سلامُ علیٰ ابراہیم

August 01, 2020

عمران احمد سلفی

’’عیدالاضحی ‘‘کے موقع پر قربانی اور سنتِ ابراہیمی کی پیروی درحقیقت اس عزم ، اس عہد کی تجدید اور اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہمارامرنا ،جینا اوربندگی کے جملہ تقاضے اللہ کی رضا اور اس کی بندگی کے لیے ہیں۔جس کا کوئی شریک نہیں ،اس کے احکام کی بجاآوری اور اتباع ہی درحقیقت بندگی کی بنیاد ہے۔

دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ ’’عید قرباں‘‘ کیا ہے؟ ایثار و قربانی کی ایک لازوال داستان جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ اور ان کے عظیم فرزند اسماعیلؑ کی رضائے الٰہی کی خاطر خلوص دل سے دی گئی قربانی، فدائیت، خود سپردگی اور تسلیم و رضا کی ایک لازوال داستان ہے۔ اگرچہ وہاں معجزہ ظہور پذیر ہوا اور ان کی جگہ ایک دنبہ ذبح کردیا گیا، مگر یہ یادگار واقعہ قوموں کی زندگی و حیات مستعار میں ایک سنگ میل کے طور پر یاد رکھنا اور قائم رکھنا از بس ضروری ہے۔عید الاضحی کے دن ملّتِ اسلامیہ پوری دنیا میں ابوالانبیاء سیّدنا ابراہیم ؑ کی سنّت کو زندہ کرتی ہے۔

یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ابراہیم خلیل اللہ ؑ کی یہ قربانی صرف ایک ہی مثال ہے ، دوسری کوئی تصویر اس کا ہلکا سا تاثر بھی پیش نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی یہ بھی ایک سنت ہے کہ جب وہ کسی بندۂ مومن کو اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے، تو ساتھ ہی اس کی آزمائش بھی کرتا ہے۔ جس کا مقام جتنا زیادہ ہوتا ہے،اس کے لیے آزمائش بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے، حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی تو عبارت ہی آزمائش سے تھی،قرآن میں ذکر ہوا اور ابراہیم ؑ کو ان کے رب نے کئی بار آزمایا پس جب وہ ان میں پورا اترے تو فرمایا میں تجھے انسانوں کا امام بنائوں گا۔

اللہ تعالیٰ نے سیّدنا ابراہیم ؑ کو لاڈلے بیٹے اسماعیل ؑ کی صورت میں جو انعام عظیم دیا تھا، اب اس کا امتحان بھی لیا۔ ان کے ساتھ اللہ کی خاص سنت رہی تھی کہ جو بھی انعام دیا جاتا،اس کے ساتھ ہی آزمائش بھی کی جاتی، چناںچہ آزمائش ہوئی اور ایسی سخت آزمائش کہ دنیا میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔ایک ایسے باپ کے دل سے ذرا سوچیے کہ جس کا بڑھاپے میں ایک ہی بیٹا ہو اور وہ صالح ، نیک، فرماںبردار اور سعادت مند ہو، جوانی کی سرحدوں میں داخل ہو رہا ہو اور جس سے امید کی جا رہی ہو کہ وہ آئندہ نہ صرف خاندان کا بوجھ اٹھائے گا،بلکہ اس عظیم دعوت کو پھیلائے گا، جس کے لیے والد نے ساری عمر قربان کر دی تھی،وہ اس بیٹے کو خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنے کو تیار ہو جائے گا اور وہ بھی محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر ،کسی غصے یا ناراضی سے نہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے سیّدنا ابراہیمؑ کے دل پر کیا گزری ہوگی۔

تصور میں جب خاک و خون میں تڑپتی ہوئی لاش کا منظر سامنے پھر گیا ہوگا اور اس عظیم باپ کے عظیم فرزند جسے اللہ نے خود حلیم کا لقب دیا تھا، انہوں نے اپنے حلم اور سلامت روی کا بھر پور ثبوت دیا۔ وہ نہ ڈرتا ہے، نہ ہچکچاتا ہے، نہ جان بچانے کی فکر کرتا ہے،نہ باپ پر الزام تراشی کرتا ہے، بلکہ پوری طمانیت قلب کے ساتھ جواب دیتا ہے کہ ابا جان ،آپ کو جو کچھ حکم دیا گیا ہے، اسے کر ڈالیے۔ جو اللہ کا حکم ہے اسے پورے صبرو شکر کے ساتھ قبول کروں گا۔ وہ بھی ایک عجیب بیٹا تھا۔ایک عظیم نبی کی دعائوں کا مجسم ظہور تھا اور دعوت ابراہیم ؑ کا وارث بننے والا تھا۔ ابراہیم ؑ نے سوچا کہ حکم ربانی کی تعمیل میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے،مباداشیطان قدم ڈگمگا دے اور اطاعتِ الٰہی کے راستے سے ہٹا دے۔ اللہ تعالیٰ کو تو بس حضرت ابراہیم ؑ کے جذبہ تسلیم و رضا کا امتحان مقصود تھا۔

وہ تو دنیا کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ میں جسے اپنا خلیل بنا رہا ہوں، وہ کس جذبے سے سرشار ہے ۔وہ تو بتانا چاہتا تھا کہ ابراہیمؑ کے ذمے جو کام تھا،وہ ادا کر چکے ،اب اسے قبول کرنا اور اس کا اجر عطا کرنا اللہ کے ذمے ہے۔ چناںچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے صابر و شا کر بندوں کی قربانی قبول کی اور ایسا اجر عطا کیا جو قیامت تک جاری رہے گا، اس قربانی کو قیامت تک کے لیے یادگار بنا دیا اور باپ بیٹے کو درجات عالیہ سے نوازا، ابراہیم خلیل اللہؑ کو لوگوں کا امام بنایا ، بیٹے کی جان بچائی اور ذبیح اللہؑ کا خطاب عطا کیا ، ایک بہت بڑا انعام یہ دیا کہ اسماعیل ؑ کی ذریت میں رحمت عالم،حضرت محمد ﷺ کو اپنا آخری رسول بنا کر بھیجا اور انہیں رحمۃ لّلعالمین کے مقام عظمت پر سرفراز فرمایا۔