بانجھ پن عیب نہیں، مرض ہے

July 31, 2020

دُنیا بَھر میں ہر سال 25 جولائی کو ورلڈ آئی وی ایف اینڈورلڈایمبریولوجی ڈے(World IVF Day and World Embryology Day) منایا جاتا ہے،جس کا مقصد ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے طریقۂ علاج سے متعلق معلومات عام کرنا اورعوام النّاس میں اس حوالے سے پائے جانے والے خدشات دُور کرنا ہے۔ اصل میں یہ تاریخ شعبۂ طب خصوصاً، اِن فرٹیلیٹی کے شعبے میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے،کیوں کہ 1978ءمیں انگلینڈ کے ایک اسپتالRoyal Oldham General Hospital'' ''میں پہلی ٹیسٹ ٹیوب بے بی، لوئیس جوئے براؤن کی ولادت عمل میں آئی اور یوں طبّی ماہرین نے ثابت کردیا کہ بےاولادی عیب نہیں، ایک مرض ہے اور اس کا علاج ممکن ہے،لہٰذا آئی وی ایف (In Vitro Fertilisation)کے اس کام یاب تجربے کی خوشی میں25جولائی کو ہر سال لوئیس براؤن کی سال گرہ منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پیدایش کے وقت لوئیس براؤن کا وزن 5 پاؤنڈ12 اونس تھا۔

لوئیس کا بچپن عام بچّوں کی طرح کھیلتے کودتے گزرا۔ اس کی پیدایش کے ٹھیک چار سال بعد اس کی دوسری بہن بھی آئی وی ایف کے ذریعے پیدا ہوئی۔42 سالہ لوئیس براؤن 2004ء میں ویسلے مولینڈر نامی شخص سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئی اور اب وہ دو صحت مند بیٹوں کی ماں ہے۔ اگرچہ لوئیس براؤن کی پیدایش بے اولاد جوڑوں کے لیے اُمید کی کرن ثابت ہوئی،مگرمختلف حلقوں میں علاج کے اس طریقۂ کار پر کئی سوالات بھی اُٹھائے گئے۔ اس کے باوجود1978ء سے آج تک تین دہائیوں کے اس سفر میں عالمی سطح پرتقریباً10 ملین بچّے اسی تیکنیک کے ذریعے پیدا ہوئے۔

1973ء تک عمومی طور پر بے اولاد ہونے کا قصور وار خواتین ہی کو ٹھہرایا جاتا تھا اور بانجھ پن کو بھی کبھی ایک بیماری یا عارضے کے طور پر دیکھا ہی نہیں گیا تھا، لیکن جب اس حوالے سے تحقیقات کا آغاز ہوا،تو طبّی ماہرین نے یہ ثابت کردیا کہ بانجھ پن بھی دیگر عوارض کی طرح ایک مرض ہے، جس سے مَرد و عورت دونوں ہی متاثر ہوسکتے ہیں۔

مضمون نگار، پہلی ٹیسٹ ٹیوب بے بی، لوئیس برائون سے ملاقات کے موقعے پر

جب تحقیق کے مزیددَر وا ہوئے تو آئی وی ایف کا طریقۂ علاج دریافت ہو،جس کا پہلا تجربہ برطانیہ کے رہایشی بے اولاد جوڑے Lesley اور John Brown پر کیا گیا اور پھر نو ماہ کے انتظار کے بعد بھورے بالوں اور نیلی آنکھوں والی ایک بہت پیاری بچّی نے اپنی بے اولاد ماں کی گود اپنے نرم ملائم و ملائم وجود سے بَھردی۔

"In Vitro"لاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی’’شیشے کے اندر‘‘ہیں۔چوں کہ یہ عمل لیبارٹری میں ڈش ٹیسٹ ٹیوبز اور انکیوبیٹر کے ذریعے انجام پاتا ہے، لہٰذا اسے اِن وٹرو فرٹیلائیشن کا نام دیا گیا۔ اس ٹیکنالوجی کے بانی برطانوی سائنس دان، Sir Robert Geoffrey Edwards تھے،جنہیں 2010ء میںمیڈیسن اور فزیالوجی کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دینے پر نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا۔گزرتے وقت کے ساتھ اب عالمی سطح پراِن فرٹیلیٹی کا شعبہ بہت منظم ہوچُکا ہے،یہی وجہ ہے کہ اب بانجھ پن کے جدید سے جدید طریقۂ علاج متعارف ہو رہے ہیں۔

عام طور پر بے اولاد جوڑے اس طریقۂ علاج کی شرعی حیثیت سے متعلق لازماًسوال کرتے ہیں، تویہ شرعی طور پر بالکل جائز طریقۂ علاج ہے، اس حوالے سے جامعہ الازہر، مصر کے علاوہ سعودی علمائے کرام کے فتوے بھی موجود ہیں۔ نیز، مکّہ اور مدینہ منوّرہ سمیت کئی شہروں میں اِن فرٹیلیٹیسینٹرز بھی قائم ہیں،البتہ مغرب کے مقابلے میں یہاں کچھ حدود و قیود کی پابندی ضرورکی جاتی ہے۔تاہم، افسوس ناک امر یہ ہے کہ مغرب کے بعد کئی مسلمان اور ترقّی پذیر مُمالک نے بھی اس علاج کی افادیت تسلیم کی ہے، لیکن ہم اب تک اس طریقۂ علاج پر تحفّظات ہی کا اظہار کر رہے ہیں۔ حالاں کہ یہ صرف سمجھنے کی بات ہے کہ جس طرح ہم عام نزلہ زکام سے لے کر کسی بھی مرض کے علاج کے لیے معالج سے رجوع کرکے دوا استعمال کرتے ہیں، اِسی طرح بانجھ پَن کا بھی علاج کروایا جاسکتا ہے۔

لوئیس برائون، اپنی تاریخ ساز تصویر کے ساتھ

یاد رکھیے، اولاد کا حصول ہر اُس بےاولاد جوڑےکا حق ہے، جسے اس علاج سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ اکثر یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ کیا ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے پیدا ہونے والے بچّوں اور عام بچّوں میں کوئی فرق ہوتا ہے؟تو یاد رکھیں، یہ بچّے قدرتی طریقۂ تولید کے ذریعے پیدا ہونے والے بچّوں جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ٹیسٹ ٹیوب بچّے پیدایشی طور پرکم زور ہوتے ہیں، نہ ہی پری میچور۔ ان میں کوئی بھی پیدایشی نقص پایا جاتا ہے اور نہ ہی عُمر بڑھنے کے ساتھ ان کی ذہانت میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ عام بچّوں کی طرح اپنے والدین کا مکمل پرتو ہوتے ہیں۔ہاں البتہ ٹیسٹ ٹیوب بی بیز کے کیسز میں سے 25 فی صد جڑواں بچّے ہونے اور چند فی صد میں ٹریپلٹ ہونے کے امکانات ضرور ہوتے ہیں،کیوںکہ حمل ٹھہرانے کے لیے بیضہ دانی میں بیک وقت دو یا تین انڈے رکھے جاتے ہیں۔نیز، ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعے حاملہ ہونے والی خواتین میں نارمل زچگی یا آپریشن کی شرح بھی عام خواتین جتنی ہی پائی جاتی ہے۔

پاکستان میں یہ جدید ترین ٹیکنالوجی آسٹریلیا کے تعاون سے متعارف کروائی گئی ہے اورجب کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ’’فروزن ایمبریو ٹرانسفر‘‘کی منتقلی عمل میں آئی، تو اس خوش نصیب بچّی کا نام ’’مہک ‘‘ رکھا گیا۔ اب تک پاکستان بَھر میں اس طریقۂ علاج کے ذریعے ہزاروں بےاولاد جوڑوں کو اولاد کی خوشی دیکھنا نصیب ہو چُکی ہے۔ یاد رہے، دُنیا بَھر میں اِن فرٹیلیٹی سینٹرز کے لیے یہ اصول وضع کیا گیا ہے کہ بے اولاد جوڑے سے متعلق تمام تر معلومات راز رکھی جائیں۔مثلاً بے اولاد جوڑے اولاد کے حصول کے لیے کون سا طریقۂ علاج منتخب کرتے ہیں، بانجھ پَن کی وجہ کیا ہے، شوہر کو علاج کی ضرورت تھی یا بیوی کو وغیرہ وغیرہ۔اصل میں یہ معاملہ بے اولاد جوڑوں کا سو فی صد نجی معاملہ ہے، جس کی تفصیل بھی صرف معالج ہی کے لیے جاننا ضروری ہے، ہر ایک کے لیے نہیں۔

لہٰذا اسی اصول کی بنیاد پر جولائی 1998ء میں کراچی میں آسٹریلین کونیسپٹ اِن فرٹیلیٹی میڈیکل سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔اور آج کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت 16 شہروں میں اس کی برانچز قائم ہیں،جہاں سے اب تک 10 ہزار سے زائد بے اولاد جوڑوں کی گودیں بھر چُکی ہیں۔اس حوالے سے یہ خوش آئند امر ہے کہ اب لوگوں میں بانجھ پن کے حوالے سے شعور و آگاہی پیدا ہورہی ہے۔اور زیادہ تر جوڑے شادی کے ڈیڑھ یا دو سال بعد تک اس نعمت سے محروم رہیں تو ٹونے ٹوٹکوں پر عمل کی بجائے علاج کے لیے مستند معالجین سے رجوع کرتے ہیں۔

(مضمون نگار، 34 برس تک محکمۂ صحت، سندھ سے وابستہ رہے، ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر، فیملی ہیلتھ پراجیکٹ کے طور پر خدمات انجام دیں، پاکستان میں جینیٹکس ٹیکنالوجی متعارف کروائی،بانجھ پن سے متعلق متعدد عالمی کانفرنسز میں شرکت کی اور فی الوقت آسٹریلین کونیسپٹ اِن فرٹیلیٹی میڈیکل سینٹر کے سربراہ ہیں)