’فریضہ حج‘ دینِ اسلام کی عظمت و شوکت اور اتحادِ اُمت کا عظیم مظہر

July 30, 2020

لیاقت بلوچ

(نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان)

مناسکِ حج کی ادائیگی میں ہر ہر مرحلے پر اللہ کی رضا ، جنّت کی طلب ، اعترافِ بندگی ، توبہ و استغفار اور رسول اللہ ﷺکی شفاعت کا حق دار بننے کے لیے اللہ کو منالینا ہی حج مبرور کامقصد اور منزل ہے

ارشادِ ربّانی کے بہ موجب اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لیے حج بیت اللہ فرض کردیا ہے جوخانۂ خدا (کعبۃ اللہ) تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ حج اسلام کا ایک عظیم رکن ہے، جو شخص صاحب استطاعت ہو یعنی اپنے اہل وعیال اور زیر کفالت اشخاص کی جملہ ضروریات پوری کرنے کے بعد سفر بیت اللہ کامتحمل ہو اُس پر لازم ہے کہ وہ ایام حج میں اللہ تعالیٰ کے گھر جا کر متعلقہ مناسک اداکرے ۔ حج کے لغوی معنی ارادہ کرنے کے ہیں اور شریعت کی روشنی میں حج اُس عبادت کو کہتے ہیں جس میں بیت اللہ کی زیارت کا ارادہ کیاجاتاہے۔ جو شخص بھی مال ، صحت اور حج کرنے کی طاقت رکھتاہے تو وہ صاحب استطاعت ہے ضرور حج کرے۔

حج کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ حج اسلا م کا اہم ترین رکن ہے ۔ یہ عبادت اور تربیت کی سب سے آخری اور اہم کڑی ہے اس میں نماز کا خشوع و خضوع ، روزے کا صبر اور زکوٰۃ کا ایثار پایا جاتا ہے بندہ مومن جب مناسک حج کی ادائیگی میں محبت کے جذبات سے سرشار ہو کر ان مقامات ابراہیم علیہ السلام کو دیکھتا ہے تو اس کا ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور عمل کے عزم سے جب وہاں کی روحانی یاد گار ساتھ لاتاہے اور اپنی زندگی اللہ اور رسول اللہ ﷺکے احکامات کے مطابق گزار نے کا پختہ ارادہ کرلیتاہے تو واقعتاً اس کی زندگی میں اسلام کا رنگ اور ایک بڑ اانقلاب برپا ہوجاتاہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص اس گھر کعبہ کی زیارت کو آیا اور اس نے نہ شہوت کی کوئی بات کی اور نہ خدا کی نا فرمانی کا کوئی کام کیا تو وہ اپنے گھر کو اس حالت میں لوٹے گا کہ جس حالت میں اس کی ماں نے اسے جنا تھا ، (حدیث مبارکہ )۔

عازم سفر حج، ایام حج میں اللہ تعالیٰ کے گھر جا کر متعلقہ مناسک ادا کرے حج میں احرام باندھنا، احرام کے احکامات کی پابندی کرنا ، بیت اللہ شریف کا طواف کرنا، صفا و مروہ کی سعی ، بال کٹوانا، منیٰ میں حاضری ، وقوف عرفات اور مزدلفہ میں قیام جیسے مناسک، حج میں شامل ہیں۔ مناسکِ حج کی ادائیگی میں ہر ہر مرحلے پر اللہ کی رضا ، جنت کی طلب ، گناہوں کااعتراف ، توبہ و استغفار اور رسول اللہ ﷺکی شفاعت کا حق دار بننے کے لیے اللہ کو منالینا ہی حج مبرور کامقصد اور منزل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’حج کابڑا ثواب ہے اور فرمایاکہ حج مبرور کی جزا جنت ہے۔‘‘

’’حج ‘‘ایک عالمگیر اجتماع اور پوری اُمت کے لیے ہمہ گیر عبادت ہے ۔ اہل ایمان علاقوں ، رنگ ،نسل ، قبائل و برادریوں سے بالا تر ہو کر ایک طرز کے احرام میں ملبوس اور ہر حج کرنے والے کا ایک ہی اعلان ، ایک ہی اقرار ہوتاہے کہ اے میرے اللہ ’’حاضر ہوں ، میرے اللہ میں حاضر ہوں ، حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ،میں حاضر ہوں۔یقیناً تعریف سب تیرے لیے ہے ، نعمت سب تیری ہے اور ساری بادشاہی تیری ہے ،تیرا کوئی شریک نہیں ۔

رمضان تقویٰ کا موسم اور اہل ایمان میں تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ اسی طرح حج کا مہینہ پوری دنیا میں اسلام کی زندگی اور بیداری کا زمانہ ہے ان شاء اللہ قیامت تک بیداری ، تقویٰ ،اللہ تعالیٰ سے رجوع کی یہ عالم گیر تحریک اور عظیم اجتماع قائم و دائم رہے گا۔ اسلام کی عالم گیر تحریک مٹ نہیں سکتی ۔ دنیا کتنی ہی بے راہ روی پر چلی جائے ،اعمال میں جتنی ہی خرابی و کمزوری آجائے۔

لیکن کعبۃ اللہ،رب کی کبریائی کا مرکز انسانی جسم میں دل کی طرح اہل ایمان کے سینوں میں دھڑکتا اور سلامت رہے گا ، وحدتِ ملت کا پُر کیف نظارہ ، دنیا بھر کی قوموں سے نکلے ہوئے لوگوں کا ایک مرکزپر اجتماع دنیا بھر کی اسلام مخالف قوتوں کو دہلا دیتاہے۔ حج کی عبادت قیام امن کی سب سے بڑی تحریک ہے۔ اللہ نے اہل ایمان کے ذریعے دنیا کو ایک ایسا حرم دیا ہے جو قیامت تک کے لیے امن کا شہر ہے۔ شعائر اسلام کے اس عظیم رکن کی نعمت انسان کو کہیں اور کسی مذہب میں نہیں مل سکتی ۔

حج کے موسم میںیہ تصور اور نظارہ کیا ہی بھلا ہے کہ مشرق سے ،مغرب سے، جنوب و شمال سے ان گنت قومیں اور لا تعداد ممالک کے لوگ ہزاروں راستوں اور ذرائع نقل وحمل سے ایک ہی مرکز اللہ کے گھر کعبۃ اللہ کے طرف چلے آتے ہیں۔

حج کے ایام میں سفر حج ، اخراجات حج ، قربانی کے جانور کے حوالے سے معاشرے میں غربت اور مفلسی کو بنیاد بنا کر سوشل میڈیا پر بڑی معصومانہ ، شعائر اسلام بیزار مہم چلائی جار ہی ہے، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺنے نمائش ، دکھاوے اور نام وری کی تمام رسوم کو ختم کردیا ، قربانی کے حوالے سے قرآن مجیدمیں حکم آگیا کہ اللہ کو ان جانوروں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے، بلکہ تمہاری پرہیزگاری و خدا ترسی پہنچتی ہے ۔ اللہ کے نام پر جانور ذبح کیے جائیں ،تاکہ خوشحال لوگوں کی قربانی سے غریب ، مستحق ، مفلس لوگوں کو بھی کھانے کاموقع مل جائے ۔ قرآن مجیدکے ذریعے اللہ کا حکم ہے کہ ’’اور کھائو پیو مگر اسراف نہ کرو، اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ‘‘

حضرت علی ؓ کا ارشاد ہے جو شخص قدرت وطاقت کے باوجود حج نہیںکرتا وہ خواہ یہودی ہو کر مرے ، یا عیسائی ہو کر مرے یعنی اسلام پر اُس کے خاتمے کاایمان نہیں۔

حضرت عمرفاروق ؓ فرماتے ہیں میرا ارادہ ہے کہ اپنے کارندوں کو ملک کے اطراف کی طرف بھیج کر اُن لوگوں کاپتاکروں کہ جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے، تاکہ اُن پر جزیہ مقرر کردوں ایسے لوگ مسلمان نہیں ،(سنن سعید بن منصور )

رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ،اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، حج بیت اللہ اور رمضان کے روزے رکھنا ۔ (صحیح بخاری)

حدیث قدسی ہے کہ جس بندے کو میں نے جسمانی صحت اور روزی میں وسعت دی ہے، وہ پانچ سال گزرنے کے باوجود بھی میرے پاس نہیں آتا تو وہ محروم ہے حج اور عمرے کے نتیجے میں انسان کا نفس گناہوں کے اثرات سے پاک ہوجاتا ہے اور روزقیامت اللہ تعالیٰ کے اعزازات حاصل کرنے کا اہل اور مستحق بن جاتاہے۔ سفر حج میں اہل ایمان کے لیے مدینہ منورہ کی جانب سفر، مسجد نبویؐ میں عبادت اور روضۂ رسول ؐپر حاضر ی و سلام ،ایمان اور عشق کے جذبوں کا عروج ہوتاہے۔ مدینہ منورہ کو حرم نبوی ؐ ، دارالہجرت او رمقام نزول وحی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اللہ کریم ان ایام حج کو حجاج کرام کے لیے حج مبرور و قبول اور پوری اُمت کے لیے امن ، سلامتی ،محبت واتحاد کا ذریعہ بنادے، آمین۔