خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار، گرلز اسکاؤٹس

July 31, 2020

اسکاؤٹ تحریک کے بانی، لارڈ رابرٹ بیڈن پاول نے اسکاؤٹنگ کا آغاز 1907ء میں جزیرہ براؤن سی میں 20بچّوں کا کیمپ لگا کر کیا، پھرایک سال بعد 1908ء میں اپنے تجربات پر مشتمل کتاب’’ اسکاؤٹنگ فار بوائز‘‘ لکھی اور 1910ء میں لڑکیوں کی خواہش پر گرلز اسکاؤٹنگ کا آغاز کیا، جودنیا بھر میں ’’گرلز گائیڈ ز‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ جب کہ امریکا اور دیگر ممالک میں اس تحریک سے وابستہ لڑکیاں’’گرلز اسکاؤٹس‘‘ کے نام سے مصروفِ عمل بھی ہیں۔ ایشیا پیسیفک ریجن میں گرلز اِن اسکاؤٹنگ کو متعارف کروایا گیا ہے۔اس تحریک میں لڑکیاں بھی انہی سختیوں، مشکل تربیت سے گزر کر اسکاؤٹس بنتی ہیں، جن کا سامنا لڑکے کرتے ہیں۔البتہ، گرلز گائیڈز کے تربیتی پروگرامز میں میں صرف نسوانی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں۔

چیف سیکریٹری ،سندھ سید
ممتاز علی شاہ

سندھ میں گرلز گائیڈز کی سرگرمیوں کا مرکز حیدرآباد ہے۔ صوبائی ہیڈ کوارٹرکراچی میں ہونے کے با وجود یہاں سرگرمیاں محدود ہیں۔ البتہ،کراچی میں اسماعیلی ڈسٹرکٹ کی گرلز گائیڈز زیادہ فعال ہیں، یہی وجہ ہے کہ گرلز ان اسکاؤٹنگ میں بچیوں کی دل چسپی بڑھتی جارہی ہے۔ کووڈ 19کے پیشِ نظر گرلز گائیڈز سے وابستہ بچیوں نے ماسکس تیار کرکے تقسیم کیے، جب کہ گرلز اسکاؤٹس لڑکوں کے شانہ بشانہ تمام سرگرمیوں میں مصروف رہیں۔ کچھ ماہ قبل جب کراچی کے علاقے گل بہار میں دو بلڈنگز زمیں بوس ہوئیں ،توملبے میں دَبی خواتین کی میتیں نکالنے اور زخمی خواتین کوامداد فراہم کرنے میں کئی مسائل درپیش آرہے تھے۔

اس موقعے پر خواتین ریسکیو ورکرز کی اشد ضرورت تھی، تو گرلز ان اسکاؤٹنگ سے وابستہ خواتین نے ریسکیو ٹیمز کی معاونت کی اور زخمی خواتین کے ساتھ میتوں کو بھی باہر نکالا۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ ماہ لیاری میں بلڈنگز گرنے کے باعث پیش آیا، جب خواتین کو ریسکیو کرنے کے لیے خواتین ہی کی ضرورت تھی، تو گرلز ان اسکاؤٹنگ سے وابستہ خواتین نے مَردوں کے ہم شانہ بہ شانہ کام کیا۔

اسی طرح کورونا وائرس کی آگہی مہم کے دوران بھی شہر کے مختلف علاقوں اور شاہراؤں پر گرلز اسکاؤٹس ہاتھ دھونے، سماجی فاصلے برقرار رکھنے سمیت دیگر اُمور سے متعلق آگہی دیتی نظر آئیں، تو عوام نے انہیں نہ صرف خُوب سراہا ، بلکہ ہدایات بھی بغور سُنیں۔یہی نہیں، گرلز اسکاؤٹس نےکورونا متاثرین کے لیے دن رات راشن بیگز بنانے کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ گرلز اسکاؤٹس سے وابستہ لڑکیاں صرف کراچی جیسے بڑے شہر میں نہیں، بلکہ خیر پور، حیدر آباد، لاڑکانہ، سکھر، نوشہروفیروز، کندھ کوٹ، ٹنڈو آدم سمیت سندھ کے کافی اضلاع میں جاں فشانی سے اپنےفرائض انجام دے رہی ہیں۔

کچھ روز قبل نجی اسکولز سے وابستہ گرلز اسکاؤٹس اور ان کی اسکاؤٹ ٹیچرز نے اپنے اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب کے ساتھ مل کر ننگر پارکر، اسلام کوٹ اور عُمر کوٹ میں پانی کی فراہمی کا عزم کیا۔ اسی کمیونٹی ڈیویلپمنٹ پروگرام کے تحت پرائیوٹ اسکولز ڈسٹرکٹ بوائے اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کے اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ اسکاؤٹ کمشنر ،اخلاق احمد اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ سیکریٹری، محمّد احمد خاں نے ان علاقوں میں کنوئیں کھدوانے کا بیڑا اٹھایا ہے، ریگستانی علاقے میں پانی کی تلاش یقینا ًمشکل ،لیکن نیک کام ہے۔

اس میں مشکلات کے ساتھ ساتھ وسائل کا حصول مشکل ترین اورتھا لیکن جب نیکی کی جانب قدم بڑھایا جائے، تو پھر راستہ خود بخودہم وار ہوتا چلا جاتا ہے۔ سو، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اخلاق احمدنے گزشتہ دنوں آ ن لائن سسٹم کے ذریعے بچّوں کو کورونا وائرس سے متعلق آگہی بھی فراہم کی کہ تعلیمی ادارے کُھلنے سے قبل بچّوں میں کورونا سے متعلق آگہی ضرورہونی چاہیے۔

دوسری جانب گرلز اسکاؤٹس بھی بوائے اسکاؤٹس کی طرح پسِ پردہ خدمات انجام دینے والوں میں شامل ہیں ،ہم انہیں بھی سلام پیش کرتے ہیں ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی بچیوں کو بھی اس اسکاؤٹ تحریک میں شمولیت کی ترغیب دیں تاکہ بچیوں میں خود اعتمادی، حوصلہ اور خدمتِ خلق کا جذبہ پروان چڑھ سکے۔

یاد رکھیں! ایک لڑکے کی تربیت،ایک فرد کی تربیت ہے ،جب کہ ایک لڑکی کی تربیت ، پورے خاندان کی تربیت ہے۔ آئیے، ہم اپنے خاندانوں کو تربیت یافتہ کریں ، تاکہ آنے والی نسلیں بہتر ہوں۔علاوہ ازیں، اس وقت ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اسکول اور کالج لیول کے ساتھ یو نی وَرسٹی میں بھی اسکاؤٹنگ کا آغاز کیا جائے۔ ہم چیف سیکرٹری، سندھ سید ممتاز علی شاہ سے گزارش کرتے ہیں کہ یو نی وَرسٹی کی سطح پر بھی اسکاؤٹنگ متعارف کروائی جائے، تاکہ جوش و جذبے سے بھر پور، نسلِ نو مُلک و ملّت کی تعمیر میں اپنا کلیدی کردار ادا کر سکے۔