وارث میر، ایک علمی درس گاہ

August 09, 2020

پروفیسر اقبال عظیم کا یہ شعر؎ منصب تو ہمیں بھی مل سکتے تھے لیکن شرط حضوری تھی..... یہ شرط ہمیں منظور نہ تھی، بس اتنی سی مجبوری تھی، جہاں اپنے اندر ایک گہری معنویت رکھتا ہے، وہیں ایک سچّے، جرأت مند، دانش وَر اور صحافی پروفیسر وارث میر کا زاویہ نگاہ بھی اجاگر کرتا ہے۔ پروفیسر وارث میر علم و دانش، تحقیق و تجربے اور فکری ارتقا میں ایک وسیع درس گاہ کی حیثیت رکھتے تھے۔

ایسی درس گاہ، جس سے عوام النّاس کو زندگی کے تقریباً ہر مضمون پر حقائق پہ مبنی بھرپور آگاہی ملتی رہی۔ ان کا قلم عوام کی امانت تھا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ’’لوگوں کی آواز بنو اور سچائی کے لیے لکھو‘‘ کو اپنا مشن مان کر ہمیشہ آوازِ حق بلند کی۔ آمرانہ قوتوں کے سامنے اپنے سچّے موقف پر ڈٹے رہے اور آج ایک بے باک صحافی، محبِ وطن پاکستانی کی مجاہدانہ زندگی کو یاد کرتے ہوئے قلم اٹھانے کا مقصد بھی عوام و جمہوریت کے لیے دن رات آمرانہ طاقتوں کے خلاف اپنے قلم سے جنگ لڑتے لڑتے کم عمری ہی میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے عظیم استاد کی گراں قدرخدمات سے متعلق کچھ تاریخی حقائق عوام کی خدمت میں پیش کرنا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کسی بھی قوم کی ترقی و تنزّلی میں اس کے اہلِ علم و دانش کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہی طبقہ اگر معاشرتی آگاہی و روشنی کا باعث بنتا ہے، تو یہ طبقہ اگر اپنی ذمّے داریوں سے غافل ہوجائے، تو قوم کے زوال اور پستی کا باعث بھی بن جاتا ہے، لہٰذا کسی بھی معاشرے کی تشکیلِ نو میں سچائی پر ڈٹے رہنے والے اہلِ علم و دانش کا کردار مسلمہ ہے۔ پروفیسر وارث میر اپنے دَور کے ایک جرأت مند صحافی، عظیم دانش ور اور اعلیٰ پائے کے استاد و رہنما تھے۔ پنجاب یونی ورسٹی، لاہور کے شعبۂ ابلاغیات کے سربراہ کی حیثیت سے میر صاحب کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ انہوں نے تقریباً 25سال تک شعبۂ صحافت اختیار کرنے والے طلباء و طالبات کو رموزِ صحافت سے آشنا کیا۔

اس دوران اس دَور کے معروف اخبارات و جرائد میں نہایت فکر انگیز، بے باک اور تاریخی اہمیت کے حامل مضامین تحریر کیے۔ ایک مایہ ناز دانش وَر اور محقّق کی حیثیت سے متعدّد بین الاقوامی کانفرنسز میں پاکستان کی نمائندگی کی اور سیاسی، معاشرتی، ادبی و دینی موضوعات پر لیکچرز کے ذریعے ملک کا وقار بلند کیا۔انہوں نے اپنے مختصر عرصۂ حیات میں سیاست، مذہب، فلسفے، تعلیم، نفسیات، تاریخ، سائنس، حریتِ فکر، ادب، انسانوں کے حقوق، عورتوں کے حقوق، آزادئ صحافت اور مختلف شخصیات کی زندگیوں سمیت بے شمار متنوّع موضوعات پر بڑی تفصیل اور بے باکی سے لکھا۔ اُن کی تمام تحریروں میں جدّتِ فِکر کی خوبی خاص طور پر دیکھی جاسکتی ہے، جس کی بنیاد سنجیدہ حقائق، منطق اور استدلال پر مبنی ہوتی۔

اُن کے الفاظ کی تازگی اور ہمیشگی کی سب سے بڑی وجہ وہ فِکری ارتقاء ہے، جو شب و روز کی اَن تھک محنت و تحقیق پر مبنی رہا۔ وہ اپنی صحافتی جدوجہد کے ذریعے لوگوں کا طرزِ عمل بدلنے، معاشرتی مسائل کا حل تلاش کرنے اور عوام کی خدمت کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ جمہوریت کو صرف بطور نظام ہی نہیں دیکھنا چاہتے تھے، بلکہ عوام کے معاشرتی رویّوں اور طرزِعمل میں جمہوریت سے مکمل آگاہی اور آشنائی پر بھی یقین رکھتے تھے۔ ایک باعمل مسلمان ہونے کے ناتے سچّے عاشقِ رسولﷺتھے۔ اور اس بات پر یقینِ کامل تھا کہ قرآن پاک مسلمانوں کو حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد کا پیغام دیتا ہے۔

نیز، جدید دور کے حوالے سے اُن کا موقف تھا کہ مسلمانوں کو سائنسی اندازِ فکر اپنانے کے ساتھ ساتھ مذہب کو کردار کی مضبوطی اور اعلیٰ اقدار کو اپنانے کا مآخذ سمجھ کر کائنات کے اسرار و رموز اور زندگی کی حقیقتوں کو تلاش کرنا چاہیے۔ ایک سچّے مسلمان اور محبِ وطن پاکستانی ہونے کے ناتے وہ شاہ ولی اللہ، علامہ اقبال اور بانیٔ پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات کی روشنی میں پاکستان کو ایک آزاد خیال جمہوری ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔

22نومبر 1938ء کو سیال کوٹ میں پیدا ہونے والے وارث میر 70ء کی دہائی تک پاکستان میں جمہوریت پسند، ترقی پسند اور روشن خیالی کا مینارہ سمجھے جاتے تھے۔ وہ سچ بولنے کا عزم سینے سے لگائے عوام اور خاص طور پر آنے والی نسلوں کو حق بات پر ڈٹے رہنے کا پیغام دیتے 9جولائی 1987ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ وارث میر اپنی سچائی اور تخلیقات کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ بڑی سادہ اور قلندرانہ طبیعت کے مالک تھے۔

زندگی کے ہر پہلو کو بہت حسّاسیت اور سچائی سے پرکھتے اور حقائق کو مکمل دلائل اور شواہد کےساتھ پیش کرتے، اُن کا یقین تھا کہ سچ ہمیشہ اور ہر زمانے میں زندہ رہتا ہے۔ انہیں بعداز مرگ 1988ء میں عوامی خدمات کے اعتراف میں انسانی حقوق کے خصوصی ایوارڈاور 2012ء میں پاکستان کے اعلیٰ ترین سِول ایوارڈ ’’ ہلالِ امتیاز ‘‘ سے نوازا گیا۔ پھر 2013 ء میں حکومتِ بنگلادیش نے بے مثال صحافتی خدمات کے اعتراف میں ’’فرینڈ آف بنگلادیش‘‘ ایوارڈ سے نوازا۔یہ تمام اعزازات گواہ ہیں کہ سچ ہر زمانے میں زندہ رہتا ہے۔

1978ء میں لندن میں اپنے ایک آپریشن سے پہلے اپنے بچوں کو وصیت میں خاص تاکید کی کہ ’’اسلام اور پاکستان کی جنگ جاری رکھیں‘‘ اور آج بلاشبہ، اللہ تعالیٰ نے اُن کی بہادر اور ہونہار اولاد کو یہ توفیق دی ہے کہ وہ اپنے والد کی وصیت کی تکمیل میں پاکستان اور اس کے عوام کے حقوق کے حصول کی جنگ بڑی جرأت مندی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وارث میر کے بڑے صاحب زادے، حامد میر اورچھوٹے عامر میر نے صحافت کا پیشہ اپنایا اور والد کے حق گوئی کے مشن کو اپنی زندگیاں کو خطروں میں ڈال کر جواں مَردی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔

اس کا ثبوت پنجاب، سندھ اور قومی اسمبلی سمیت سینیٹ کے ارکان کا وہ شان دار خراجِ تحسین ہے، جو ان تمام جمہوری ایوان ہائے نمائندگان نے اپنے حالیہ اجلاسوں میں وارث میر کی جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کےلیے کی گئی جدوجہد کے اعتراف میں پیش کیا۔ اور متفقہ طور پر قرارداد منظور کرکے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک نئی مثال رقم کردی، مزید برآں، مذکورہ قرارداد میںاُن پر لگائےگئے غداری کے بے بنیاد الزامات کی بھی بھرپور مذمت کی گئی۔

ارکان اسمبلی نے اس موقعے پر اس امر کا بھی اعادہ کیا کہ پاکستان میں آزادئ اظہار اور اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے غداری اور کفر کے فتوے لگانے کی انتقامی روایات کے خلاف عوامی نمائندگان بھرپور مزاحمت کریں گے۔ نیز، پنجاب یونی ورسٹی میں واقع انڈرپاس کو دوبارہ وارث میر کے نام سے موسوم کرنے کا بھی پُرزور مطالبہ کیا گیا۔