دو قومی نظریہ اور قراردادِ پاکستان

August 09, 2020

بلاشبہ بانئ پاکستان، حضرت قائداعظم محمد علی جناح بیش بہا خوبیوں کے مالک اور کبھی نہ جھکنے والے بے باک لیڈر تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی قیادت اُس وقت اپنے ذمّے لی، جب ہندوستان کے تمام مسلمان انگریزوں کی حکم رانی سے سخت مایوس تھے، غلامی ان کا مقدر بن چکی تھی۔ تاہم، قائد اعظم محمد علی جناح کی کرشماتی شخصیت نے اس پژمردہ اور مایوس قوم کوچند ہی برسوں میں ایک زندہ قوم میں تبدیل کرکے انہیں یقین دلادیا کہ اُن کے دکھوں کا مداوا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اُن کے پاس ایک آزاد، علیٰحدہ مملکت ہو۔ قائدکی تقریروں میں قانون سے واقفیت کے ساتھ بلا کا اعتماد اور گھن گرج بھی ہوتی تھی۔ اُن کی تقریریں ایسی ہوتیں کہ دشمن بھی مسحور ہوجاتا۔ گویا؎’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘ والی کیفیت طاری ہوجاتی۔ قائد ہمیشہ سوچ سمجھ کر بات کرتے تھے اور جب اپنی بات لوگوں تک پہنچادیتے، تو اس پرڈٹ جاتے۔

وقت اور حالات کے لحاظ سے انہیں خال ہی اپنی باتوں کی تردید کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تاجِ برطانیہ اور ہندو سامراجی طاقتیں ان کے عزم کے آگے کچھ حیثیت نہ رکھتی تھیں۔ ایک بار وائسرائے ہند، لارڈ مائونٹ بیٹن قائد اعظم کو اپنے کسی موقف پر قائل کرنے میں ناکام رہے، تو مایوسی کے عالم میںکہا ’’میرے خدا، وہ تو برف کی طرح سرد تھے۔ میرے انٹرویو کا زیادہ وقت اسی برف کو پگھلانے میں صرف ہوا۔‘‘ (ہیکٹر بولائتھو کی کتاب، ’’جناح کری ایٹر آف پاکستان‘‘ سے)۔ سو، ان کی شخصیت مسخ کرنے والے جان لیں کہ وہ ایک بے باک اور پُراعتماد ہستی اور کسی کے بھی خواب وخیال سے بہت آگے کے انسان تھے۔ ذیل میں مردِ آہن قائداعظم محمد علی جناح کی پُرزور تقریروں کے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔

٭ایگزیکٹیو کائونسل کے اجلاس کے دوران ایک بار انہوں نے برطانوی کمانڈر انچیف کو کھری کھری سنادیں۔ انہوں نے کہا۔’’کمانڈر انچیف کہہ رہے ہیں کہ ہم یک جان قوم نہیں۔ اگر بھارت کو جوڑ کے رکھنے کی بات نہ ہوتی، تو مَیں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ کمانڈر انچیف وہاں نہ کھڑے ہوتے، جہاں وہ ہیں اور ہمارے ساتھ ایسی باتیں نہ کرتے، جیسی کہ وہ پچھلے روز کررہے تھے۔ اس کے برعکس ہوتا یہ کہ میں ان کی جگہ پر کھڑا ہوتا اور کمانڈر انچیف کو تعمیل کے لیے احکامات دے رہا ہوتا۔‘‘(حسن ریاض، ’’پاکستان ناگزیرتھا‘‘)

٭ستمبر 1930ء میں انہوں نے کلکتہ میں مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں برطانوی حکومت پر بے رحمانہ تنقید کرتے ہوئے کہاکہ ’’پہلے رولٹ بل آیا، پھر سلطنتِ عثمانیہ کی تاراجی اور لوٹ کھسوٹ ہوئی۔ ایک نے ہماری آزادی پر حملہ کیا اور دوسرے نے ہمارے مذہب پر۔ مسلمانوں کی متحدہ رائے کے باوجود، اور اپنے ہی دعووں کے برخلاف انہوں نے ترکی پر غیر شجاعانہ اور ظالمانہ شرائط عائد کردیں۔ اتحادیوں نے حکم برآری کے پردے میں سلطنتِ عثمانیہ کو لوٹا اور پارہ پارہ کردیا۔‘‘ (ہیکٹر بولائتھو، ’’جناح دی کری ایٹر آف پاکستان‘‘)

٭’’میں نے پنڈت نہرو سے پہلے بھی کہا تھا اور میں پھر کہتا ہوں کہ ہندوستان میں ایک تیسری قوت بھی ہے اور وہ ہے، ہندوستان کے مسلمانوں کی! ہم کسی کے اشارئہ ابرو پر چلنے کو تیارنہیں۔ اورنہ ہم کسی پارٹی کے خیمہ بردار بننے کے روادار ہیں۔‘‘ (ہیکٹر بولائتھو، ’’جناح دی کری ایٹر آف پاکستان‘‘)

٭’’پنڈت نہرو بنارس اور ماسکو کے درمیان بٹے ہوئے ہیں۔ وہ بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہونا چاہتے ہیں۔ ایک طرف ہندوازم سے ناتا، دوسری طرف اشتراکیت واشتمالیت سے بھی واسطہ۔ وہ ہوائوں میں اڑ رہے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ کیا انہیں احساس ہے کہ ان کی ہوائی باتیں اور غیر سنجیدہ تبلیغ و تلقین،انہیں کہاں لے جائے گی؟ اوروہ سادہ دل اور معصوم عوام جو ان کے پیچھے’ ’آمنا و صدقنا‘‘کہہ کر چل رہے ہیں،کہاں جاکر گریں گے؟ مَیں ان سے دردمندانہ گزارش کروں گا کہ خدا کے لیے زمین کی سطح پر اترآئیے اور وہ تلخ حقائق و حالات، جن کا ہمیں سامنا ہے،ا ن کا زیادہ گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیجیے۔ و ہ سنگین مسائل جو چیخ چیخ کر مطالبہ کررہے ہیں کہ اپنے بڑھتے ہوئے قدم روک لیجیے ۔کیا وہ موقعے کی مناسبت سے اٹھنے کے لیے تیار ہیں؟یا محض’’پیٹرمین‘‘ کی طرح رہنا چاہیں گے، جو کبھی بالغ ہی نہ ہوسکا تھا؟‘‘(سروپالی گوپال ’’جواہر لعل نہرو: اے بائیو گرافی‘‘)

٭ قرارداد ِ لاہور کے جواب میں گاندھی نے جب راجِ برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ’’ QUIT INDIA َ۔ ملک سے نکل جائو‘‘، توہمارے دُور اندیش سیاست دان، محمدعلی جناح نے برجستہ جواب دیا ’’-Divide and Quit India تقسیم کرو اور پھر نکلو۔‘‘

٭ہندو لیڈروں نے چیخ چیخ کر شور مچایا کہ’’مادرِہند کی تقسیم؟ اس کی چیر پھاڑ؟ اس کی قطع و برید؟‘‘ مثلاً گاندھی نے بیان دیا کہ ’’یہ تو مادرِہند کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے مترادف ہے۔ ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے پہلے میرے جسم کے دوٹکڑے کردو۔‘‘ راج گوپال اچاریہ نے کہا کہ ’’یہ توگئو ماتا کی چیر پھاڑ ہے۔ یہ ایک روگی ذہن کی پیداوار ہے۔‘‘ان سب کے جواب میں قائد اعظم نے للکارکر کہا کہ ’’کہاں ہے وہ ملک، جس کے حصّے بخرے کیے جارہے ہیں؟ جن علاقوں پر ہمارا دعویٰ ہے، وہ تو پہلے ہی سے ہمارے علاقے ہیں۔ وہاں ہماری اکثریت ہے اور میں خواہ روگی ذہنیت میں مبتلا ہوں یا نہیں، مگر قراردادِ لاہور پر راج گوپال اچاریہ کی تنقید سے یہ بات ظاہرہوتی ہے کہ ان کی کھوپڑی میں دماغ نام کی کوئی چیزہی نہیں رہی ہے۔ یہ ایک دانش مندانہ اور اچھی سوچی سمجھی اسکیم ہے اور اس پر سوادِاعظم کا اجماع ہے۔‘‘(سروپالی گوپال ’’جواہر لعل نہرو: اے بائیو گرافی‘‘)

٭ایک بار لاکھوں کے جلسے میں انہوں نے برطانوی حکومت کوکھری کھری سناتے ہوئے خبردار کیا کہ’’اگران کے کوئی ایمان داراور باصلاحیت کارندے ہیں، تو انہیں مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ ہوجانا چاہیے۔ مَیں انہیں اس پلیٹ فارم سے متنبہ کرتاہوں کہ ہماری مایوسی اور تلخی کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ میں اس سے زیادہ سخت زبان استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ آپ مسلم ہندوستان کے ساتھ جو سلوک اور نازیبا برتائو رکھ رہے ہیں، وہ خود آپ کے لیے خطرہ ہے۔ اس لیے مسلم لیگ حکومتِ برطانیہ سے درخواست کرتی ہے کہ وہ بغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے ایک صاف اور غیر مبہم اعلان کرے، جس میں مسلمانوں کے حقِ خودارادی کی ضمانت ہو، اور اس بات کا حتمی وعدہ کہ لاہور ریزولیشن کے مطابق ہونے والے استصواب کے فیصلے کی تعمیل کی جائے گی۔‘‘ (اسٹینلے والپرٹ، ’’جناح آف پاکستان‘‘) ۔

٭ قائد اعظم نے گاندھی جی کی مہاتمائیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ’’انہوں نے اپنی مہاتمائیت کی تشہیر کے لیے ہندوستان کے بہت سے صوبوں میں ’’نائب گاندھی‘‘ بھی بنارکھے ہیں۔ مثلاً بہار کے گاندھی، ڈاکٹر راجندر پرشاد بنائے گئے۔ سرحد میں خان عبدالغفار خان ’’ڈپٹی گاندھی‘‘ مقرر ہوئے اور انہیں سرحدی گاندھی کے خطاب سے نوازا گیا۔ اسی طرح بلوچستان بھی ’’ڈپٹی گاندھی‘‘ کی معاونت اور عزت افزائی سے محروم نہ رہااور عبدالصمد اچکزئی اس منصب سے سرفراز کیے گئے۔ گاندھی جی دراصل پورے ہندوستان کو ’’ہندو آشرم‘‘بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔‘‘ (اسٹینلے والپرٹ،’’جناح آف پاکستان‘‘)

٭’’ہم کیا چاہتے ہیں؟ ہمارا مطالبہ کیا ہے؟ جواب ہے ’’پاکستان‘‘ ہم ایک علیٰحدہ مملکت چاہتے ہیں، جہاں ہم اپنے تصوّرات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ ہماری ان تجاویز پر کیا اعتراض ہے؟ مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا برطانیہ اپنی سنگینوں کے بل پر سارے ہندوستان کا قبضہ ہندوئوں کی اکثریت کے حوالے کردے گا؟ اگر ایسا ہوا، تو آپ عزت، انصاف اور دیانت کے تمام تقاضوں سے محروم ہوجائیں گے۔ جمہوریت ہمارے خون میں ہے۔ ہم مسلمان، اخوّت، مساوات اور آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اب ہندوستان کی تقسیم کے علاوہ اور کوئی چارئہ کار نہیں ہے۔ بس مسلمانوں کا خطّہ مسلمانوں کے حوالے کیجیے اور ہندوئوں کا ہندوئوں کے۔‘‘(جمیل الدین احمد،’’ اسپیچز اینڈ رائٹنگز آف ایم اے جناح‘‘)

٭ ’’اگر ہندوستان پر ہندو استعمار پسندوں کا اقتدار قائم ہوگیا، تو یہ آپ کے لیے مستقبل میں ویسا ہی خطرہ بنارہے گا، جیسی برطانوی شہنشاہیت ہے۔ مشرق ِ وسطیٰ کا پورا علاقہ گویا کڑاہی سے نکل کر آگ میں جاگرے گا۔ اگر ہندوستان میں ہندوسلطنت قائم ہوگئی، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہندوستان میں تو اسلام کا بوریا بستر گول ہوہی جائے گا، مگر دوسرے اسلامی ممالک بھی اس کی زدمیں آجائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی اور روحانی رشتے ہمیں پوری قوت سے مربوط کیے ہوئے ہیں۔ تو اگر ہم ڈوب گئے، تو سب ہی ڈوب جائیں گے۔‘‘(مصر سے واپسی پر قاہرہ میں دسمبر 1946ء میںعرب لیگ کے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب)

٭ ’’مسئلے کا ایک ہی حل ہے۔ عملِ جرّاحی اور ہندوستان کی تقسیم! مسلمانوں کی وکالت کرنے والا ایک ہی فرد ہے، جب کہ کانگریس کی طرف سے کئی مدعی ہیں۔ گاندھی بے پناہ اختیارات کے مالک ہیں، مگر ذمّے داری اٹھانے سے انکاری ہیں۔ اور نہرو اور پٹیل مختلف خیالات کے حامل ہیں۔ ادھر کانگریس بھی متواتر اپنا محاذ بدلتی رہتی ہے۔‘‘ (مائونٹ بیٹن سے ملاقات۔7،اپریل 1945ء لیری کولینز ’’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘‘)

٭ ’’کانگریس سے کہتا ہوں،تقسیم کرو۔ میں تمہارے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتا۔اگر تم اس کے سوا کچھ اور کہتے ہو، تو یہ دھوکا ہے۔ ہم مساویانہ حصّہ نہیں مانگتے۔ ہم ایک چوتھائی مانگتے ہیں۔ ہم ہندوئوں کو تین چوتھائی حصّہ دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے فلسفے، تمدّن اور عقائد کے مطابق رہ سکیں، اور ہم اپنے فلسفہ زندگی کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ ہم نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے سے الگ ہیں، بلکہ ایک دوسرے کی ضد بھی ہیں۔‘‘(نیوز کرانیکل، بمبئی، 1946ء) ؕ

بانئ پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری درد بھری تقریر

٭ ’’میری زندگی کی واحد تمنّا یہی ہے کہ مسلمانوں کو آزاد و سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین و اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہاہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی ہے اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا ہے۔‘‘ (خطاب آل انڈیا مسلم لیگ کائونسل، 21اکتوبر1939ء)