بیٹیاں ہوں تو مائوں کو نیند نہیں آتی

August 07, 2020

ریشا عتاب

بیٹیاں ہوں تو ماؤں کو نیند نہیں آتی

راتیں کبھی ان کے ساتھ خوش گپیوں میں بیت جاتی ہیں

تو کبھی آدھی رات کو ، پانی کی بوتلیں گرم کرتے

کبھی دار چینی اور سونف کے قہوے بناتے

کبھی سر میں تیل ڈالتے تو

کبھی پڑھتی بیٹی کے لیے دودھ گرم کرتے

بیٹیاں ہوں تو ماؤں کو نیند نہیں آتی

آنگن میں ٹہلیاں کرتے ، کبھی سہیلیوں سے لڑتے

ماؤں کی نیندیں لوٹ لیتی ہیں

رنگ برنگے فراکوں میں لپٹی گڑیا ماں کے برابر آ جاتی ہے

اور ماں ہر بار درزی سے قمیص کی لمبائی کم ہے کا شکوا کرتی ہے

پرانی ساڑھیاں لمبے فراک بن جاتے ہیں

گوٹے کنارے والے بیس سال پرانے دوپٹّے

پھر سے اوڑھے جاتے ہیں

بیٹیاں ہوں تو ماؤں کو نیند نہیں آتی

کونوں کھدروں میں سرگوشیاں بڑھ جاتی ہیں

ماں کی لال لپ اسٹک اور کاجل دنوں میں ختم ہو جاتا ہے

اب ماں کو ہر بار دوکاندار سے کچھ خریدتے پسینہ آنے لگتا ہے

درزی کو ناپ سمجھاتے آنکھیں چرانی پڑتی ہیں

شوہر کو اضافی خرچے پر راضی کرنا پڑتا ہے

تنکہ تنکہ جسے کوئی چڑیا آشیانہ بناتی ہے

بیٹیوں کی مائیں جہیز بناتی ہیں

بیٹیاں ہوں تو ماؤں کو نیند نہیں آتی

اپنی دوائی پھر لے لوں گی کہہ کر کمیٹیاں ڈالتی ہیں

شوہر کے طعنوں کو کوئی بات نہیں کہہ کر ٹالتی ہیں

دیوار سے اونچی ہوتی بیلوں جیسی بیٹیوں کو

کوئی سایہ دار شجر مل جائے

بس راتیں وظیفوں میں کاٹتی ہیں

اپنی جوانی کے سارے پھول نچوڑ کر

اپنی بیٹی کو عطر بناتی ہیں

پر یہ بیٹیاں بڑی ظالم ہوتی ہیں

جب پیدا ہوں تو ماؤں کو نیند نہیں آتی

جب رخصت ہوں تو

ماؤں کو سانس نہیں آتی.....