’عیدالاضحی ‘ صبر و وفا، اطاعتِ ربانی کی عظیم داستان

August 01, 2020

ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری

قربانی کا فریضہ عید الا ضحی کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم ترین اطاعت خداوندی کی مثال کی یاد گار کے طور پر اد اکیا جاتا ہے جس کے تحت خلیل اللہ(اللہ کے دوست) کا لقب پانے والے اس حق وصداقت کے علمبر دار پیغمبرؑ نے اپنی ہزاروں دعائوں اور تمنائوںکے بعد پیداہونے والے پیارے بیٹے کو حکم خدا وندی سے اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔

قربانی کا مطلب ہے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنا، جب کہ شرعی اصطلاح میں اس کا مطلب عبادت کی نیت سے ایک خاص وقت میں حلال جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کرنایا ذبح کرنا ہے۔یہ خاص وقت 10ذی الحج کی صبح یعنی اشراق سے شروع ہوتا ہے اور 12ذی الحجہ کی عصر تک رہتا ہے۔نماز عید سے قبل قربانی نہیں ہوتی۔اس کے لیے تاریخ 10ذی الحج ہی ہے۔عازمین حج مکہ مکرمہ میں یہ قربانی نہیں کرتے ،کیونکہ ان پر عید الاضحی کی نماز نہیں ہے، وہ حج کے دیگر مناسک میںمصروف ہوتے ہیں ،وہ بال کٹوانے کے بعد جو قربانی کرتے ہیں،دوحج کا’’دم شکر‘‘کہلاتا ہے۔یہ قربانی ’’حج تمتع ‘‘کے لوگ ادا کرتے ہیں۔

دین اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی قربانی کا تصور ملتا ہے جسے عبادت کادرجہ حاصل ہے۔یہود کی کتاب میںکثرت سے قربانی کا ذکر ملتا ہے اور اس کے اتنے تفصیلی احکام لکھے گئے ہیں کہ کسی اور عبادت کے اتنے احکام نہیں ملتے ۔ان کی قربانیوں میں سوختی قربانی ،گناہ کی قربانی، سلامتی کی قربانی اور اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنے کے لئے قربانی ہے۔اور عید فصح کے سات دن کی قربانی کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے۔عیسائیوں کے مذہب کی تو بنیاد ہی قربانی پر ہے،ان کے نزدیک قربانی ہی اصل ذریعہ نجات ہے۔

طلوع اسلام سے قبل مصری قوم بہتے ہوئے دریائے نیل میں ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی کو بنائو سنگھار کر کے نذردریا کردیتے ۔ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر ہم یہ قربانی نہیںکریںگے تودریائے نیل اپنا بہائو کھودے گاجس کی وجہ سے مصر میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوجائے گی اور قحط سالی ہوجائے گی، جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی بعثت کے وقت ہوئی تھی۔ چناںچہ حضرت عمر فاروق ؓمسلمانوں کے خلیفہ دوم مقرر ہوئے تو انہوں نے اس جانب اپنی توجہ مبذول کرتے ہوئے ایک رقعہ لکھ کر دیاکہ اسے دریا میں ڈال دیا جائے اور آئندہ کے لئے فرمان جاری کیا کہ اب کسی بے گناہ بیٹی کی جان اس طرح نہ لی جائے۔ اس طرح رسم بد کا خاتمہ ہوا اور دریائے نیل آج بھی بغیر کسی قربانی کے اسی طرح بہہ رہا ہے۔

اسی طرح جنوبی ایشیا میں ہندوستان ایسا ملک ہے جہاںکی اکثریت ہندو مذہب کی پیر وکار ہے، ان کی معتبر کتابوں میں قربانی کا ذکر ملتا ہے، وہ اپنے دیوتائوںکی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی قربانی (بھینٹ)کرتے تھے۔

قربانی کا تصور بڑا قدیم ہے جو حضر ت آدم علیہ سلام کے وقت سے چلاآرہا ہے۔ان کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا اقلیمہ نامی لڑکی سے شادی پر تنازعہ پھر حضرت آدمؑ کا مشورہ دینا کہ اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرو۔اس وقت جانور کے علاوہ زرعی اور پیداواری ما ل بھی قربانی کے لئے پیش کیا جاتاتھاجو کسی پہاڑی کی چوٹی پر رکھ دیاجاتا تھا۔ایک قدرتی آگ آتی اور وہ مال جلا کر بھسم کرجاتی تھی جس سے ظاہر ہوتاتھا کہ قربانی قبول ہوگئی، البتہ نہ جلنے والا مال قربانی کے لئے نامنظور کہلاتا تھا۔اس طرح ہابیل کا پیش کردہ جانور بھسم ہوگیا اور قابیل کا مال بچ گیا یعنی نہ جلا۔

عید الا ضحی کی قربانی اصل میں اس واقعے عظیم کی یاد کو تازہ کرتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوا یعنی خواب میں فرزند عزیز حضرت اسماعیل ؑکو ذبح کرتے دیکھا تو سچ مچ انہیں قربان کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ہماری مختلف مذہبی کتاب میںحضرت ابراہیم ؑکے اس خواب کا آیاہے جو کہ قربانی سے متعلق ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ خواب مسلسل تین رات تک دیکھاتھا۔پہلی رات یعنی آٹھ ذی الحج جسے عشرعی اصطلاح میں’’یوم الترویہ‘‘کہا جاتا ہے۔ لغت میں ترویہ کے معنی’’سیراب کرنا‘‘پانی فراہم کرنا‘معنی اور عرفات میں چونکہ پانی نہیں ہے، اس لئے ایام حج میں یعنی اسی تاریخ کو یہاں بذریعہ ٹینکر پانی سپلائی کیا جاتا ہے جس کی شہادت عازمین حج بھی دیتے ہیں ۔صحیح بخاری میں ’’ترویہ کے معنی و مفہوم میں’’پانی پلانا‘‘ لکھے ہیں ،لوگ اس دن اپنے اونٹوں کو پانی پلاتے تھے ۔بعض اہل زبان نے ’’ترویہ‘‘کو روایت سے لیا ہے، اس لئے ’’دیکھنے کے ‘‘معنی میں لیا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی چونکہ خواب دیکھا تھا تو دیکھنے کے معنوں میں ترویہ لیا۔اس کی تو جیہ یہ بھی لکھی ہے کہ اس دن عازمین حج نماز ظہر کے بعد احرام باندھ کر منیٰ کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور زادِراہ کی خاطر پانی بھی ساتھ رکھتے ہیں ۔ایک اور جگہ اس کے معنی ’’سوچ کا دن‘‘ لکھتے ہیں،کیوں کہ رات کے خواب کے بعد دن میں اس کی تعبیر کے بارے میں سوچا تھا،اس لئے اس دن کا نام’’یوم الترویہ‘‘پڑگیا۔ اس دن کا تعلق چونکہ ایام حج سے بھی ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا جس میں حکم دیا جارہا ہے کہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو۔ صبح اٹھ کر آپ ؑ نے سوچا کہ کیا چیز قربان کی جائے کہ جس سے منشائے ایزدی پوری ہوجائے۔ آپ نے اونٹ قربان کردیا۔دوسری رات پھر وہی خواب آیا۔ چنانچہ آپؑ نے پھر ایسا ہی کیا۔واضح ہو کہ حجاز کی سرزمین پر سرخ اونٹ شروع ہی سے بڑا قیمتی رہاہے جسے صرف چند مخصوص افراد استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ عام آدمی کی قیمت خرید سے باہر ہوتا ہے۔ دوسرے دن آپؑ نے جو قربانی پیش کی وہ’’یوم عرفہ‘‘ تھا جس کے معنی’’پہچاننے‘‘ کے ہیں۔

علمائے کرام لکھتے ہیں کہ جنت سے نکلنے کے بعد خطہ زمین پر حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حواؑ ایک دوسرے سے بچھڑ چکے تھے اور پھر عرفات کے میدان میں ان کا ملاپ ہوا تھا جہاں دونوں نے ایک دوسرے کویوم عرفہ میں پہچان لیا تھا۔اس لئے اسے ’’عرفہ کا دن‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس کی دوسری تو جیہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس دن حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت ابراہیم ؑکو مناسک حج سکھائے تھے ،ان مناسک کو دیکھنے کے لئے آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی اور ہمیں اپنی عبادتیں(مناسک)سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما۔‘‘(سورۃ البقرہ آیت :128)

عرفہ ذی الحج کا دن ہوتا ہے، اسی دن تمام عازمین حج عرفات کے میدان میں آتے ہیں جو حج کا رکن اعظم ہے ‘یہاں کی حاضری خواہ چند ساعتوں کے لئے ہی سہی‘ ضروری ہے ورنہ حج نہیں ہوتا۔اس دن عازمین حج اپنے آپ کو رب کائنات کے حضور پیش کر کے اپنے گناہوں کا اعتراف بر ملا کرتے ہیں ۔حضرت ابراہیمؑ نے چونکہ عرفہ والی رات کو بھی یہ خواب دیکھا تھا، اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپؑ نے اپنے پہلے دن والے خواب کو پہچان لیا تھا کہ یہ وہی خواب ہے جو کل دیکھا تھا۔اسی دن فجر کی نماز سے تیرہویں کی عصر تک تکبیر تشریق ہر فرض نماز کے بعد خواتین وحضرات پر چاہیے وہ مقیم ہو یا مسافر ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔

تیسری رات کو آپؑ کو پھر وہی خواب دیکھائی دیااور یاد دہانی کروائی گئی کہ اے ابراہیمؑ اپنی عزیز ترین شے کو قربان کرو۔آپؑ نے اس موقع پر اپنے گردو پیش کاجائزہ لیا تو آپؑ کو حضرت اسماعیلؑ نظر آئے تو آپؑ نے بیٹے سے تینوں راتوں کے خواب کا ذکر کیاجس کے بارے میں قرآن حکیم میںبھی ذکر ہوا ہے۔پھر جب وہ بچہ اتنی عمر کو پہنچاکہ اس کے ساتھ چلے پھرے تو اس نے کہا۔میرے پیارے بیٹے!میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے قربان کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟بیٹے نے جواب دیا ‘والد محترم:جو حکم ہوا ہے اسے بجالائیے ،انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اوراس نے اسے (باپ نے بیٹے )کروٹ کے بل گرادیا۔تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیمؑ’’یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کردیکھایا۔بے شک، ہم نیکی کرنے والے کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔در حقیقت یہ کھلا امتحان تھا‘‘۔(سورۃ الصافات)

مفسرین کرام ان آیات کی تشریح بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت اسمعیلؑ کی عمر 13برس تھی۔پیغمبر وں کے خواب بھی وحی الہٰی کا درجہ رکھتے ہیں۔اس لئے بیٹے کے قربانی کے حکم کو وحی الہٰی جانتے ہوئے تسلیم کرلیا اور بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امر الہٰی کے لئے کس حد تک تیار ہے؟اسی بیٹے کو اللہ تعالیٰ مستقبل میں پیغمبروں کے لئے چن چکا تھا،اسی لئے وہ حکم الہٰی کے کیسے خلاف جاسکتے تھے ؟پھر اس سے اگلی آیت میں ارشاد فرمایا:’’اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیے میں دے دیا اورہم نے اس کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا ‘ابرہیمؑ پر سلام ہو ہم نیک کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔بے شک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھے ۔(القرآن)

یہ بڑا ذبیحہ ایک دنبہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے جنت سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے بھیجا‘پھر حضرت اسمعیلؑ کی جگہ اسے ذبح کیاگیا اور پھر اسی سنتِ ابراہیمی کو قیامت تک قرب الہٰی کے حصول کا ایک ذریعہ اور عید الاضحی کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دیا گیا۔قربانی کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ،لیکن امت مسلمہ ہر سال جو قربانی کرتی ہے‘یہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ کی یادگار ہے۔

حضرت زید بن ارقم ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پرصحابۂ کرامؓ نے عرض کیا’’یارسول اللہ ﷺ یہ قربانیاں کیا ہیں؟رسول اکرم ﷺ نے فرمایا‘‘یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے ‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا‘اس میں ہمارے لئے کیا اجر ہے؟حضورﷺ نے فرمایا، قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے۔

ایام قربانی میں قربانی ایک ایسی نیکی ہے جس کا کوئی اور بدل نہیں ہے ۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا’’قربانی (10تا12ذی الحجہ)میں انسان کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میںقربانی کا جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قیامت کے روز قربانی کا یہ جانور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے سینگوں‘بالوں اور کھروں سمیت حاضر ہو گا اور بلاشبہ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعا لیٰ کی بارگا ہ میں مرتبہ قبولیت پالیتا ہے۔تو(اے مومنو)خوش دلی سے قربانی کیاکرو۔‘‘(الحدیث)