عید الاضحیٰ کا حقیقی فلسفہ

July 31, 2020

خلیل الرحمٰن ربّانی

اِس بار فرزندانِ اسلام اِس حال میں عید منا رہے ہیں کہ دنیا بھر پر کورونا کے ہول ناک بادل چھائے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ روایتی گہما گہمی اور جوش و جذبہ نظر نہیں آ رہا، جو عید الاضحٰی کی پہچان ہے۔ عیدالاضحٰی بھی عید الفطر کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خوشیوں اور مسرّتوں بَھرا انعام ہے۔ اِس موقعے پر صاحبِ استطاعت مسلمان، اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے لیے جانور قربان کرتے ہیں۔دراصل یہ سُنّتِ ابراہیمیؑ ہے اور مسلمان اسے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے عظیم جذبۂ قربانی کی یاد میں مناتے ہیں۔

یہ دن ہمیں درس دیتا ہے کہ ہم بھی اللہ کے ان برگزیدہ بندوں کی طرح اُس کے ہر حکم کے سامنے سرِتسلیمِ خم کرتے ہوئے کسی طرح کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ حدیث کی مشہور کتاب’’ سنن ابنِ ماجہ‘‘ میں روایت ہے کہ صحابہ کرامؓ نے نبی کریمﷺ سے دریافت فرمایا’’ قربانی کیا ہے؟‘‘ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا’’یہ تمہارے والد، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سُنّت ہے۔‘‘صحابہ کرامؓ نے پھر پوچھا’’ ہمارے لیے اِس میں کیا ہے؟‘‘ تو آپﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا’’ ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔‘‘

٭… قربانی کی اہمیت وفضیلت

قربانی کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺ دس سال مدینہ منوّرہ میں رہے اور آپﷺ نے ہر سال قربانی فرمائی اور مسلمانوں کو بھی اِس فریضے کی ادائی کی سختی سے ہدایت فرمائی۔ اِس فریضے سے استطاعت کے باوجود منہ پھیرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی کا فریضہ ادا نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت فاطمہؓ سے ارشاد فرمایا’’ فاطمہؓ! اُٹھو اور (ذبح کے وقت) اپنی قربانی کے پاس موجود رہو، اِس لیے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ یہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستّر گنا(زیادہ) کرکے رکھا جائے گا۔‘‘حضرت ابوسعیدؓ نے عرض کیا’’ اے اللہ کے رسولؐ! یہ فضلیت خاندانِ نبوّت کے ساتھ خاص ہے یا تمام مسلمانوں کے لیے ہے؟‘‘ اِس پرآپؐ فرمایا’’ یہ فضیلت تمام مسلمانوں کے لیے بھی ہے۔‘‘

٭… فلسفۂ قربانی

ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اللہ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون، اُس کی بارگاہ میں تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔ اِسی طرح حدیثِ مبارکہؐ میں آتا ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے دن بندوں کے تمام اعمال میں پسندیدہ ترین عمل جانور کا خون بہانا ہے‘‘۔ (ترمذی)۔بقر عید کے موقعے پر بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال بھی سامنے آتا رہا ہے کہ ’’جانور ذبح کرنے سے بہتر ہے کہ اُس پر خرچ ہونے والی رقم غرباء میں تقسیم کردی جائے۔‘‘ نادار، مساکین اور غرباء کی مدد کا جذبہ بلاشبہ ایک قابلِ تحسین عمل ہے، لیکن اِس ضمن میں یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ جانوروں کی قربانی کی اصل روح بھی دراصل غرباء کی مدد کا ایک طریقہ ہے۔

اگر ہم بقر عید پر ہونے والی معاشی سرگرمیوں کا گہرائی سے جائزہ لیں، تو علم ہوگا کہ اِس تہوار سے کس طرح اور کون کون مستفید ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ اسلام تو سال کے 365 روز ہی غرباء کی مدد کی تلقین کرتا ہے اور عید کے موقعے پر بھی اِس بات کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، جیسے عیدالفطر پر صدقۂ فطر کے ذریعے مساکین کی براہِ راست مدد کی جاتی ہے۔ درحقیقت، ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ہم قربانی کی اصل رُوح کو پہچانیں اور اسلامی ہدایات کے مطابق گوشت تقسیم کریں، تو غرباء اِس تہوار سے پورے طور پر مستفید ہو سکیں گے۔نیز، بطورِ مسلمان ہمیں ہر معاملے میں بلاوجہ عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے احکامات ہی کو ترجیح دینی چاہیے۔

٭… قربانی کے سماجی ومعاشی فوائد

قربانی کا اصل مقصد اللہ ربّ العزّت کی رضا کا حصول ہے اور اس میں دنیاوی منفعت کی نیّت درست نہیں، مگر اِس کے باوجود اِس کے بے شمار معاشی وسماجی فوائد ہیں۔ پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ برس عید الاضحٰی کے موقعے پر مُلک بھر میں جانوروں کی خرید وفروخت کا کاروبار ڈیڑھ کھرب روپے رہا۔ اِس سے دیگر کئی اور کاروبار بھی فروغ پاتے ہیں۔ چارے ،بھوسے کا کاروبار، قربانی کے اوزار، جانوروں کی دیکھ بھال اور انتظامات، مویشیوں کے لیے ٹرانسپورٹ، منڈیوں میں مزدوروں کے لیے کام کے مواقع، قصّابوں اور کھالوں سے متعلق شعبوں سمیت کتنے ہی کاروباروں کو زندگی ملتی ہے ، جن کے نتیجے میں ہزاروں افراد کو روزگار میسّر آتا ہے۔

گویا کچھ دنوں کے لیے ایک’’ کیٹل انڈسٹری‘‘ وجود میں آ جاتی ہے، جس سے لاکھوں افراد بالواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 73 لاکھ قربانی کی کھالیں جمع ہوتی ہیں، جس سے لیدر انڈسٹری کو خام مال ملتا ہے اور یوں اس شعبے میں بھی روزگار کے مواقع جنم لیتے ہیں۔ اِتنے بڑے پیمانے پر اجتماعی وانفرادی گوشت کی تقسیم، نہ صرف قربانی کی سماجی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، بلکہ معاشرے کے پسے طبقات کے ساتھ برادرانہ سلوک کا بھی مظہر ہے۔

٭ عید میں غریبوں کو بھی شریک کریں

اسلام نے ایک ایسا معاشی تصوّر پیش کیا ہے، جو حقیقی سماجی ترقّی کا ضامن ہے۔ نبی کریمﷺ نے عیدالاضحٰی کے مبارک موقعے پر بھی اُمّت کے مستحق افراد کا خصوصی خیال رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔ علماء وفقہا کے مطابق مستحب اور بہتر عمل یہی ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصّے کرلیے جائیں۔ ایک حصّہ اپنے استعمال میں لایا جائے۔ دوسرا حصّہ رشتے داروں کے لیے رکھ لیں اور تیسرا حصّہ ضرورت مندوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ ہمارے آس پاس ایسے لوگ بھی ہیں، جنھیں سال میں کم ہی گوشت مل پاتا ہے اور اگر وہ گوشت خریدتے بھی ہیں، تو وہ بہت کم مقدار میں ہوتا ہے، کیوں کہ بڑھتی ہوئی منہگائی نے تو غریب کو آٹے تک سے دُور کردیا ہے، ایسے میں وہ کلو، دو کلو گوشت کی’’ عیّاشی‘‘ کیسے افورڈ کر سکتے ہیں؟

یہی سبب ہے کہ وہ سال بھر عید کا انتظار کرتے ہیں کہ اس موقعے پر اپنے بچّوں کو پیٹ بھر گوشت کِھلا سکیں گے۔پھر یہ کہ سفید پوش افراد کی بھی ایک بڑی تعداد عید کے موقعے پر دروازے پر دستک کی منتظر رہتی ہے کہ وہ خود گوشت کے لیے دوسروں کے در پر دستک دیتے ہوئے شرماتے ہیں۔ لہٰذا ،اِس موقعے پر اُن سفید پوشوں کو کسی طرح نہیں بھولنا چاہیے، جو گلی محلّوں میں گوشت مانگتے نہیں پِھرتے۔ ہماری ذمّے داری ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو تلاش کرکے اُن تک قربانی کا گوشت پہنچائیں اور اُنہیں بھی عید کی خوشیوں میں شریک کریں۔

٭… عالمی وبا، عیدِ قرباں اور کچھ اہم پہلو!

اِس مرتبہ عیدِ قرباں کچھ یوں مختلف ہے کہ ہر طرف کورونا وائرس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ چناں چہ، اِس بار ہمیں بہت سی احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرنی ہیں۔ اپنی گلی محلّے میں ذاتی دل چسپی لیتے ہوئے صفائی ستھرائی کے معاملات بہتر بنانے ہوں گے، کیوں کہ ہر سال یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ گلی محلّوں میں کئی کئی دنوں تک جانوروں کی آلائشیں پڑی رہتی ہیں، جس سے نہ صرف فضائی آلودگی جنم لیتی ہے، بلکہ تعفّن کے سبب بیماریاں بھی پھیلتی ہیں۔

اب جب کہ کورونا پہلے ہی ہم پر حملہ آور ہے، تو ہماری ذمّے داری ہے کہ صفائی ستھرائی کا خصوصی خیال رکھیں۔نیز، جانوروں کی قربانی، باہمی میل میلاپ اور کھانے پینے سے متعلق طبّی ماہرین نے جو ہدایات جاری کی ہیں، اُن کی پابندی کرنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔