فضائلِ حج و قربانی

July 31, 2020

شاذیہ عبدالقادر

کلمۂ توحید انسان کو دائرہ اسلام میں داخل کرتا ہے۔ایک اللہ کو ماننے اور محمّد ﷺ کو اللہ کا رسول ماننے کا اقرار کرلینے کے بعد بنیادی عقائد کوزندگی میں لاگو کرنا، درحقیقت اس بات کا علی الاعلان اظہار ہے کہ مَیں مسلمان ہوں۔ عبادات میں سے دو عبادات، نماز اور روزہ ہر مسلمان مَرد و عورت پر فرض ہیں۔ خواہ وہ امیر ہو، غریب، بالغ ہو، نوجوان یا پھر بوڑھا۔ اِسی طرح دو عبادات ایسی ہیں، جو صاحبِ نصاب اور صاحبِ استطاعت پر فرض ہیں۔یعنی زکٰوۃ اور حج/قربانی۔

بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی، وہ وہی ہے، جو مکّہ میں واقع ہے،جسے تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنادیا گیا ہے۔ پہلی بار حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی۔ حضرت عبداللہ بن عُمروا بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،’’اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کے پاس تعمیرِ بیت اللہ کا حکم دے کر بھیجا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام اس کی تعمیر سے فارغ ہوئے، تو حکم ہوا کہ’’ اس گھر کا طواف کرو۔‘‘ یہ ارشاد بھی ہوا’’تم پہلے انسان ہو اور یہ پہلا گھر ہے، جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے۔‘‘ سیلابوں کی وجہ سے بابرکت گھر کی عمارت گر گئی، تو اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو دوبارہ انہی بنیادوں پر تعمیر کا حکم دیا۔ سورۃ البقرہ میں ہے،’’اور یاد کرو ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ جب اس گھر کی دیواریں اُٹھا رہے تھے، تو دُعا کرتے جاتے تھے، اے ہمارے ربّ! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تُو سب کی سُننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘دُنیا بَھر سے ہر سال لاکھوں مسلمان اس گھر کا دیوانہ وار طواف کرنے جاتے ہیں۔

ان میں کچھ صاحبِ استطاعت بار بار یہ سعادت حاصل کرتے ہیں،تو بعض ایک بار کرنے ہی کی ہمّت کر پاتے ہیںاور کچھ برسوں قطرہ قطرہ جمع پونجی جوڑ کے اللہ کے گھر کی زیارت کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ حج کے مناسک کو مقامات کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ یعنی ایک مقام سے دوسرے مقام کا فاصلہ، نمازوں کی ترتیب وغیرہ۔ الغرض، حج ایک مشقّت والی عبادت ہے۔ حج کی ادائی کے ساتھ ہی فی سبیل اللہ قربانی کے عمل میں تمام عالم اسلام دُنیا بَھر سے شامل ہوجاتا ہے۔

’’حا ضر ہوں اے اللہ! مَیں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں،تیرے ہی لیے تعریفیں ہیں، نعمتیں اور بادشاہت تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں…حاضر ہوں میرے اللہ! مَیں حاضر ہوں۔‘‘کامسلسل ورد کرتے میقات پر احرام باندھنا،طواف، سعیٔ صفا و مروہ، وقوفِ عرفات، مزدلفہ، منیٰ اور طوافِ زیارت۔ پھر منیٰ، رَمی ،جمرات اورپھر طوافِ وداع۔ گویا حج ایک جامع عبادت، اسوۂ ابراہیمیؑ کی یادگار اور توحید کی علامت ہے۔تلبیہہ، درحقیقت ایک تذکیر، ارادہ، عہد، پیمان اور دعویٰ ہے،جس میں ہم اقرار کرتےہیں،’’اے ہمارے مالک! آپ جب جہاں بلائیں گے، ہم سب کچھ چھوڑ کر آپ کی آواز پر لبیک لبیک کہتے دوڑتے بھاگتے آئیں گے۔

اس دُنیا میں جس کام کے لیے جو طریقہ آپ نے بتایا ہوگا، اُسی پر عمل کریں گے اورہم جب واپس اپنے گھروں اور کاروبارِ زندگی کو لوٹیں گے، تب بھی یہی کریں گے۔ اگر ہم اس سعادت سے محروم رہے، تو بھی نیّت تو رکھتے ہیں، ایک دِن تیرے گھر ضرور آئیں گے، کب، کیسے، کیوں یہ بس تُو ہی جانتا ہے۔جب تک بلاوا آتا ہے، تب تک ہم بیٹھے نہیں رہیں گے۔ ان دِنوں میں وہی سب کچھ بار بار دہراتے رہیں گے۔ عشرہ ذوالحجہ کے بعد بھی ہم دُنیا میں تیرے حکم کو تیرے کلمے کو بُلند کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

احرام پہننا حج کا پہلا زینہ اور آخری سنّتِ ابراہیمیؑ کی ادائی ہے۔ احرام،لباسِ فاخرانہ ،تصنّع و بناوٹ،جاذب و حسین رنگوں سے مبرّاایک سفید دودھیا لباس ہے، جسےپہن کے پاکیزگی کا احساس جاگتاہے۔یہ ایک لباس ہی نہیں، ملّت، رنگ و نسل سے پاک، مساواتِ انسانی کی اعلیٰ مثال بھی ہے،جو زیب و زینت کی فکر سے آزاد کر کے سب کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کر تا ہے۔ آخری زینے ،سنّتِ ابراہیمیؑ کا ذکر کریں، تو ہمارے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس عمل سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے، آخر اس کو تا قیامت اُمّتِ محمّدیہ ﷺ کے لیے عمل کیوں بنادیا گیا، جب اللہ کو ہمارے قربان کیے جانوروں کا نہ خون پہنچتا ہے، نہ گوشت، پھر اس سے تقویٰ کیسے نکلتا ہے۔تقویٰ کا مقام حدیث مبارکہﷺ کے مطابق دِل ہے۔

گو کہ تقویٰ دِل کی اُس کیفیت کا نام ہے، جس کے حاصل ہوجانے کے بعد قلب ہر بُرائی سےپاک وصاف ہوجاتا ہے،لہٰذا سنّتِ ابراہیمیؑ کی ادائی درحقیقت نفس و اَنا کی قربانی، اللہ کی راہ میں اپنی صلاحیتوں ،اپنے وقت کی قربانی، خود پرستی اور خود پسندی کے بچھڑے کی قربانی ہے۔ کسی مطالبے اور تقاضے کے بغیر اللہ کی راہ میں دیوانہ وار سعی، عیش و عشرت کی زندگی کی اللہ کے دین کو پھیلانے کے لیے قربانی۔ خود کو طواف، سعی، مزدلفہ، منیٰ،عرفات کے میدانوں میں بھاگنے کی طرح اللہ کے دین کو سَربُلند کرنے کی کوشش کرنا اور بحیثیت خاتون حضرت ہاجرہ ؑکے اسوہ کی پیروی کرنا ہے۔

امسال کورونا وائرس کے سبب اس مرکز ِوحدانیت پر حاضریاں محدود ہوگئی ہیں، صرف مختلف مُمالک کے سعودی مقیم شہریوں کو اجازت ہے۔آج وہاں کے مناظر دیکھ کر وہ سبھی تڑپ رہے ہوں گے، جنہوں نےحج فارم جمع کروائے تھے کہ اس سال حج پر جانا ہے۔ اُمیدیں بَر نہیں آئیں اور بلاوے آتے آتے رُک گئے ۔اب اس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ ایّامِ حج و قربانی کے شعائر کو سمجھ کر انہیں اپنی زندگی کا حصّہ بنالیا جائے۔ ہمارا ربّ ہم سے ناراض نہیں ہوسکتا، لیکن ہمیں اس کی رحمتوں کی بارش طلب کرنا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام مناسکِ حج کے عملی تصوّر کو اپنی زندگی کا مستقل حصّہ بنالیا جائے۔ اصل میں اللہ کو ان مناسک سے ایک عمل کروانا مقصود ہے یا یہ سکھانا مطلوب ہے کہ ان اعمال کو اپنی زندگیوں پر نافذ کرلیا جائے۔

قربانی کا عمل بھی اس سال خاصا مشکل ہوگا اور مشکل میں کی جانے والی عبادت یقیناً زیادہ اجر کا باعث ہوتی ہے۔ قربانی کی ادائی کرسکیں، نہ کرسکیں۔ اس کا مقصد تو ہم سب حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اللہ کو اطاعت اور تقویٰ مطلوب ہے اور اس کا مقام دِل ہے۔ دِل کی لگن بیدار کریں کہ اب بھی نہ کی، تو کب کرسکیں گے۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دُنیا تیزی سے اپنے انجام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ہمارے پاس بہت وقت نہیں رہ گیا،لہٰذا اپنے ربّ کے آگے جُھک جائیے۔ اپنی زندگیوں کو بدل لیجیے۔ یوں جانیے کہ یہ ایّام ِحج و قربانی اس سال حقیقی معنوں میں ہماری زندگیاں بدلنے کے لیے آئے ہیں۔ اگر ہم نے ان کے مقاصد حاصل کرلیے، تو کوئی بعید نہیں کہ ربّ ِ رحمان اگلے سال ہمیں اپنے گھر بلالے۔ وہ اس پر قادر ہے، بس شرط وفاداری ہے۔