’’اپنے دل سے فتویٰ لو ‘‘ سے کیا مراد ہے؟

August 07, 2020

تفہیم المسائل

سوال: ایک حدیث میں ہے: ’’اپنے دل سے فتویٰ لو‘‘ ،اس سے کیا مراد ہے؟(قاری افتخار اللہ ،مانسہرہ)

جواب:اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر خیر وشر میں تمیز کا ملکہ پیدا کیا ہے ،اُسے انگریزی میں Conscienceاور اردو میں ضمیر کہتے ہیں ، قرآنِ کریم میں سورۃ القیامہ میں اسے ’’نَفسِ لَوَّامہ‘‘ سے تعبیر فرمایاگیا ہے،اگر انسان کا نفس اور دل گناہوں کے میل سے پاک ہے تو وہ خیر وشر میں تمیز کی کسوٹی ہے ، اسی کو عقلِ سلیم بھی کہتے ہیں، حدیثِ پاک میں ہے:

حضرت وابصہؓ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے ارادہ کیا کہ آج نیکی اور گناہ کے بارے میں سب کچھ پوچھ کر رہوں گا، اس وقت آپ کے اردگرد صحابۂ کرامؓ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی اور وہ اپنے اپنے سوالات پوچھ رہے تھے ،میں اُن کی گردنیں پھلانگ کر آگے بڑھنے لگا تو انہوں نے کہا: وابصہ! رسول اللہ ﷺ سے فاصلے سے رہو، میں نے کہا: مجھے چھوڑو،میں آپ ﷺ کے قریب جانا چاہتا ہوں ، کیونکہ لوگوں میں سے میں جن کی قربت حاصل کروں ، آپ ﷺ مجھے اُن سب کے مقابلے میں زیادہ محبوب ہیں، دریں اثناء خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: وابصہ کو چھوڑو،پھر فرمایا، وابصہ قریب آئو۔وابصہؓ بیان کرتے ہیں : پھر میں قریب ہوکر آپﷺ کے سامنے بیٹھ گیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: وابصہ! میں تمہیں بتائوں (کہ تم کیا پوچھنے آئے ہو)یا تم سوال کرو گے؟میں نے کہا: یارسول اللہﷺ! آپ ہی بتادیجیے ،تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھنے آئے ہو، میں نے عرض کیا: جی ہاں! (ایسا ہی ہے)، حضوراکرم ﷺ نے اپنی انگلیوں کو جمع کر کے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: وابصہ! اپنے دل سے پوچھو، تین مرتبہ فرمایا: اپنے جی سے پوچھا ،(پھر فرمایا:)نیکی وہ ہے جس پر تمہیں قلبی اطمینان ہو اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تمہیں اس کے بارے میں تردُّد ہو(کہ کروں یا نہ کروں)، خواہ لوگ تمہیں (کچھ بھی ) فتویٰ دیتے پھریں، (مسند احمد:18006)‘‘۔

ایک اور حدیث میںہے:’’ابوامامہؓ بیان کرتے ہیں:ایک شخص نے خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ سے پوچھا: گناہ کیا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی چیز تمہارے دل میں کھٹکے تو اُسے چھوڑ دو، اس نے پھر پوچھا: ایمان کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: جب تمہاری برائی تمہیں بری لگے اور تمہاری نیکی سے تمہیں روحانی سرور نصیب ہو، تو (سمجھ لوکہ) تم مومن ہو، (مسند احمد: 22195)‘‘۔

غرض انسان کو اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے ، اپنے ضمیر کو ٹٹولتے رہنا چاہیے، ضمیر اللہ کی وہ نعمت ہے کہ جو انسان کو برائی پر ٹوکتا ہے ،گناہ پر دل میں چُبھن اور کُڑھن محسوس ہوتی ہے ،یعنی گناہ کی طرف قدم بڑھاتے وقت یا گناہ میں مبتلا ہوتے وقت انسانی ضمیر کسی نہ کسی مرحلے پر انسان کو ضرور متنبہ کرتا ہے، خبردار کرتا ہے اور ٹوکتا ہے، اب یہ خود انسان پر منحصرہے کہ اس کی آواز پر کان دھرتا ہے یا نہیں۔