جمع نہیں، تقسیم

July 31, 2020

فرحی نعیم

’’ارے خالہ آپ…؟؟آئیے آئیے، بڑی لمبی عُمر ہے آپ کی۔ دو دن سے آپ ہی کو یاد کررہی تھی۔‘‘ صوفیہ ،خالہ سے گلے ملنے کوبےاختیار آگے بڑھی، مگر پیچھے سے متنبہ آواز نے بڑھتے قدم روک دئیے۔’’سوشل ڈسٹینس امّی۔‘‘ اور وہ کھسیاکر پھر ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔ خالہ کو بھی اتنی انگریزی کی سمجھ تو حالات نے کرواہی دی تھی۔ لہٰذا وہ بھی ایک لمبی آہ بھر کر رہ گئیں۔’’ عجب بیماری ہے، پہلے ہی کیا کم رشتوں میں دوریاں اور فاصلے تھے، جواس بیماری نے مزید بڑھا دئیے۔ ‘‘ ’’ جی خالہ ،اب تو ہاتھ ملانے سے بھی گئے‘‘’’ بس جی ، ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ ‘‘ خالہ نے اپنا تکیۂ کلام دُہرایا۔کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے انہوں نے شوکت میاں کی بابت دریافت کیا۔’’وہ تو فریج لینے گئے ہیں۔‘‘ صوفیہ پُر جوش لہجے بولی۔’’ فریزر امّی…‘‘ چائے لاتی بیٹی نے ماں کی تصحیح کی۔’’ ارے ہاں ہاں، وہی ایک ہی بات ہے۔‘‘’’ ایک ہی بات نہیں ہے امّی۔‘‘ ’’ اچھا اچھا‘‘ اب صوفیہ جھلا گئی ۔ ’ ’ مگر بیٹی، یہ اتنا بڑا فریج تو پہلے ہی تمہارے گھر میں ہے؟‘‘خالہ نے صوفیہ سے کہا۔’’ خالہ، پچھلے کئی برس سے فریزر لینے کا سوچ رہے تھے، اب خدا خدا کر کے کچھ پیسے جمع ہوئے ہیں، تو مَیں نے ان سے کہا کہ اب فریزر لے ہی آئیں۔تہواربھی سر پر ہے۔

گوشت رکھنے میںبڑی دشواری ہو تی ہے۔‘‘’’ رکھنے میں نہیں، جمع کرنے میں بولو بیٹی۔‘‘ اب کے تصحیح کرنے والی خالہ تھیں۔’’ وہ… نہیں،نہیں خالہ ، ایسی تو کوئی بات نہیں۔اصل میںہمارے فریج کا فریزر بہت چھوٹا ہے، برف، دودھ اور چند ایک فروزن آئٹمز ہی سے بھر جاتا ہے۔ گوشت رکھنے کی تو جگہ ہی نہیں بچتی۔ اب اتنا گوشت خراب تو نہیں کر سکتی ناں۔‘‘’’تو بیٹی، اتنا گوشت رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟تم تو ماشاء الله سارا سال گوشت خریدنے کی استطاعت رکھتی ہو ‘‘’’جی آپ کی بات درست ہے، لیکن اس گوشت پر اتنا حق تو ہمارا بھی بنتا ہے۔‘‘’’ کیسا حق؟‘‘ ’’ تکّے، کباب، ران، پائے، مغز، چانپ اور کلیجی ، نہاری کھانے کا حق۔‘‘ یہ کہنے والا صوفیہ کا چھوٹا بیٹا تھا۔’’ تم ضرور بیچ میں بولنا۔‘‘ صوفیہ نے جھنجھلا کر ایک دَھپ رسید کی ۔’’ایک ہمارا وقت تھا، فریج، نہ فریزر۔‘‘ خالہ نے اپنا وقت یاد کیا۔ ’’اُف! کتنی پریشانی سے گزرتے ہوں گےآپ لوگ؟

کس طرح گوشت محفوظ کرتے ہوں گے؟‘‘ صوفیہ قدرے تاسّف سے بولی۔ ’’ پریشانی توہوتی تھی، مگر زیادہ نہیں۔فکر یہ ہوتی تھی کہ مستحقین ، رشتے داروں، عزیزوں، پڑوسیوں اور غربا کو گوشت پہنچے۔ کوئی محروم نہ رہ جائے، ہمارے ابّا میاں توپہلے ہی سے مستحق خاندانوں کی فہرست بنا کر سب کو بتا دیتے تھےکہ فلاں دن قربانی ہوگی، آپ تشریف لاکرہمیں خدمت کا موقع دیجیے گا۔ہمارے ابّا میاں انداز ایسااختیار کرتےکہ جیسےالٹا وہ آکر والد صاحب پر احسان کر رہے ہوں۔

ان کو شرمندگی کا احساس نہ دلاتے ۔گھر میں صرف اتنا ہی رکھا جاتا کہ ایک ہفتہ نکل جائے۔پر اب کہاںرہے ایسے نایاب لوگ… ‘‘ خالہ نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا۔ ’’ یہ کم بخت فریج جب سے آیا ہے، لوگ ایک دوسرے سے دُور ہوگئے ہیں۔ ‘‘ ’’ فریج کی وجہ سے؟ بھلا اس میں فریج بےچارے کا کیا قصور…؟‘‘’’ تم جانتی ہو، ہمارے مذہب میں مستحقین کی مدد کا کتنا اجرو ثواب ہےاور ویسے بھی بانٹنے ،تقسیم کرنے سے محبتیں بڑھتی ، کدورتیں ختم ہوتی ہیں، تو جب فریج نہ تھے،تو لوگ گھروں میں بچ جانے والا کھانا پڑوس میں دے دیتےتھے۔اس طرح پیار بھی بڑھتا تھا اور برکتیں بھی۔روزانہ لین دین چلتا رہتا، یہ نہیں مہینے بھر تک فریج میں سڑتا رہے، پھر پھینک دیاجائے۔‘‘ خالہ نے تاسّف سے کہا۔

’’ خالہ !مجھے تو لگتا ہےبرائی فریج میں نہیں، اس کے غلط استعمال میں ہے۔اب دیکھیں ناں گرمیوں میں ٹھنڈا پانی اسی کی بدولت تو میسّر ہے۔‘‘’’اچھا، تو تم فریزر کیوں منگوارہی ہو؟ میرا مطلب ہے کہ تمہارے گھر تو فریج ہے‘‘ پھر چند لمحوں بعد خود ہی گویا ہوئیں’’ صرف اسی لیےناںکہ اس میںبڑی مقدار میں گوشت محفوظ کر سکو…فریزر نہ ہونے پر تم گوشت بانٹ بونٹ کر ختم کردیتیں ؟مجھے تو رزق خراب ہونے میں الله کی حکمت سمجھ آتی ہے۔‘‘خالہ نے اپنی بات جاری رکھی۔’’ رزق خراب ہونے میں بھی حکمت پوشیدہ ہے؟‘‘صوفیہ گویا ہوئی۔’’ہاں، الله تعالیٰ چاہتاہے،رزق جمع نہ کرو، تقسیم کرو۔

زیا دہ عرصہ کوئی چیز رکھو تو، کسی میں کیڑے، کسی میں پھپوندلگ جاتی ہے، تو کوئی سبزی، پھل گل سڑ جاتاہے، کسی سے بدبو آنے لگتی ہے، کیوں کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پرکسی ایک بندے یا خاندان کا نہیں،اُس کے سب بندوں کا حق ہے۔ ‘‘’’ویسے خالہ! بات تو آپ نے بالکل ٹھیک کہی۔ چلیں اب فریزر تو آہی جائے گا، لیکن میرا آپ سے وعدہ ہے کہ اس کانا جائز استعمال نہیں کروں گی۔ ‘‘ صوفیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’ یعنی، تقسیم نہیں ،جمع‘‘ صوفیہ کا چھوٹا بیٹابولا، لیکن اس مرتبہ اکھٹی دو دَھپ رسید هہوئیں۔’’ اوہ! میرا مطلب ہے، جمع نہیں ،تقسیم۔‘‘اُس نے جلدی سے خود ہی تصحیح کرلی۔