شب گزیدہ

August 09, 2020

مسجد میں گُھپ اندھیرا تھا۔ مَیں نے آنکھیں بند کیں اور اذان دینا شروع کردی۔اذان ختم کر کےسامنے طاق میں رکھا دیا روشن کیا۔ روشنی میں لرزش تھی، یقیناً اُس نے میرے لباس اور چہرے پہ موجود خون کے چھینٹے دیکھ لیے ہوں گے۔اذان دینےکے بعد مَیںکافی دیر تک بلاوجہ چراغ کی لَو تکتا رہا۔یک دَم مجھے لگا کہ میرے پیچھے کوئی ہے، جو دَبے قدموں آہستہ آہستہ میری طرف بڑھ رہا ہے۔ مجھے لگا ،یہ موت کا فرشتہ ہے، جو دھیرے دھیرے میرے قریب آ رہا ہے۔ویسے تو موت ایک خوف ناک تصوّر ہے، لیکن اُس وقت مَیں ایسی کیفیت میں تھا کہ موت کا خوف اپنی موت آپ مر چُکا تھاکہ اب زندہ رہنے کا کوئی خاص جواز میرے پاس باقی نہیں رہ گیا تھا۔مَیں نے اُس رات، اُس مسجد میں شاید آخری چراغ جلایا تھاکہ اس کے بعد مسجد کی راتیں بے چراغ ہونے والی تھیںاور اسی لیے مَیں نےاپنی جان خطرے میں ڈال کر اذان دی تھی۔

قدموں کی چاپ سُن کر مَیں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، توچراغ کی روشنی میں ایک ہیولا سانظر آیا۔اس شخص نے چہرے پہ ڈھاٹا باندھ رکھا تھا۔اس کی پگڑی کی سلوٹیں ،اس مدھم روشنی میں بھی مجھے بخوبی نظر آ رہی تھیں۔اسی طرح کی سلوٹیں اس کے ماتھے پر بھی تھیں۔اس کے ہاتھ میں چمکتی کرپان اور آنکھوں سے نکلتے شعلے صاف نظر آرہے تھے۔ کرپان کی چمک نے میرے خون آلود چہرے پرموت کی تاریکی پھیلا دی ۔اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ اگر مَیں بہت خوش قسمت ہوا ،تو اگلے ہی لمحے یہ خنجر میرے سینے میں اُتر جائےگا اور موت کی گہری نیند مجھے دنیا کے دُکھوں سے مکمل نجات دے دے گی۔لیکن اگلے ہی لمحے اس شخص کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔جیسے سورج دہک رہا ہو ، مگر اچانک بادل آ جائیں اور ٹوٹ کر برسنا شروع کر دیں ۔ اس نے مجھےفوراًسینے سے لگا لیا۔

اس کی ہچکیوں اور سِسکیوں کی آواز سے مَیں نے پہچان لیا کہ وہ میرا لنگوٹیا یار ،لہنا سنگھ ہے۔’’طیفے یار! مجھے ابھی پتا چلا کہ گاؤں اور تمہارے خاندان پر کیا قیامت گزری ہے۔ مَیں تو پچھلے ہفتے نانکے پنڈ چلا گیا تھا۔اگر مَیں ادھر ہوتا تو سونہہ ہے واہ گرو کی کہ میری لاش گرانے کے بعد ہی وہ لوگ تم لوگوں کو ہاتھ لگا پاتے، مگر قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔پورا دن گزر گیا، تجھے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔ایک ایک لاش کا چہرہ غور سے دیکھا۔گلی کُوچے، کھیت کھلیان سب چھان مارے۔جہاں کبھی زندگیاں سانسیں لیتی تھیں، جن گلیوں میں قہقہے گونجتے تھے ، وہاں لاشیں بکھری پڑی ہیں، موت کا سنّاٹا اور وحشت کے ڈیرے ہیں۔جن کھیتوں کھلیانوں میں ہری بھری فصلیں اُگتی تھیں، ان میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔پورا گاؤں قبرستان بن چُکا ہےمیرے یار۔

اپنے پنڈ کے سارے مسلمان ماردئیے گئے اور قاتل اس ڈرسے چُھپتے پھررہے ہیں کہ آس پاس کے گاؤں کے مسلمان بدلہ لینے کے لیے حملہ نہ کر دیں۔ مَیں تو تھک ہار کے بڑے برگد کے نیچے بیٹھ گیا تھا کہ تمہاری اذان کی آواز سُنی کہ تمہاری آواز تو مَیں گہری نیند میں بھی پہچان سکتا ہوں۔ آخر تُو میرا جگری یار، چوہدری عبداللّطیف ہے۔تجھے پتا ہے،اذان کی آواز سُن کر گاؤں کے سِکھڑے مسجد کی طرف لپکے تھے۔پھر مَیں بھی کرپان نکال کے کھڑا ہو گیا اور کہہ دیا کہ’’ یہ راستے میں لہنا سنگھ نہیں، موت دیوار بن کے کھڑی ہے، جسے شوق ہے، موت سے ملنے کا وہ خوشی سے آ کے گلے لگا سکتا ہے۔‘‘ میرے یار! اب تجھے کسی سے ڈرنے یا خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔ مَیں خود تجھےامرتسر اسٹیشن تک چھوڑ کے آؤں گاکہ میرے ہوتے کسی کی مجال نہیں کہ تجھے ہاتھ بھی لگا سکے۔ ’’لہنے! پر تُونے منہ کیوں چُھپا رکھا ہے ؟‘‘مَیں نے سوال کیا۔ ’’یار منہ نہیں چُھپا یا ہوا،لاشوں کی وجہ سے اتنا تعفّن پھیل گیا ہے کہ سانس لینا محال ہے۔ ‘‘ مَیں نے آخری نظر اُس چراغ کی پھڑپھڑاتی لَو پر ڈالی اورلہنا سنگھ کا ہاتھ تھامے مسجد سے باہر آگیا۔

ہم لہنے کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ رات کے سنّاٹے میں کتّوں کے بھونکنے اور گیدڑوں کے چیخنے کی آوازیں ہماراتعقّب کر رہی تھیں۔مجھ سے وہ زمین ہمیشہ کے لیے چُھوٹ رہی تھی، جو کبھی میری اپنی تھی اور آج مَیں اپنا سب کچھ یہاں لُٹا کے جا رہا تھا۔پیچھے میرے پورے خاندان کی لاشیں بے گورو کفن ، لاوارث پڑی تھیں۔ کیسی عجیب بات تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ گلیاں، محلّے سب اجنبی ہو گئے، جہاں بچپن بِیتاتھا،جہاں مَیں نے اور لہنے نے گُلّی ڈنڈا کھیلنا سیکھا تھا۔

مَیں اب وہ میدان ہمیشہ کے لیے چھوڑ چلا تھا، جہاں ہم اُچھلتے کودتے ،کبڈّی کھیلتے تھے۔جاتے جاتے بوڑھے برگد کے درخت کےنیچے بابا چُپ شاہ کی مڑھی کے ہیولے کو آخری نظر دیکھا، یہاں بیساکھ مہینے میں میلہ لگتا تھا، لہنا سنگھ اور مَیں اس میں کبڈّی کھیلتے تھے ۔وہ تمام لمحات کسی فلم کے مناظر کی طرح نظروں کے سامنے چل رہے تھےاور دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔دل چاہا، دھاڑیں مار مار کر روؤں۔بہت مشکل سے خود پرقابو پایا۔آنسوؤں کے سیلاب نے میری داڑھی بھگودی تھی۔

لہنےنے مسجد سے نکلتے ہوئے مجھے ایک چادر دی تھی کہ اس سے سِکھوں کے انداز میں پگڑی باندھ لوں۔ پھراس نے اپنا کڑا اُتار کے مجھے پہنا دیا اور کرپان بھی میرے حوالے کر دی ۔ راستے میں کئی جلے ہوئے گاؤں دِکھائی دئیے، کہیں گھروں کو آگ لگی تھی، تو کہیں کھیتوں سے شعلے بلند ہو رہے تھے۔لوگوں کے جتھےتھے، جو اپنے ہی جیسے انسانوں کے گلے کاٹ رہے تھے ۔خون کے دریا طغیانی پہ تھے اور مٹّی کی پیاس تھی کہ بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ایسا محسوس ہورہاتھا کہ ا نسان ہی بھیڑیں اور انسان ہی بھیڑیئے بن چُکے ہیں۔’’لہنے !ایک بات کہوں؟‘‘مَیں نے خاموشی توڑی۔ ’’ہاں کہو…‘‘’’جب تم آئے تو مجھے لگا ، میری موت آگئی، مَیں بہت خوش تھا کہ اس زندگی کی قید سے آزاد ہو جاؤں گا، جو میرے لیےاب ایک بہت بڑا بوجھ بن چُکی ہے۔ تمہیں واہ گرو کی قسم، اب بھی موقع ہے مجھے مار دو اور میری لاش گاؤں والوں کے سامنے ڈال دوکہ اگر تم مجھے بچا کے واپس جاؤ گے تو یا تو گاؤں والے تمہیں مار دیں گے یا تمہیں ساری عُمر طعنے سننے پڑیں گے۔‘‘’’تجھے مارنے سے پہلے کرپان مجھے اپنے سینے میں اتارنی پڑے گی طیفے۔ یار!دوستی کا رشتہ ذات ، برادری، دین دھرم سے بالاترہوتا ہے۔اور تُو تو جانتا ہےمجھےطعنوں کی فکر ہے اور نہ موت کا ڈر۔‘‘

گھوڑا امرتسر میںداخل ہو چُکا تھا۔ گلی کُوچے سبھی ویران تھے۔ شہر میں جلتے بلبوں کی روشنی بھی ماتم کرتی محسوس ہورہی تھی۔ریلوے اسٹیشن کے قریب پہنچے تو اسٹیشن کی عمارت بھی اداس اور مغموم نظر آئی۔لہنا سنگھ اور مَیں اسٹیشن کے سامنے گھوڑے سے اُتر ےاور گھوڑا ایک طرف باندھ کر دونوں عمارت کے اندر چلے گئے ۔ ٹکٹ گھر کی کھڑکی ابھی بند تھی۔اسٹیشن لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، ہم دونوںوہیں زمین پر ایک طرف بیٹھ کر ٹرین کا انتظار کرنے لگے۔ مَیںنے چادر اتارکر گلے میں ڈال لی۔ہم دونوں نے باتیں شروع کیں تو وقت کا پتا ہی نہیں چلا، سب بھول بھال کر دو دوست بچپن سے لڑکپن اور جوانی تک کی یادوں میں کھو گئے۔یوں لگ رہا تھا کہ گھنٹے سِمٹ کر لمحے بن چُکے ہیں۔صبح ہونے ہی والی تھی کہ ٹکٹ گھر کی کھڑکی کُھلی۔ ایک ہجوم اس پہ حملہ آور ہو گیا۔

بڑی مشکل سے ہجوم میں سے راستہ بنا کر لہنا سنگھ میرے لیے لاہور کا ٹکٹ خرید لایا، کچھ دیر گزری تو ٹرین پلیٹ فارم پر نمبر دو میںداخل ہوئی۔ ہم دونوں نے آخری بار ایک دوسرے کو گلے لگایا، دونوں کی آنکھیں نم تھیں۔آخری بار مَیں نے اپنے یار، اپنے محسن، لہنا سنگھ کو دیکھا اور روتے ہوئے ٹرین میں چڑھ گیا۔ٹرین کے انجن نے سیٹی بجائی،جو مجھے ایک کرب ناک چیخ محسوس ہوئی۔ایسا لگا ،وہ انجن پیچھے رہ جانے والی لاکھوں لاشوں کے دُکھ میں اپنی پوری شدّت سے چیخا ہواورپھرسیکڑوں ’’زندہ لاشوں ‘‘کو اپنے دامن میںسموئے ٹرین آہستہ آہستہ پٹری پہ رینگنے لگی۔ٹرین کاڈبّا لُٹے پِٹےلوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، مگر پورے ڈبّے میں سنّاٹا تھا،موت کا سناٹا اورایک قبر کی سی خاموشی۔ایسا لگتا تھا ، جیسے ان ’’زندہ لاشوں‘‘ کو اب موت کا خوف تھا، نہ زندگی کی پروا،ایک عجیب قسم کی بے حسی نے انہیں گھیر رکھا تھا ۔ کبھی کبھار کسی بچّے کے رونے یا کسی بوڑھے کے کھانسنے کی آواز سنائی دے جاتی، تو محسوس ہوتا کہ ہم زندہ ہیں۔ جب ٹرین پاکستان کی حدود میں داخل ہوئی اور نیم مُردہ لوگوں کے حلق سے ’’پاکستان زندہ باد… پاکستان زندہ باد…‘‘ کے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے ، تو یوں لگا، جیسے ان مُردہ جسموں میں پھر سے کسی نے ایک نئی روح پھونک دی ہو۔ مَیں نے بھی نئی سرزمین میں داخل ہوتے ہوئے ’’پاکستان زندہ باد ‘‘کا نعرہ لگایا اور ڈبّے کے فرش ہی پر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گیا۔ایک ایسا سجدہ ، جس کا لمس آج تک میری پیشانی پرمحفوظ ہے۔

14 اگست 2020ء کی صبح طلوع ہو چُکی ہے۔میری عُمر اب نوّے سال ہے۔چراغِ سحری ہوں، اب بجھا کہ تب بجھا۔زندگی اپنے اختتام کے قریب ہے۔ جہاں میرے خاندان کی کہانی ختم ہوئی ،وہیں سے پاکستان کی کہانی کا آغاز ہوا،جسے لکھنے کے لیے اَن گنت لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، خاندان کے خاندان تباہ و برباد ہوگئے۔ہم سب اپنے آبا کی زمینیں، جائیدادیں چھوڑ کر صرف اس لیے آئے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو ایک آزادریاست، اپنی ایک الگ پہچان میّسر آسکے۔ میرے بچّو! اپنی زمین،اپنی مٹّی، وہ جگہ چھوڑنا آسان نہیں ہوتا،جہاں بچپن بیتا ہوا، آبا واجداد کی قبریں ہوں، لیکن مجھ جیسے اَن گنت افراد نے تم لوگوں کی خاطر، تمہارے بہتر مستقبل کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ پر سچ کہوں تو یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ میرے پیارے وطن کے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئیں، ہر کسی نے اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ۔

میرے بچّو! یہ سحر ابھی تک شب گزیدہ ہے، اس شب گزیدہ سحر کو اُجالنا تمہاری ذمّے داری ہے، تا کہ وہ لاکھوں بے چین روحیں سکون سے سو سکیں ،جنہوں نے اس طلوعِ سحر کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے۔