’عنایت علی خان‘ شاعری میں عورت کے احترام کی منفرد مثال

July 29, 2020

اردو کے معروف مزاحیہ شاعر عنایت علی خان ۲۶؍ جولائی ۲۰۲۰ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ ان کے جانے سے اردو میں مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کی اس روایت کا ایک اہم باب بند ہوگیا جس کو اکبر الہٰ آبادی نے پروان چڑھایا تھا۔

اگرچہ اکبر الہٰ آبادی سے قبل بھی اردو میں مزاحیہ شاعری کی روایت موجود تھی لیکن اول تو اس روایت میں اعلیٰ طنز سے لے کر پھکڑ پن اور فحش گوئی تک سبھی کچھ شامل اور روا تھا جسے اکبر نے شائستہ، شُستہ اور فکر انگیز مزاح سے بدل دیا ۔ دوسرے اکبر نے مزاح گوئی کو اپنا بنیادی حوالہ اور فن بنالیا۔ اس طرح وہ اردو شاعری میں پہلے باقاعدہ اور کامیاب مزاح گو ٹھہرے۔

اردو شاعری میں مزاح گوئی کی جو روایت اکبر الہ ا ٓبادی نے ڈالی تھی اس کا کامیاب تتبع بہت کم لوگ اس لیے کرسکے کہ ادب میں مزاح و طنز کا مقصد صرف ہنسنا ہنسانا نہیں ہوتا بلکہ ظرافت کے پردے میں کچھ تفکر و تفلسف بھی لازم ہے ۔ اکبر کے ہاں بھی تفکر تھا جو مزاح سے آمیخت تھا۔بلکہ اکبر کا ایک واضح سماجی نقطۂ نظر اور سیاسی مسلک تھا ، خواہ آپ اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں۔پاکستان میں گزشتہ چند عشروں میں جن شعرا نے اکبر کے رنگ کو کامیابی سے اپنایا اور اپنی ایک الگ انفرادیت اور پہچان پیدا کی ان کے نام ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، مثلاً سید محمد جعفری، سید ضمیر جعفری اور عنایت علی خان ۔دلاور فگار کو بھی اس میں شامل کرلیجیے ۔ لیکن بعض دیگرشعرا اچھے مزاحیہ شاعرہونے کے باوجود اس فہرست میں اس لیے نہیں آسکتے کہ اکبر کا ایک خاص رنگ ، تہذیبی اور تمدنی مسائل پراظہار خیال کا خاص انداز اور ایک خاص رویہ اور فکر ہے جو ہر مزاحیہ شاعر کے ہاں نہیں ہوتا۔

اکبر الہٰ آبادی کا دور انگریزی اقبال کے سورج کی بلندی اور نئی اقدار کا دور تھا۔ اکبر تبدیلی کے مخالف نہیں تھے لیکن سمجھتے تھے کہ جوسماجی اور تہذیبی تبدیلیاں انگریزوں کی وجہ سے برعظیم پاک و ہند کے معاشرے میں برپا ہورہی ہیں وہ مقامی لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے تباہ کن ہیں ۔اکبر کی طرح عنایت علی خاں کے ہاں بھی سماجی اور تہذیبی مسائل پر ایک خاص نقطۂ نظر ملتا ہے ۔چونکہ قدرت نے انھیں احساسِ درد اور حسِ لطافت کے ساتھ حسِ ظرافت سے بھی بحصہ ٔوافر نوازا تھا لہٰذا سماجی نا ہمواریوں اور سیاسی بوالعجبیو ں کی طرف اشارے مزاح کے پیرائے میں کرتے ہیں ۔مزاج میں شگفتگی اور مزاح میں توانائی ہے ،زبان و بیان پرعبور ہے ، اردو شاعری کی روایات پر نظر ہے ، چنانچہ ان کی شاعری قاری کے لیے فکر کے ساتھ انبساط کا سامان رکھتی ہے۔ ہمارے معاشرے کے جن طور طریقوں اوراندا زِ فکر سے عنایت علی خاں اختلاف کرتے ہیں ان کی طرف اشارہ بھی لطیف پیرائے میں کردیتے ہیں ۔

عنایت علی خاں صاحب نے خود لکھا ہے کہ ان کا آبائی تعلق ’’ترین ‘‘ نامی ایک پٹھان قبیلے سے تھا جو پشین (بلوچستان ) سے تعلق رکھتا تھا ۔ ان کے آبائو اجداد نے بلوچستان سے ہجرت کی اور پہلے مراد آباد کے قریب واقع ایک شہر سنبھل میں آباد ہوئے اور بعد میں ٹونک چلے گئے۔

عنایت علی خاں ٹونک میں ۱۹۳۵ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان اکتوبر ۱۹۴۸ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگیا اور حیدرآباد(سندھ) میں مقیم ہوا۔ عنایت صاحب کی ابتدائی تعلیم میں سیاسی حالات کی وجہ سے رخنہ پڑگیا تھا اس لیے ابتدائی درجوںسے لے کر ایم اے تک حیدرآباد ہی میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد ہدایت علی خاںناظر ؔ ٹونکی بھی مزاحیہ شاعر تھے۔ان کے علاوہ دادا ، نانااور ماموں بھی شاعر تھے۔ لہٰذا شاعری کی طرف رجحان گویا پیدائشی اور خاندانی تھا۔

ابتدا میں سخت مشکلات کا سامنا کیا، کلرکی بھی کی ۔ سندھ یونیورسٹی کے ایم اے اردو کے پرائیویٹ امتحان میں اول آئے اور تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ شاعری کے علاوہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے لیے اردو کی درسی کتب لکھیں بھی اور ان کی تدوین و تصحیح میں بھی شریک رہے ۔ بچوں کے لیے کہانیاں اور نظمیں بھی بڑی تعداد میں لکھیں۔

ان کی شاعری کا ایک خاص رنگ سنجیدہ اور درد مندانہ شاعری بھی ہے۔ ملک و قوم، اسلام اور اہل اسلام کا بہت درد رکھتے ہیں اور سنجیدہ شاعری میںان کا یہ رجحان بطور خاص نمایاں ہے ۔پاکستان سے جذباتی وابستگی تھی۔ مزاحیہ شاعری میں بھی شعائر ِ دینی، اخلاقی تعلیمات، مشرقی روایات اورقومی معاملات و مسائل کی چھاپ ان کی فکر پر بہت واضح ہے۔ اسی مقصدیت اور تفکر نے ان کی مزاحیہ شاعری میں بھی ایک ایسی گہرائی پیدا کردی ہے جو ان کے بعض معاصر مزاحیہ شعرا کے ہاں اس لیے مفقود ہے کہ ان شعرا کا بنیادی مقصد خوش وقتی بلکہ محض وقتی ہے یعنی صرف ہنسنا ہنسانا۔بقول شخصے آج اردو کی مزاحیہ شاعری کا مرکز و موضوع محبوبہ اور اردو کی مزاحیہ نثر کا موضوع منکوحہ ہے۔ محبوبہ اور بیوی کو ادب کا موضوع بنانا کو ئی قبیح فعل نہیں ، بلکہ ہمارے ادب کے خاصے بڑے حصے کا موضوع ہی صنف ِ نازک رہی ہے ، لیکن صنف ِ نازک پر نازک تبصرے صرف ایک خاص زاویے سے کرنا نہ صرف اخلاقیات کی رو سے غلط ہے بلکہ آج نسائیت یعنی فیمنزم کی رو سے بھی قابل ِ اعتراض ٹھہرتا ہے۔

عنایت علی خاں کی شاعری میں عورت صرف بیوی یا محبوبہ نہیں ہے، وہ اسے ماں ، بیٹی اور بہن بھی سمجھتے ہیں اور اس کے لیے ویسا ہی احترام بھی ظاہر کرتے ہیں ۔ دور ِ حاضر کی مشینی زندگی اور مغربی اندازِ معیشت اور معاشرت کی وجہ سے عورت کے تقدس کو جہاں ٹھیس پہنچتی ہے عنایت علی خان مزاحیہ اور سنجیدہ شاعری دونوں میں اس پر صداے احتجاج بھی بلند کرتے ہیں ۔مثلاً فضائی میزبان (ا یر ہوسٹس) کی مظلومیت پر ایک پُر تاثیر نظم لکھی۔شادی بیاہ میں مہندی کی رسم میں ہونے والی بے ہودگیوں پر ان کی طنزیہ نظم قابلِ مطالعہ بھی ہے اور قابلِ داد بھی۔

اسی طرح ایک ٹی وی پروگرام میں ایک یونی ورسٹی کے وائس چانسلر مہمانِ خصوصی تھے۔اس پروگرام میں ایک نوجوان لڑکی کے رقص کے بعد ان شیخ الجامعہ سے اس پر رائے لی گئی تو انھوں نے موسیقی اور رقص کو روح کی غذا اور تہذیب کا لازمہ قراردیا۔ عنایت علی خان نے اس پر ایک دردناک نظم لکھی اور ان کے رویے کو افسوس ناک اور قابلِ مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہماری درس گاہوں کے سربراہ بچیوں کے رقص کو سراہیں گے تو ہماری دینی اور تہذیبی اقدار کا کیا بنے گا اور ہماری نئی نسل سے کس طرح کے افراد اٹھیں گے۔انھوں نے یہ نظم شائع کرواکے اس کی ایک عکسی نقل ان شیخ الجامعہ کو بھی بھیج دی جنھوں نے اپنے جوابی خط میں ان کے’’ اختلافی نقطۂ نظر ‘‘کی محض داد دیتے ہوئے اس بات کو ٹال دیا۔عنایت علی خان کی شاعری اردو شاعری میں احترام ِ عورت کی ایک منفرد مثال ہے ۔ کاش کبھی اس پہلو سے بھی اردو شاعری پر کوئی تحقیقی مقالہ لکھا جائے۔

عنایت علی خان کے شعری مجموعوں میں ’’ازراہ ِ عنایت ‘‘(۱۹۸۹ء)،’’ عنایات ‘‘(۱۹۹۲ء) ، ’’عنایتیں کیا کیا‘‘ ( ۱۹۹۷ء) اور’’ کچھ اور‘‘(۲۰۰۳ء) شامل ہیں۔ ’’کلیات ِ عنایت ‘‘ ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ ان کے کلام کا ایک خوب صورت انتخاب ’’نہایت ‘‘ کے عنوان سے ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا تھا۔ حال ہی میں ان کی شاعری کا ایک اورانتخاب اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔

عنایت علی خاں صاحب کے جانے سے ہم ایک ایسے تمدنی نقاد سے محروم ہوگئے ہیں جس کا نعم البدل ملنا کم از کم مزاحیہ شاعری میں ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔