ماں کا دودھ... قدرت کا اولین تحفہ، بچے کیلئے مکمل غذا

July 31, 2020

ڈاکٹر مسز نوید بٹ، اسلام آباد

جس طرح ماں کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا، بالکل اِسی طرح غذائی اعتبار سےماں کے دودھ کا بھی کوئی بدل نہیں۔ ماں کا دودھ ننّھے مُنے بچّوں کے لیے بہترین غذا اور قدرت کا اوّلین تحفہ ہے۔ میڈیکل سائنس بھی یہ اعتراف کرچُکی ہے کہ نوزائیدہ بچّوں کے لیے کوئی بھی نئی غذا ماں کے دودھ سے قریب تر تو ہوسکتی ہے، لیکن اُس جیسی نہیں۔ اِسی لیے عوام النّاس میں ماں کے دودھ کی افادیت اُجاگر کرنے کے لیے عالمی ادارۂ صحت، ورلڈ الائنس فار بریسٹ فیڈنگ ایکشن اور یونیسیف کے اشتراک سے ہر سال دُنیا بَھر میں اگست کا پہلا ہفتہ’’بریسٹ فیڈنگ اوئیرنیس‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے، تاکہ ہر سطح تک ماں کے دودھ کی افادیت سے متعلق معلومات عام کی جاسکیں۔

دورانِ حمل گائناکالوجسٹ سے معائنہ کروانے کو طبّی اصطلاح میں "Antenatal Check Ups"کہا جاتا ہے اور یہی وہ بہترین وقت ہوتا ہے کہ جب ایک ماہرِ امراضِ زچہ و بچّہ حاملہ کو اپنا دودھ پلانے کی جانب راغب کرسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ جس نے تخلیق کے اس عمل میں اپنی مخلوق کی خوراک کا انتظام اس کی پیدایش کے ساتھ ہی کردیاہے۔ یوں ایک ماں، نوزائیدہ کی پیاس بُجھانے اور بھوک مٹانے میں مددگار بنتی ہے اور اللہ کے ہاں بہترین اجر کی مستحق بھی قرار پاتی ہے۔

پہلی بار ماں بننے والی خواتین کو اس موقعے پر زیادہ توجّہ کی ضرورت ہوتی ہے۔نیز، ان کے تمام سوالات کا جواب دینا، شبہات و خدشات دُور کرنا، دودھ پلانے کا صحیح طریقہ بتانا اور خود انہیں اپنی خوراک کے متعلق آگاہ کرنا گائناکالوجسٹ کی ذمّے داری ہے۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک ماں کا نومولود کو اپنا دودھ پلانا پسندیدہ عمل ہےاور ماں کے لیے قابلِ فخر بھی۔ حمل ٹھہرنے سے لے کر زچگی تک کے مختلف مراحل میں متعدّد افرادحاملہ کے لیے مددگار کا کام کرتے ہیں۔ جیسے حمل کے دوران گائنا کالوجسٹ اورگھر کی بڑی خواتین کا رہنمائی کرنا، زچگی کے وقت ڈاکٹر یا مڈوائف(TBA: traditional birth attendant)کا موجود ہونا، زچگی کے فوراً بعد ماہرِ امراضِ اطفال، بچّوں کی نرس یا ٹی بی اے کا نومولود کو دودھ پلانے کے لیے رہنمائی کرنا اور زچگی کے بعد شوہر اور گھر والوں کا مثبت رویّہ بھی ماں کے لیے بہت ہمّت افزا ہوتا ہے۔ان تمام تر مراحل میں ضروری بات یہ ہے کہ بریسٹ فیڈنگ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

اصل میں دماغ کے جس حصّے میں خوشی اور غم کی کیفیات تخلیق ہوتی ہیں، اس کے قریب ہی ماں کے دودھ بننے کا مرکز بھی واقع ہوتا ہے، لہٰذا جب اسپتال کے عملے اور اہلِ خانہ کے رویّے مثبت اور حوصلہ افزاہوں گے، تو ذہن پر اس کے اثرات بھی اچھے مرتّب ہوں گے ،لیکن اگر ماں کے سامنے منفی باتیں کی جائیں گی،مثلاً اس کا دودھ بچّے کی ضرورت کے مطابق نہیں یا صحت بخش نہیں، تو اس طرح کی باتیں بریسٹ فیڈنگ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ماں کا دودھ ،بچّے کا پہلا حق ہے، جو اسے قدرت نے عطا کیا ہے۔ماں کا دودھ نہ صرف نومولود کی بھوک ،پیاس مٹاتا ہے، بلکہ ماں اور بچّے کا تعلق بھی مضبوط کرتا ہے۔ ماں کا دودھ پینے والے بچّے زیادہ عقل مند ہوتے ہیں اور خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ان میں کسی قسم کی الرجی یا انفیکشنز سے متاثر ہونے کے امکانات کم پائے جاتے ہیں۔

یہ صحت مند، کم زور اور بیمار یعنی ہر طرح کے بچّوں کے لیے مفید ہے۔نیز، اسے پینے سے بچّےموٹاپے کا شکار بھی نہیں ہوتے۔ کم زور بچّوں میں پیٹ پُھولنے کی جان لیوا بیماری ثابت ہوسکتی ہے، مگر جو بچّے ماں کا دودھ پیتے ہیں،وہ اس مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔علاوہ ازیں،قدرت نے ماں کے دودھ میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ اس میں پائے جانے والے نمکیات، لحمیات، کاربوہائیڈریٹس اور فیٹس کی مقدار متوازن ہوتی ہے۔پھر ماں کے دودھ کا درجۂ حرارت نارمل ، ہر طرح کی ماحولیاتی آلودگی اور جراثیم وغیرہ سے پاک ہوتا ہے۔واضح رہے کہ حمل کی مدّت بڑھنے کے ساتھ ماں کے دودھ کی Composition بھی بدلتی رہتی ہے۔یعنی اگر ایک بچّہ ساتویں یا آٹھویں مہینے میں پیدا ہو، تو یہ اس عُمر کے بچّے کے نظامِ ہضم کے مطابق ہوگا۔

حال ہی میں کی جانے مزید تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لڑکی اور لڑکے کی پیدایش کے نتیجے میں بھی ماں کادودھ کمپوزیشن میں مختلف ہوتا ہے ۔ بریسٹ فیڈنگ کے فوائد صرف بچّے ہی پر نہیں ،ماں پر بھی مرتّب ہوتے ہیں۔ مثلاًماں کا رحم جلد اپنی اصل حالت پر آجاتا ہے۔ یہ عمل ماں کو جان لیوا مرض پی پی ایچ "Post Partum Hemorrhage" سے تحفّظ فراہم کرتا ہے۔دودھ پلانے والی مائوں میں بریسٹ اور بچّہ دانی کےکینسر زکی شرح کم ہوجاتی ہے۔

پھر یہ خاندانی منصوبہ بندی کا ایک قدرتی طریقہ ہے ۔مزید یہ کہ Postmenopausal Hip Fracture سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ ماں باپ پر مالی طور پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑتا، بچے کو دودھ پلانے سے ماں میں اطمینان اور خوش گواریت کے اثرات پیدا ہوتے ہیں، نفسیاتی طور پر بھی ماںبہت اچھا محسوس کرتی ہے ۔نیز، اس طرح ایک مضبوط خاندانی نظام بھی جنم لیتا ہے کہ جب خاندان کے دیگر افراددودھ پلانے کی اہمیت اُجاگر کریں گے، تو باہمی محبّت اور خیر خواہی کے جذبات اُبھریں گے، جو مطمئن خانگی زندگی کے لیے ازحد ضروری ہے۔

حمل ٹھہرنے سے لے کر زچگی تک اور اس کے بعد نومولود کو دودھ پلانا یہ وہ تمام مراحل ہیں، جن میں ماں کو غذا کی زیادہ مقدار ہی نہیں، متوازن غذا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ دودھ پلانے والی ماؤں کو دِن میں 7سے8بار کچھ نہ کچھ کھانا چاہیے۔ اس ضمن میں ایک غذائی شیڈول درج کیا جارہا ہے،جس پر عمل ماں اور بچّے کی صحت کے لیے مفید ثابت ہوگا۔

صُبح سات بجے:ناشتا کریں، جس میں انڈا، پراٹھا یا روٹی اور دودھ شامل ہو۔ دِن کے دس یا ساڑھے دس بجے: شربت یا چائے کے ساتھ پنجیری، بسکٹس یا روٹی استعمال کریں۔ دوپہر کا کھانا :تقریباً ایک بجے گھر کا بنا ہوا پیٹ بَھر کر کھائیں ،جب کہ کھانے میں سالن، روٹی، چاول، دہی اور سلاد شامل ہو۔ سہ پہر چار بجے:دودھ یا چائے کے ساتھ حلوا، بسکٹس یا کوئی ہلکی پھلکی غذا استعمال کریں۔نیز، موسم کی مناسبت سے شربت یا پھل وغیرہ بھی استعمال کرسکتی ہیں۔

شام سات بجے: رات کا کھانا کھالیں۔کوشش کریں کہ باہر کا کھانا نہ کھائیں۔ رات دس بجے:چوں کہ رات میں ماں نے دودھ پلانا ہوتا ہے، اس لیے کمرے میں خشک بسکٹس، پھل، کھجور یا خشک میوہ جات رکھ لیں اور جب بھوک محسوس ہو ،کھالیں، جب کہ سونے سے قبل ایک گلاس دودھ ضرور پیئں۔واضح رہے کہ دودھ پلانے سے قبل ماں کو شدید پیاس کا احساس ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے، لہٰذا ہر بار دودھ پلانے سے قبل ایک گلاس پانی لازماً پی لیں۔علاوہ ازیں، زچگی کے بعد اپنی روزمرّہ مصروفیات بتدریج بحال کریں، تاکہ صحت مند اور چاق چوبند رہ سکیں۔ معالج نے جو ادویہ تجویز کی ہیں،وقت پر بلاناغہ استعمال کریں۔

بریسٹ فیڈنگ کے دوران اکثر اوقات معمولی نوعیت کے طبّی مسائل پیش آتے ہیں، جنہیں سمجھنا اور حل کرنا ضروری ہے۔ مثلاً بچّے کا زیادہ دیرتک یا سرے سےدودھ نہ پینا، نپل پرزخم ، بریسٹ میں درد یا سُوجن وغیرہ۔اگر نارمل زچگی دشواری سے ہوئی ہو، بذریعہ سرجری پیدایش ہو،پی پی ایچ یا پھر کسی بھی پیچیدگی کے سبب ماں آئی سی یو میں داخل ہو، تو بچّے کو معالج کے مشورے سے چند روز کے لیے اوپر کا دودھ پلایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے دودھ فیڈر میں بنائیں، کیوں کہ اس پر نشانات لگے ہوتے ہیں، جو صحیح دودھ بنانے کا طریقہ بتاتے ہیں، مگر پلائیں چمچ کے ذریعے، تاکہ بچّے کو بوتل کے نپل کی عادت نہ ہو اور چند روز بعد وہ اپنی ماں ہی کا دودھ باآسانی پی سکے۔ اِسی طرح اگر نپل پر زخم ہوں، توماں کو دودھ پلانے کا صحیح طریقہ سکھایا جائے۔

نیز، اس دوران ماں کا دودھ نکال کر زخم پر لگا رہنے دیں، تو زخم بَھر جاتا ہے۔بریسٹ متوّرم ہوجائیں (جسے طبّی اصطلاح میںBreast Engorgement کہتے ہیں)، تو اس حالت میںدودھ پلانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات سُوجن کے سبب کندھوں میں شدید درد اور بخار بھی ہوجاتا ہے۔ اس صُورت میں نیم گرم پانی میں تولیا بھگو کر سینکائی کریں۔

اگر ماں Inverted Nipple کے مسئلے سے دوچار ہو، تو ایک مخصوصNipple Shieldکے ذریعے اپنا دودھ پلایا جاسکتا ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ معالج سے رابطہ کرلیا جائے،تاکہ طبّی مسئلے کی نوعیت کی مطابق درست علاج ہوسکے۔پہلی بار ماں بننے والی خواتین کو بچّے کو دودھ پلانے کا درست طریقہ لازمی معلوم ہونا چاہیے۔اس ضمن میں معالج سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔عموماً دودھ پلاتے ہوئے بچّے کا سَر اور جسم اپنے پورے بازو پر یوں رکھیں کہ داہنی طرف سے پیتے ہوئے سَر دائیں کہنی کے قریب بازو پر ہو اور بچّے کا جسم دائیں بازو سے ماں کی طرف پلٹا ہوا ہو۔

اِسی طرح بائیں جانب سے دودھ پلاتے ہوئے سَر اور جسم بائیں بازو پر ہوں۔ دودھ اطمینان سے پُرسکون جگہ بیٹھ کر پلائیں۔اس بات کا بھی دھیان رکھیں کہ نپل کے گرد سیاہ حصّہ (Areola)بھی بچّے کے منہ میں جانا چاہیے، کیوں کہ Milk Ductsاسی حصّے میں ہوتی ہیں۔ نیز، بچّہ سیر ہو کر دودھ پیتا ہے اور درست طریقہ بھی یہی ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ اگر بچّہ صرف نِپل منہ میں لے کر دودھ پیے، توپوری طرح دودھ نہیں ملتا اور وہ پریشان ہو کر روتاہے۔ یاد رکھیے، اس حصّے میں دودھ نہیں ہوتا اورمائیں یہ سمجھتی ہیں کہ دودھ کم ہونے کی وجہ سے بچّے کا پیٹ نہیں بھر رہا۔ درست طریقہ یہ ہے کہ بچّے کا نچلا ہونٹ ذرا سا نیچے کر کے areole تک پورا حصّہ منہ میں جانے دیں، اس طرح بچّہ پیٹ بَھر کر دودھ پیے گا ۔بچّے کو ہمیشہ بیٹھ کر دودھ پلائیں۔

آپریشن کی صُورت میں چند روز لیٹ کر پلا سکتی ہیں۔اگر کسی وجہ سے زچگی قبل از وقت ہو جائے یا پیدایشی طور پر بچّہ کم زور ہو، تب بھی ماں اپنا ہی دودھ پلائے کہ اس سے بہترین غذا کوئی اور نہیں۔عمومی طور پر کم زوری کی وجہ سے بچّہ جلد تھک کر دودھ پینا چھوڑ دیتا ہے، لہٰذا وقفے وقفے سے Brest Pumpکے ذریعے دودھ نکال کر پلائیں، تاکہ غذائیت پوری ملتی رہے، جب کہ چمچ سے پلانے والی مقدار بھی بتدریج بڑھائی جاسکتی ہے۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب ماں بچّے کو دودھ پلاتی ہے، تو ابتدا کا دودھ پتلا ہوتا ہو،جو پیاس بُجھاتا ہے، جب کہ آخر میں آنے والا دودھ (Hind milk) گاڑھا ہوتا ہے، جس میں زیادہ پروٹین اور فیٹس پائے جاتے ہیں،لہٰذا اگر جلدی جلدی سائیڈ بدل کر دودھ پلائیں گی، تو بچّہ صرف پتلا دودھ ہی پی پائے گا۔اس لیے ایک ہی طرف سے اتنی دیر دودھ پلائیں کہ خالی ہونے کا احساس ہو جائے۔ اس کے بعد دوسری طرف سے پلائیں۔

دُنیا بَھر میں نوزائیدہ بچّوں میں شرحِ اموات میں اضافے کے پیشِ نظر Baby Friendly Hospital کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جہاں ہر سطح کے عملے کو دودھ پلانے میں مہارت حاصل ہوتی ہے۔نیز، اس اسپتال کی ایک Brest feeding Policy بھی وضع کی گئی ہے، جس پر عملِ پیرا ہوکر بچّوں کی شرحِ اموات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اس پالیسی کے دس نکات یہ ہیں۔

معاشرے میں رائج غیر حقیقی تصوّرات سے واقفیت بھی انتہائی ضروری ہے، تاکہ انھیں دُور کیا جا سکے۔مثلاً بعض گھرانوں میں بچّے کے زیادہ رونے یا کسی اور طبّی مسئلے میں مبتلا ہونے کی وجہ یہ تصوّر کی جاتی ہے کہ ماں کا دودھ مضرِ صحت ہے، جس کے لیےباقاعدہ طور پر کوئی مکوڑا دودھ میں ڈال کر یہ جانچا جاتا ہے کہ اگر وہ مَرگیا، تو مطلب دودھ مضرِ صحت ہے،اس لیے بچّہ ماں کا دودھ نہ پیے۔چوں کہ پہلے بچّہ ماں کا دودھ نہیں پیتا،لہٰذا اس کے بعد پیدا ہونے والے سارے بچّے ماں کے دودھ سے محروم رہتے ہیں۔ حالاں کہ وجہ دودھ پلانے کا صحیح طریقہ معلوم نہ ہونا بھی ہو سکتی ہے۔

بعض مائیں کہتی ہیں،’’دودھ کم ہے، اس لیے بچّہ بھوکا رہتا ہے‘‘،توواضح رہے، ماں کا دودھ کم ہونے کی تاحال کوئی سائنسی وجہ دریافت نہیں ہوسکی ہے۔ صرف نہ پلانے یا درست طریقے سے پلایا نہ جائے، تب دودھ بتدریج ختم ہو جاتا ہے، ورنہ حمل کے دوران ہی دودھ بننے کا سارا نظام قدرتی طور پر مکمل ہو تا ہے۔دینِ اسلام میں ماں کے دودھ کی اتنی اہمیت ہے کہ کوئی دوسری خاتون بھی وقتِ ضرورت بچّے کو اپنا دودھ پلا سکتی ہے، لیکن پھر وہ رضاعت کے مقدّس رشتے میں بندھ کر ماں کا درجہ اختیار کر لیتی ہے اور دونوں خواتین کے بچّوں میں سگے بہن بھائیوں کا تعلق اختیارہوجاتاہے۔

(مضمون نگار، فیڈرل گورنمنٹ پولی کلینک اسپتال اسلام آباد میں بطور پیڈیاٹریشن اور نیونیٹولوجسٹ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ نیز پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) خواتین برانچ کی سینٹرل ایگزیکٹو کاؤنسل کی رکن اور شعبہ سی ایم ای کی انچارج بھی ہیں)