پاکستانی فلمیں اور ہمارے سیاست دان

August 04, 2020

جس طرح فلم اور ادب کا تعلق پُرانا اور گہرا ہے، بالکل اسی طرح سیاست اور فلم کا ربط بھی ان معنوں میں دیرینہ ہے کہ ہر عہد میں سیاست سے وابستہ نامور شخصیات نے شعبہ فلم کی ترویج میں اداکاری، پروڈکشن، اسکرپٹ رائٹنگ، ڈائریکشن اور سنیما انڈسٹری کے شعبوں میں اپنا حصہ ڈالا۔ یہ اور بات ہے کہ شعبہ فلم سے انہیں وہ مقبولیت اور شہرت نہ ملی جو سیاست کے ایوانوں سے میسر آئی۔

صحافت، پبلشنگ اور سیاست کے تناظر میں سندھ کی نامور شخصیت قاضی عبدالمجید عابد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ سیاست اور صحافت میں ان کی خدمات قابل قدر رہی ہیں۔ وہ ایک زمانے میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بھی رہے۔ سنیما انڈسٹری اور فلمی صنعت سے ان کے تعلق اور ان شعبوں میں ان کی خدمات کا ذکر سب سے پہلے اس لیے کہ حیدرآباد میں سنیما انڈسٹری کے فروغ میں ان کی کاوشیں ناقابل فراموش رہیں۔ انہوں نے یہاں یکے بعد دیگرے تین سنیما ہائوسز قائم کیے، جو 60ء ستر اور اسی کی دہائیوں میں نئی فلموں کی نمائش کے ضمن میں ڈسٹری بیوٹرز اور تھرڈ پارٹیوں کے لیے بزنس پوائنٹ آف ویو سے بہت زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔ یہ سنیما تھے، فردوس، راحت اور شالیمار… ان میں فردوس اور راحت اے کلاس تھے اور وہ اردو سوشل فلموں کے لیے موزوں تھے، جب کہ شالیمار سنیما پر ایکشن، کاسٹیوم پنجابی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جاتی تھیں۔

سنیما انڈسٹری کے علاوہ فلمی صنعت کے لیے بھی قاضی صاحب نے ایک خُوب صورت اور معیاری سوشل فلم ’’حمیدہ‘‘ پروڈیوس کی، جو اس وقت کی اسٹار کاسٹ صبیحہ خانم، سنتوش کمار، نذیر اور علائو الدین پر مشتمل تھی اور اسی فلم سے اداکار اعجاز درانی نے ڈیبیو کیا تھا۔ ’’حمیدہ‘‘ نے باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے ہم یہ بھی شامل کردیں کہ فلم ’’حمیدہ‘‘ کا پروڈکشن بینر راحت فلمزتھا۔ اسی نام سے موسوم حیدرآباد میں ان کے تین سنیما ہائوسز میں سے ایک سنیما بھی تھا۔ حمیدہ کی نمائش 10فروری 1956ء کو ہوئی تھی۔

1968ء میں ایک فلم ایسی بھی بنائی گئی کہ جس میں فلم، ادب اور سیاست سے وابستہ شخصیات کا اشتراک ہوا… اور وہ فلم تھی ’’دھوپ اور سائے‘‘ چوں کہ اس کا اسکرپٹ عظیم رائٹر و دانش ور اشفاق احمد نے تحریر کیا تھا اور ڈائریکشن کے اُمور بھی انہیں کے ذمے تھے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ اشفاق احمد ایک اوریجنل سوچ اور جداگانہ اسکول آف تھاٹ کا نام تھا۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ کوئی روایتی، فارمولا یا مسالہ فلم بناتے۔ سو ’’دھوپ اور سائے‘‘ ایک مکمل غیر روایتی فلم تھی اور اس فلم کو پروڈیوس کیا تھا، آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری نے۔

اس فلم سے دولت کمانا تو کجا، لگا ہوا سرمایہ بھی واپس نہ مل سکا۔ فلم ڈیڈ فلاپ رہی ،لیکن حاکم علی زرداری جیسے سیاست دان کا نام اور کام پاکستانی سنیما کی تاریخ کا حصہ ضرور بن گیا۔ یہی نہیں بلکہ 70ء کی دہائی میں کراچی کا سب سے اہم ترین سمجھا جانے والا سنیما ہاؤس ’’بمبینو‘‘ بھی مبینہ طور پر حاکم علی زرداری کی ملکیت تھا۔ جہاں پاکستانی سنیما کی یادگار فلمیں نمائش پذیر ہوئیں۔

بالخصوص شبنم اور ندیم کی ’’آئینہ‘‘ جیسی معرکتہ الآرا فلمز بھی اسی سنیما کی زینت بنی تھی۔ حاکم علی زرداری کے فرزند معروف سیاستدان سابق خاتون وزیراعظم کے شوہر اور سابق صدر پاکستان، آصف علی زرداری کے حوالے سے بھی یہ بات مشہور ہے کہ انہوں نے فلم ’’منزل دور نہیں اور سالگرہ‘‘ میں بہ طور چائلڈ اسٹار اداکاری کی۔ آفتاب اقبال نے اپنے مشہور ٹی وی شو میں بھی ایک بار اس بات کے مفصل طریقے سے بیان کیا کہ آصف علی زرداری نے فلم ’’سالگرہ‘‘ میں بہ طور چائلڈ اسٹار کام کیا۔ بلکہ فلم ’’سالگرہ‘‘ کا کلپ چلاکر اس چائلڈ اسٹار کی بہ طور آصف علی زرداری نشان دہی بھی کی۔ ہم نے فلم ’’سالگرہ‘‘ کا ٹائٹل پوری توجہ سے بار بار چیک کیا، لیکن ہمیں کاسٹ میں کہیں بھی کوئی (آصف) نامی چائلڈ فن کار کا نام نظر نہیں آیا۔

سابق وفاقی وزیر جاوید جبار کے نام سے کون واقف نہیں۔ یہ واحد سیاسی شخصیت ہیں کہ جنہیں سیاست سے کہیں زیادہ فلم کے تعلق سے جانا پہچانا جاتا ہے، حالاں کہ یہ ایک فعال سیاستدان ہیں۔ مختلف ادوار میں رکن اسمبلی رہے، سینیٹر رہے، وفاقی وزیر بھی رہے، لیکن محض ایک فلم ’’مسافر‘‘ کی تخلیق سے یہ اس طرح فلمی حلقوں میں جانے پہچانے جاتے ہیں کہ جیسے کوئی صف اول کا فلم میکر … 70ء کی دہائی میں پاکستانی سنیما فلم پروڈکشن بزنس اور سنیما انڈسٹری کے ارتقاء کے اعتبار سے بام عروج پر تھا۔

ہر طرح کے موضوعات پر بے دھڑک سرمایہ کار کی جارہی تھی۔ جاوید جبار ایک ترقی پسند اور جدّت پسندانہ رجحانات اورفکر لے کر فلم میکنگ کے شعبے میں وارد ہوئے اور نہایت بولڈ اسٹیپ کے ساتھ فلم ’’مسافر‘‘ اردو اور اس کا انگریزی ورژن ’’بیانڈ دی لاسٹ مائونٹین‘‘ تخلیق کی مسافر یا بیانڈوی لاسٹ مائونٹین اسکرپٹ، کردار نگاری، ڈائریکشن کے اعتبار سے ہماری روایتی فلموں سے یکسر جداگانہ اور کسی حد تک ہالی وڈ اسٹائل پر مبنی تھی۔ گویہ تجربہ ناکام رہا۔ لیکن پہلی پاکستانی انگریزی فلم کے تخلیق کار ہونے کے ناطے جاوید جبار کو شہرت دوام دے گیا۔

یہ پہلی پاکستانی فلم تھی، جس میں بوس و کنار کے طویل مناظر بھی شوٹ کا حصہ بنے اور پھر کئی دہائیوں کے بعد ان کی صاحب زادی مہرین جبار نے ریوائیول آف سنیما کی تحریک میں حصہ لیتے ہوئے جیو فلمز کے اشتراک سے فلم ’’رام چند پاکستانی‘‘ بنائی ، جس میں بھارتی اداکارہ نندیتا داس نے بطور ہیروئن کام کیا۔ مہرین نے شعبہ تحریر میں اپنے والد جاوید جبار کی خدمات حاصل کیں۔ ہم اپنے قارئین کو یہ بھی بتا دیں کہ ’’رام چند پاکستانی‘‘ لالی وڈ کی وہ پہلی فلم تھی کہ جس میں کھلی گالیوں کا استعمال ہوا، کیوں کہ اس میں دکھانا یہ مقصود تھا کہ بھارتی جیلوں میں پولیس والوں کا قیدیوں کے ساتھ برتائو اور زبان کیسی ہوتی ہے۔

پاکستان کے سابق فوجی حکم راں جنرل پرویز مشرف کا پاک فلم انڈسٹری سے بلاواسطہ تو نہیں، لیکن بالواسطہ اتنا تعلق ضرور بنتا ہے کہ ان کے داماد عاصم رضا نے نہایت خُوب صورت اور معیاری فلم ’’ہومن جہاں‘‘ اور پرے ہٹ لو نامی فلمیں ڈائریکٹ کیں۔ کراچی میں جب فلم ’’ہومن جہاں‘‘ کا پریمیئر شو منعقد ہوا تو اپنے داماد کی حوصلہ افزائی کے لیے پرویز مشرف بہ طور خاص اس پریمیئر شو میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ 2016ء ہی میں وزیراعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ سیاسی پروگراموں کی ہوسٹ، کتابوں کی مصنفہ ریحام خان نے بھی پاکستان فلم ہسٹری میں بہ طور فلمساز اپنا نام درج کروایا… ان کی پروڈیوس کردہ فلم کا نام ’’جانان‘‘تھا۔ جسے اظفر جعفری نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ گو فلم ہلکی پھلکی رومینٹک انداز کی حامل ایک کام یاب پیش کش تھی ، لیکن اس میں جزوی طور پر ہم جنس پرستی کے حساس ایشو کو بھی چھیڑا گیا تھا۔ اس فلم میں ریحام خان کے پروڈیوسرز حریم فاروق، منیر حسین اور عمران رضا کاظمی تھے۔

ماضی کی معروف ٹی وی رپورٹ، فنکشنل مسلم لیگ سے رکن سندھ اسمبلی مہتاب اکبر راشدی نے 2017ء میں بطور فلم پروڈیوسر پاکستانی سنیما کے ریوائیول میں حصہ ڈالتے ہوئے اردو فلم ’’تھوڑا جی لے‘‘ پروڈیوس کی، جس کی ڈائریکشن ان کے فرزند رافع راشدی نے دی اور اسکرپٹ بھی رافع راشدی نے خود ہی تحریر کیا، جب کہ نغمات کی تخلیق اور موسیقی مرتب کرنے کی ذمے داری مہتاب کے دوسرے فرزند مہیب راشدی نے سنبھالی۔ گوکہ ’’تھوڑا جی لے‘‘ باکس آفس پر ڈیڈ فلاپ ثابت ہوئی، لیکن پاکستانی سنیما سے ایک نامور علمی، ادبی اور سیاسی شخصیت کی وابستگی کا موجب ضرور بن گئی۔