تسلیم و رضا کی بے مثال داستاں

July 31, 2020

رانا اعجاز حسین چوہان

یوں توحضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ساری زندگی عظیم الشّان قربانیوں سے آراستہ ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے لاڈلے فرزند، حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے گلے پر اپنے ہی ہاتھوں سے تیزدھار چُھری چلانا اِطاعت و فرماں برداری کی ایک ایسی مثال ہے کہ جس کی کہیں نظیر نہیں ملتی۔ آپ ؑ نے ہر موقعے پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مقدّم رکھا، یہاں تک قرآنِ کریم میں بھی اللہ ربّ العزّت نے اُن کی تقلید کا حکم فرمایا ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’کہو ، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے، سچ فرمایا ہے ۔

تمھیں یک سُو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے کی پیروی کرنی چاہیے۔ اور ابراہیمؑ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔‘‘(سورۂ آلِ عمران، آیت95)۔وہ کیا ہی عجیب منظر تھا، جب باپ نے اپنے نو عُمر فرزند سے پوچھا ’’اے میرے بیٹے! مَیں نے خواب دیکھا ہےکہ مَیں تجھے ذبح کر رہاہوں، بتا تیری مرضی کیا ہے؟‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے بیٹے سے رائے اِس لیے نہیں مانگی تھی کہ وہ ہاں کریں گے، تو ٹھیک ،ورنہ اُنھیں قربان نہیں کریں گے، بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے یہ بات اِس لیے کی کہ معلوم ہوجائے، اللہ کے حکم کے حکم سے متعلق بیٹے کا تصوّر کیا ہے؟ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی فرماں برداری بھی دیکھیے، وہ بھی آخر خلیل اللہ کے فرزند تھے۔ اگر باپ خلیل اللہ کے مرتبے پر فائز تھے، تو بیٹے کے سَر پر بھی ذبیح اللہ کا تاج سجنے والا تھا۔

آپ علیہ السّلام ہی کی پشت سے آقائے دوجہاں ، حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے اللہ کے حکم کے سامنے سَر جُھکا دیا۔قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اُس (بیٹے) نے کہااے ابّا جان!آپ وہی کیجیے، جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ اِن شاء اللہ! آپ مجھے عَن قریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ ( سورۃ الصفّٰت، آیت 102 )‘‘ علّامہ محمّد اقبال نے کیا خُوب فرمایا ہے ؎ ’’یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی…سِکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی۔‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بیٹے کو پیشانی کے بَل لِٹایا اور چُھری چلانی شروع کی، تو فرشتے بھی اطاعتِ خداوندی اور تسلیم و رضا کا یہ عالی شان منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ قریب تھا کہ چُھری گردن پر چل جاتی کہ اللہ کریم کی طرف سے ندا آئی’’ اے ابراہیمؑ ! تم نے خواب سچ کر دِکھایا، یہ ایک بڑی آزمائش تھی، جس میں تم کام یاب ہوئے‘‘، اور پھر اللہ تعالیٰ نے جنّت سے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے بدلے قربانی کے لیے ایک مینڈھا بھیج دیا۔ یہی وہ واقعہ ہے، جس کی یاد میں مسلمان ہر سال قربانی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانی کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ یہ تمہارے والد، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سنّت ہے۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے پھر عرض کیا’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس میں ہمارا کیا فائدہ ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’(تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے ) ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔‘‘ اُنہوں نے پھر عرض کیا’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اون کا کیا حکم ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ملے گی‘‘(مشکوۃ شریف)۔

حضرت عبد اللہ بن عُمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کی‘‘(مشکوٰۃ شریف)۔ حضرت اِبن عبّاس رضی اللہ عنہ سے رِوایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا’’ چاندی(یا کوئی بھی مال) کسی ایسی چیز میں خرچ نہیں کیا گیا، جو اللہ کے نزدِیک اُس اُونٹ سے پسندیدہ ہو، جو عید کے دِن ذبح کیا گیا۔“حضرت حسینؓ بن علی رضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا’’ جو شخص خوش دِلی کے ساتھ اجر وثواب کی اُمید رَکھتے ہوئے قربانی کرے گا، تو وہ اُس کے لیے جہنّم کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی۔“حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بذاتِ خود عید الاضحٰی کی نماز سے فراغت کے بعد قربانی فرماتے تھے۔

آپﷺ نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور اُمّتِ مسلمہ کے ان افراد کی طرف سے بھی قربانی کرتے، جو اس کی سکت نہیں رکھتے تھے۔(کتبِ احادیث) روایات کے مطابق، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعے پر اِنہیں قربانی کے ایّام میں 100 اونٹوں کی قربانی دی، اُن میں سے 63 اونٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود نحر (ذبح) کیے اور باقی 37 اونٹ حضرت علیؓ نے نحر (ذبح) کیے۔