دور جدید کی ایجادات کہا جاسکتا ہے۔

پچھلی صدی میں داستان نگاری کا فن عروج پر نظر آتا ہے ۔اس زمانے میں جو داستانیں منظر عام پر آئیں ان میں خواجہ سگ پرست ، شہزاد جانِ عالم کی سواری ، حمام بارد گرد وغیرہ شامل ہیں ۔بلا شبہ تمام داستانیں انسان کو زمانے کے پیچ وخم اور مصیبت واکرام میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لئے نصیحت ہیں۔

لیکن کیا موجودہ دور کا قاری اس سائنسی ایجاد کے اس دور میں داستانوں کی طرف راغب ہوسکتا ہےآج کل کے قاری کے پاس تو ایسی طویل داستانوں کو پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں وہ جدید ٹیکنالوجی کا عادی ہے جب کہ اس ٹیکنالوجی کو بنانے والے کے ہاں سائنس فکشن پر مبنی ناول اور مختصر کہانیاں تخلیق پا رہی ہیں تو اس کا دائرہ انگریزی ادب تک محدود ہے جس کی مثال مشہور ناول ’’ہیری پوٹر‘‘ہے جس میں داستان کی طرح واقعہ در واقعہ سمونے کی کوشش بڑی کامیابی سے کی گئی ہے ۔ لیکن ہم اہل مشرق سےاردو ادب میں اس سلسلے میں کوئی کام نہیں ہورہا اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی امید رکھی جاسکتی ہے اس لیے کہ انگریزی ادب پڑھنے والے خال خال ہیں جو اس قسم کی کہانیاں بہ طور اسٹیٹس پڑھتے ہیں ،اور اردو زبان کی ترقی تو ہمارے ملک میں ویسے بھینہیں اورادب تو پہلے ہی داؤ پر لگا ہوا ہے۔

اگر ان باتوں کو نظر انداز بھی کردیا جائے اور صرف اس لحاظ سے داستان گوئی کی ضرورت پر غور کریں کہ حقیقت پسندی سے ہمارے رویے اور سوچ پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔کیا ہم واقعی ایسے حقیقت پسند بن گئے ہیں کہ ہم نے معاشرے میں توازن قائم کرلیا ہے ۔یعنی لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا شروع کردیا ہے۔اپنی ذات سے نکل کر سوچنے لگے ہیں تو جواب نفی میں آئے گا بلکہ اگر دیکھا جائے تواس حقیقت پسندی نے جتنا بے حس اور ظالم بنایا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی وہ احساسات جن کی بنا پر دردمندی قائم تھی وہ بھی حقیقت پسندی کے چکر میں چھن گئے ہیں۔اس لیے ان داستانوں کی صنف کو زندہ رکھنے کی سعی بھی کی جائے تو عبث ہے۔اس لیے داستان نگاری مرجانے کے قریب ہے۔