آپ کا صفحہ: امریکا تک میں…

July 31, 2020

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کتابیں خود مسرور …

تازہ ایڈیشن ہاتھوں میں ہے، سرِورق کے تین مُسکراتے، گنگناتے چہرے بتا رہے تھے کہ اندرونی صفحات بھی مہکتے ہی ملیں گے۔ ڈاکٹر زیبا افتخار امام محمّد بن حسن فرقد شیبانی سے متعلق زبردست مضمون لیے موجود تھیں۔ منور مرزا کی بات سولہ آنے درست کہ ’’ہم جیسے پس ماندہ ممالک ایسی آفات اور بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے‘‘۔ وقاص انجم جعفری کے چوتھے صنعتی انقلاب سے متعلق مضمون نےبہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ سفید کوّے کا مواد اپنی مثال آپ تھا، تو ڈاکٹر مصوّر انصاری کا تمباکو نوشی سے متعلق مضمون سیر حاصل۔ انٹرویو میں منور راجپوت نے نپے تلے سوالات کے ذریعے مالیاتی امور کے ماہر، ظفر شخ سےاچھی معلومات حاصل کیں۔ رضوان الحق رضی نےگھر بیٹھے ملائیشیا کی سیر کروادی، تو ’’پیارا گھر‘‘ میں صائمہ مسلم تیکھے پکوان اورڈاکٹر عزیزہ انجم گرمی دانوں سے بچائو کی مفید ٹپس لائیں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ پر ڈاکٹر قمر عباس کا تبصرہ ہو تو کتابیں خود مسرور ہوتی ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا اور محمّدمبین امجد کے قلمی تراشے تاجو اور گُڈی بہت پسند آئے۔ ناقابلِ فراموش کے دونوں واقعات دل کو لگے، تو پیاروں کے نام ایک پیغام نے بھی دل چُھو لیا۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

نرم خُو ،گلابی شمارہ

مئی کے گرم خُو مہینے کے آخری روز شایع شدہ نرم خُو، گلابی شمارہ پڑھا۔ اس ہفتے بھی مکتوبِ حمیدیہ معدوم؟؟ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر زیبا افتخار نےحضرت امام ابوحنیفہ کے شاگرد، امام محمّد بن حسن فرقد شیبانی کے بارے میں جامع حوالوں کے ساتھ موثرمضمون تحریر کیا۔ منور مرزا کورونا وائرس کے بعد کی معیشت لائے۔ عرفان جاوید کے ’’سفید کوّے‘‘ Fake کو Fact کرنےوالےخاکے کےساتھ خُوب کائیں کائیں کرتے آئے، منڈیرے کاگا بولے۔ ڈاکٹر مصوّر انصاری نے ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں عالمی یومِ انسدادِ تمباکو نوشی کےحوالے سے دنیا بھر، بالخصوص نوجوانوں میں کورونا فرسٹریشن کا تذکرہ کیا۔ منور راجپوت نے مالیاتی امور کے ماہر، ظفر شیخ کاانٹرویو پیش کرکے اپنی بوقلمونی کا نیا جوہردکھلایا۔ ڈاکٹررانجھا نے پیرعربی شاہ اور چوہدری تاجو جیسے معاشرتی کرداروں کے حوالوں سے اپنی کہانی ’’تاجو‘‘ میں لکھا، ’’روحانیت اُن کے چہرے سےبرستی تھی.....‘‘ لیکن آگے نقشہ روحانیت کا نہیں، نورانیت کاکھینچا، تو جملہ ’’نورانیت چہرے سےبرستی تھی‘‘ہونا چاہیے تھا۔ محمّد مبین امجد نے’’گُڈی‘‘ کی صُورت معاشرے کا بھیانک چہرہ دکھایا۔ اور پھر ’’ناقابلِ فراموش‘‘ اور ماں جیسی پیاری ہستی کے نام پیغامات پڑھتے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی ٹھنڈک میں آگئے۔ اگلا شمارہ عیدالفطر کے روز ملا۔ گمان گزرا، مبادا یہ عید اسپیشل (پارٹ ون) ہو کہ عجب اُداس عید تھی اوراسی اُداس سنجیدگی کو سمیٹے میگزین طلوع ہوا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حافظ محمّد ثانی نے فکرو تدبّر کے دَر وا کرتے فلسفۂ عیدالفطر بیان کیا۔ منور راجپوت مزاجِ عید کی مناسبت سے دل چسپ ہلکی پھلکی تحریر لائے۔ محمّد عاصم صدیقی نے کورنائی روز و شب میں پکوانوں کے محتاط استعمال پر عُمدہ لکھا۔ عالیہ کاشف نےدلچسپ، آموزشی سروے پیش کیا۔ عرفان جاوید کے ’’سفید کوّے‘‘ تیسری اڑان بھرتے نظرآئے۔ ’’پیاراگھر‘‘ میں نادیہ ناز غوری، شہلا خضر اور ریحانہ علی اپنی رجحان ساز تحریرات کے ساتھ موجود تھیں، خصوصاًنادیہ کا ’’سیہ کار‘‘ کا درست املا خوشی دے گیا۔’’سینٹراسپریڈ‘‘پرعید کی مناسبت سے حسبِ روایت مدیرہ صاحبہ کی تحریر تھی۔ ’’ڈائجسٹ ‘‘میں کاوش صدیقی کی کہانی ’’عید ملاقات‘‘ اور فرحی نعیم کی ’’درِدل پرصدا‘‘ اچھی رہیں۔ (پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹائون،کراچی)

ج:لیجیے، حاضر ہے،90 فی صد ایڈیٹنگ کے بعد آپ کے دو شاہ کار خطوط کا ملغوبہ۔

امریکا تک میں…

سنڈے میگزین عین عید کے دن ملا، خوشی ہوئی، سرِورق پسند آیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ’’عید اسپیشل‘‘ میں اچھے مضامین پڑھنے کو ملے۔ منور مرزا کی تحریر کا مگر کوئی مول ہی نہ تھا۔ عالیہ کاشف نے سروے پیش کیا۔ ’’پیاراگھر‘‘ اچھی تحریروں سے مزیّن تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی دونوں تحریریں پڑھنے والی تھیں۔ عرفان جاوید کا ’’عجائب خانہ‘‘ اپنے ’’سفید کوّے‘‘ کے ساتھ مفیداور خُوب تھا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں سلیم راجہ تو مسلسل میلہ لُوٹ رہے ہیں۔ دوسرے شمارے میں ڈاکٹر زیبا افتخار نے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں امام محمّد بن حسن فرقد شیبانی پر بہت اچھا مضمون تحریر کیا۔ ’’عجائب خانہ‘‘ تو واقعی ایک عجائب خانہ ہے، بہت خُوب عرفان بھائی!’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر طاہر مسعود کی تحریر پسند آئی۔ ڈاکٹر رفیع مصطفیٰ نےکینیڈا سےتالپوروں کی کہانی بڑے منفرد انداز میں رقم کی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا صفحہ روزبروز نکھر رہا ہے۔ امریکا سے قرات نقوی کی ای میل پڑھ کر خوشی ہوئی کہ ہمارا صفحہ امریکا تک پسند کیا جاتا ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: سچ تو یہ ہے کہ خوشی تو ہمیں بھی بہت ہوتی ہے، جب امریکا، کینیڈا، جاپان، چین، بھارت اور عرب ممالک سے تعریفی خطوط موصول ہوتے ہیں۔ واقعی آج دنیا ایک ’’گلوبل ویلیج‘‘ ہی بن کر رہ گئی ہے۔

میرے افسانے کا چربہ

عرض یہ ہے کہ میرے افسانوں کے چار مجموعے شایع ہو چُکے ہیں، پانچواں زیرِترتیب ہے۔ 14؍جون 2020ء کے ’’سنڈے میگزین‘‘ کے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ پر ایک تحریر بعنوان ’’اسٹیشن‘‘ شایع ہوئی۔ یہ تحریر میرے ایک افسانے کا چربہ ہے۔ (سرقہ نہیں) میرا یہ افسانہ، افسانوں کے تیسرے مجموعے ’’پانی پر لکیر‘‘ میں ’’بریفنگ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ مذکورہ رائٹر نے میرے افسانے کا خیال، تھیم اور موضوع مکمل چربہ کیا ہے، لیکن نہایت ہی بھونڈے اندازسے۔ اگر ہمیںکسی معروف، بڑے لکھنے والے کی کوئی تحریر یا آئیڈیا متاثر کرتا ہے اور ہم اس پر طبع آزمائی کرنا چاہتے ہیں، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اس تحریر کا حوالہ دیں اور معروف سا جملہ ’’خیال ماخوذ از…!‘‘ لکھ دیں، یہ ادبی اخلاقیات اور اصول کا ایک مہذّب طریقہ ہے۔ میرے افسانے کی کاپی منسلک ہے۔ (رحمٰن نشاط، نارتھ کراچی، کراچی)

ج:ہم نے مذکورہ رائٹر سے اس بابت دریافت کیا، تو وہ حلف اُٹھانے کو تیار ہیں کہ انہوں نے زندگی میں کبھی آپ کا نام سُنا اور نہ آپ کی کوئی تحریر پڑھی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم خود لگ بھگ 20؍ برس سے ایک جریدے کے ساتھ منسلک ہونے کے باوجود آپ کے نام سے ناآشنا ہیں۔ اس لیے اُن کی بات پر یقین نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ دوم یہ کہ ہم نے آپ کی بھیجی گئی تحریر اور اُن کی تحریر کو ایک بار پھر پڑھ کےدیکھا، تو علاوہ بنیادی خیال کے قطعاً کوئی مماثلت نظر نہ آئی۔ اُن کی تحریر کا ایک لفظ بھی آپ کی تحریر سے نقل نہیں کیا گیا، تو پھر وہ چربہ کیسے ہوگئی۔ اُن کے مطابق تو انہیں اس موضوع پر لکھنے کا خیال ہی بھارتی اداکار، عرفان خان کے کینسر کی تشخیص کے بعد کے الفاظ ’’آخری اسٹیشن آ گیا ہے‘‘ سُن کر آیا۔

نرم و گرم جوابات

سنڈےمیگزین کافی زبردست ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر اقبال میمن نے موسمِ گرما کے امراض سے بچّوں کو محفوظ رکھنے کی اچھی ٹپس بتائیں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ کا سلسلہ کافی اچھا چل رہا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’ماں جی‘‘ پڑھ کر دل کو کافی سکون ملا۔ ’’پیارا گھر‘‘ اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ پسندیدہ سلسلے ہیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی تو بات ہی الگ ہے۔ کھٹّے میٹھے سوالات اور نرم و گرم جوابات! (سیّدہ فاطمہ کبریٰ، ملّت گارڈن، ملیر، کراچی)

درخت پر ہاتھ کیوں رکھا؟

یہ آپ کی ماڈل نے درخت پر ہاتھ کیوں رکھا ہوا تھا، کیا وہ سیدھی کھڑی نہیں ہوسکتیں؟ یہ آپ کی تمام ماڈلز ٹیڑھی میڑھی ہی کیوں کھڑی ہوتی ہیں؟ اس بار پھر ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سرِورق کے پیچھے چھاپ دیا۔ آپ کو ایک بار بات سمجھ نہیں آتی؟ انٹرویو کروانے ہی ہیں، تو فرزانہ راجہ، بابر غوری، حیدر عباس رضوی، سیمی زیدی اور ہما نواب کے کروائیں۔ اور کیا آپ کے پاس عرفان جاوید کے علاوہ کوئی لکھاری نہیں ہے۔ براہِ مہربانی اب ان کے آدمی نما درختوں سے سفید کوّے اُڑائیں۔ کوئی نیا سلسلہ شروع کرنا ہی ہے، تو نیٹ بیتیاں اور ’’زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد‘‘ دوبارہ شروع کردیں۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعیدآباد، کراچی)

ج:اِک عُمر گزر گئی، اب آ کے ہمیں ’’زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد‘‘ کا صحیح مطلب سمجھ آیا ہے۔

جنگ پزل میں حصّہ

عرصہ دراز سے جنگ اخبار کا مطالعہ کررہا ہوں۔ ’’جنگ پزل‘‘ میں حصّہ لیا تھا، لیکن کوئی جواب ہی نہیں آیا۔ اس سلسلے میں آپ میری کچھ رہنمائی فرما سکتی ہیں؟ (محمّد سلیم صدیقی)

ج: ’’جنگ پزل‘‘ کا شعبہ یک سر علٰیحدہ شعبہ ہے، جس سے متعلق ہماری معلومات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ رہنمائی کےلیے آپ براہِ راست متعلقہ شعبے سے رابطہ کریں، جو جنگ لاہور سے آپریٹ ہوتا ہے۔

ماڈل چھا گئی

تازہ معطّر شمارہ دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ پہلے صفحے پر ماڈل دل فریب اَدائیں بکھیرتی نظر آئی۔ سبز پتّوں کے رنگ کے، بلکہ قدرے ہلکے گرین لینسز لگائے غزالی سی آنکھوں والی ماڈل بہت بھلی معلوم ہوئی۔ وہ فراز نے کیا خُوب کہا ہے ؎ سُنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں… سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں…سُنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے…سُنا ہے سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں…سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی…سُنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں۔ (یہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے،سوری!) انوسٹی گیشن اسٹوری بہت خُوب تھی۔ کورونا کے حوالے سے رئوف ظفر نے بہت خُوب لکھا۔ اللہ کرے جلد ازجلد ویکسین تیار ہوجائے۔ انٹرویو بھی اچھا رہا۔ ممکن ہو تو حمزہ علی عباسی، منشا پاشا کا بھی انٹرویو کروائیں۔ ’’عجائب خانہ‘‘ میں سفید کوئوں کی پرواز، اُڑان بہت بُلند ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر تو ماڈل چَھا گئی۔ ’’ہیلتھ اور فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر سعدیہ اور ڈاکٹر عمران کی تحریریں لاجواب تھیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے تمام مضامین پسند آئے۔ اور اس بار ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں پروفیسر صاحب سب سے پہلے موجود تھے۔ واہ بھئی واہ! (پیر جنید علی چشتی، ملتان)

ج: ماڈل ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر کم، آپ کے حواسوں پر غالباًزیادہ چھاگئی۔ اتنی کہ گرین لینسزکی تعریف کرتےکرتے، ’’سیہ چشمگی‘‘ کے گُن گانے لگے۔ کہیں خود کو سُرمہ فروش کےقالب میں بھی ڈھلا تو محسوس نہیں کر رہے تھے۔

جواب مختصر کیوں؟

ایک طویل عرصے بعد ننّھی کلی حاضرِ خدمت ہے اس اُمید کے ساتھ کہ اُسی پہلے والی اپنائیت اور پُرخلوص انداز میں خوش آمدید کہا جائے گا۔ کئی بار قلم، کاغذ پکڑا، لیکن مصروفیت کے باعث نہ لکھ سکی، مگر موجودہ حالات نے اتنا اتنا وقت فراہم کردیا ہے کہ اب خط بآسانی لکھا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ میگزین ہاتھ آتے ہی حالات و واقعات، عالمی اُفق اور متفرق سےچھلانگ لگانے کی بجائے اُن کا مطالعہ بھی معمول بن گیا ہے۔ ’’عجائب خانہ‘‘ میں ’’سفید کوّے‘‘ زبردست جارہا ہے۔ ‘‘سنڈے اسپیشل‘‘ ہر دفعہ بہت ہی اسپیشل ہوتا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ ہمیشہ کی طرح پیارا لگا۔ ہر دفعہ اپنائیت ہی محسوس ہوتی ہے۔ ’’اسٹائل‘‘ بھی زبردست ہوگیا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم کی تحریر ’’اسٹیشن‘‘ نے ایک دفعہ پھر اُس حقیقت کی یاد دہانی کروا دی کہ جسے ہم فراموش کر بیٹھے ہیں۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں اچھے اچھے پیغامات پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ لیکن یہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ کے جوابات مختصر سے مختصر ترین کیوں ہوتے جارہے ہیں، کہیں آپ ہم سے ناراض تو نہیں ہوگئیں؟ (اقراء فاطمہ، ہیڈ مرالہ، سیال کوٹ)

ج:جوابات اس لیے مختصر کردیئے ہیں کہ خطوط کی تعداد بڑھائی جاسکے۔ دوم، بعض خطوط نگاروں کے رویّوں سے بھی ازحد مایوسی ہوئی ہے کہ لوگوں نے تو وتیرہ ہی بنا لیا ہے کہ بات بے بات ذاتیات پر اُتر آتے ہیں اور خاص طور پر ہمارے معاشرے میں تو بہت سے ’’نام نہاد مَردوں‘‘ کو لگتا ہے کہ عورت کی تضحیک کرنا ہی اصل مردانگی ہے۔

فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

؎ وہ ایک خط، جو تم نے کبھی لکھا ہی نہیں..... مَیں روز بیٹھ کے اس کا جواب لکھتا ہوں۔ آج کوئی چھے ماہ بعد دل میں پھر ہُوک اٹھی، تومَیں خود کو قلم اٹھانے سے روک نہ سکی۔ دراصل آج میری ’’خانہ محصوری‘‘ ختم ہوگئی۔ دو ماہ بعد زندگی معمول پر آنےلگی، تو ایک مرتبہ پھر سنڈے میگزین بغور پڑھنے کا موقع ملا۔ سرِورق کی تصویر دیکھ کر دل سے آواز آئی ؎ آنکھیں غزل ہیں آپ کی، اور ہونٹ ہیں گلاب۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا سلسلہ بلاشبہ دنیا و آخرت سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ منور مرزا کی تحریر ’’طیارہ حادثہ‘‘ پڑھ کر آنکھیں پُرنم ہوگئیں۔ سچ ہے، کچھ بھی ہوجائے، اس مُلک میں کسی کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ وہ کیا ہے ناں ؎ مَیں اپنا دشت اپنے ساتھ لے کر گھر سے نکلا ہوں…فنا کرنا ہے خود کو اور علی الاعلان کرنا ہے۔ کورونا وائرس کی ویکسین جس سُست رفتاری سے تیار ہو رہی ہے، لگتا ہے، تیار ہونے تک لوگ جنگل کی ہر جڑی بوٹی کا قہوہ پی چُکے ہوں گے۔ ڈاکٹر یاسین کی باتیں پڑھ کر علم و ایمان تازہ ہوگیا۔ ’’سفید کوّے‘‘ بےمثال سلسلہ ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ دورِ ماضی بے حد حسین تھا۔ ویسے ’’عجائب خانہ‘‘ کا اِک اِک موضوع اپنی مثال آپ ہی لگا۔ ایسا تنوّع، ایسی بُوقلمونی پہلے کہیں نہیں دیکھی۔ آپ کی ماڈل دیکھ کر بے ساختہ دل نے کہا ؎ اُن کی صُورت نظر آئے، تو عزل کہتے ہیں۔ ماڈل کے پیراہن اورعالیہ کاشف کے مختصر رائٹ اپ نے بزم کو دیکھنے لائق بنادیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ پڑھا، مفید معلومات حاصل ہوئیں۔ ہاں، ڈاکٹر عمران یوسف کی تحریر کا مطالعہ کرتے بابا بلھے شاہ کا کلام ؎’’پڑھ پڑھ علم ہزار کتاباں… کدی اپنے آپ نوں پڑھیا نئیں… جا جا وڑدے مندر، مسیتیں … کدی مَن اپنے وِچ وڑیا نئیں‘‘ دماغ میں کہیں گونجتا رہا۔ کتابوں پر تبصرہ اچھا تھا۔ خصوصاً بچّوں کی کتابیں رغبت سے دیکھیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ریاض علیمی کی تحریر سے اتنا ہی سمجھا کہ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو۔ حیا شفق نے خُوب کہا کہ ’’مُوڈ اچھا ہو اور بسم اللہ پڑھ کر کھانا پکایا جائے، تو سادہ سا کھانا بھی من و سلویٰ لگتا ہے‘‘۔ اسٹیویا پر مضمون شعور و آگاہی دے گیا۔ ویسے اس ہفتے کا دسترخواں خُوب چٹ پٹے کھانوں سے مزیّن تھا، مزہ آگیا۔ ’’بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ سے متعلق پڑھا، سخت ملال ہوا۔ جب مسیحا ہی لٹیرے ہوں تو عوام کا کیا ہوگا۔ ؎جانے کب ہوں گے کم، اس دنیا کے غم۔ ’’اُردو کے ضرب المثل اشعار‘‘ جیسی کتاب کو عوام کی توجّہ کا مرکز بننا چاہیے۔ صبح خیزی کےکمالات بھی لاجواب تھے۔جاپانی بادشاہت واقعی ایک آئیڈیل نظامِ حکومت ہے۔ اے کاش کہ ہمارے مُلک میں بھی کوئی ایسا ہی حکومتی نظام آجائے، کچھ تو عوام کی شنوائی ہو۔ اور اب آیا ’’آپ کا صفحہ‘‘ جہاں مدیرہ صاحبہ سے نصف ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ ویسے آپ کی تحریروں کو تو میں اپنی تفسیر کی کلاسز میں بھی شامل کرتی ہوں کہ ان تحریروں ہی کی بدولت تو ہم اپنے گھروں میں رہتے ہوئے بھی آپس میں ایک خوب صورت سےبندھن میں جکڑےہوئےہیں۔ قصّہ مختصر، میگزین کے لگ بھگ تمام ہی سلسلے اپنی تمام تر حشرسامانیوں کےساتھ دل میں اترتے چلے جاتےہیں۔ (شاہدہ ناصر، گلشن اقبال، کراچی)

ج: اِسے کہتے ہیں، ’’دیر آید، درست آید‘‘۔

گوشہ برقی خُطوط

ج:شہزادی صاحبہ!بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم نے یہ سلسلہ تھوڑے اپَرلیول، کچھ زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کےلیےشروع کیاہے، تو آپ ناحق اپنی ’’سمجھ دانی‘‘ پر اس قدر بوجھ نہ ڈالیں۔ ہمیں سو فی صد یقین ہے کہ آپ تمام اقساط 10بار بھی پڑھ لیں، آپ کو سفید تو کیا، کالے کوّے بھی نہیں ملیں گے۔ آپ کے تو نام ہی سے پریوں، شہزادیوں کی کہانی کی کسی ایسی ہیروئین کا تصوّر ذہن میں آتا ہے کہ جو ہاتھ سے دوسرا کبوتر بھی چھوڑ کے بتاتی ہے کہ ’’پہلا کبوتر ایسے اُڑا تھا‘‘۔

ج:ہم آپ کے دُکھ میں برابر کے شریک ہیں۔

ج:ہمیں آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ اسی لیے صفحہ انچارج کو ہدایت کردی ہے۔ گرچہ یہ ہدایت پہلے بھی موجود ہے کہ الفاظ تبدیل ہو بھی جائیں، تو کسی تحریر کا مفہوم ہرگز تبدیل نہ ہو۔

قارئینِ کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk