بچوں کا رویّہ مثبت بنانے کیلئے کردار ادا کریں

August 09, 2020

مناسب معاشرتی اور جذباتی صلاحیتوں کو سیکھنے کے لئے کچھ بچوں کو ان کے چیلنجنگ روّیہ کی وجہ سے منظم اور مرتکز ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان مہارتوں میں جذبات کی نشاندہی اور اس کا اظہار کرنا، تعاون پر مبنی ردعمل دینا، بات چیت کا آغاز اور تسلسل دکھانا، مایوسی اور غصے سے نمٹنا اور دوستی کرنا شامل ہیں۔

چیلنج کرنے والے روّیے میں شامل ہے وہ طرز عمل یا روّیہ جو ہم عمر افراد اور بڑوں کے ساتھ معاشرتی تعامل میں سیکھنے یا مشغولیت میں مداخلت کرتا ہے۔ مثال کے طور پر چڑچڑاپن ، جسمانی اور زبانی جارحیت، خلل ڈالنے والی آواز اور ہاتھ پیر چلانا، چیزوں کی توڑ پھوڑ، خود کو زخمی کرنا، حکم نہ ماننا اورذمہ داریوںسے فرار وغیرہ۔

مثبت رویّے کی معاونت (Positive Behavior Support) : یہ ایک بچے کےخراب رویّے کا تجزیہ کرنے اور اسے تبدیل کرنے کا نقطہ نظر ہے۔ یہ عمل اس بات کی سمجھ سے شروع ہوتا ہے کہ ایک بچہ کیوں ناپسندیدہ سلوک روا رکھتا ہے جیسے کہ جارحیت، بری عادات ، املاک کی تباہی اور / یا سماجی تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثبت رویّے کی معاونت کرنے والی ٹیم مختلف تجزیوں کے بعد بچوں کو نئی مہارتیں سکھاتے ہوئے مسائل کو روکنے کے لئے حکمت عملی کا انتخاب کرتی ہے۔ اس کےمطابق منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عمل درآمد کے لئے درج ذیل چھ اقدامات ضروری ہیں:

٭ طرز عمل سے متعلق امدادی ٹیم کی تشکیل، جس میں بچے کی فیملی کے افراد اور بچپن کے ابتدائی دوست ہوں۔

٭ بچےکی ذات پر مبنی منصوبہ بندی یعنی فیصلہ سازی پر مبنی طریقہ کار جو مختصر اور طویل مدتی اہداف کے حصول پر مرکوز ہو۔

٭ فنکشنل طرز عمل کی تشخیص(Functional Behavioral Assessment)، یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ چیلنج کرنے والے بچے کے رویے کو کس چیز نے متحرک اور برقرار رکھا ہے۔

٭ تصوراتی پیش رفت، یہ فنکشنل طرز عمل کی تشخیص کا خلاصہ کرتی ہے اور چیلنجنگ رویے کے مقصد کے بارے میں ایک باخبر اندازہ لگانے میں مدد کرتی ہے۔

٭ رویّہ کی معاونت کرنے والی منصوبہ بندی (Behavior Support Plan) میں بچوں کے خراب رویوں کی روک تھام کی حکمت عملی ، متبادل مہارتیں، چیلنجنگ روّیوں پر ردعمل اور طرزِ زندگی کے نتائج کے اہداف شامل ہیں۔

٭ نگرانی کے نتائج میں چیلنج کرنے والے بچے کے طرز عمل میں تبدیلی، نئی مہارتوں کےحصول اور نئی طرز زندگی کے نتائج کو پرکھا جاتاہے ۔

یہ سب اقدامات اگر اس کی روح کے مطابق ہوجائیں تو بچے کو ہم منفی سے مثبت روّیوں کی طرف لاسکتے ہیں۔

اب آتے ہیں گھر سے باہر بچے کے روّیے کی طرف خاص طور پر اس کے اسکول کی بات کرتے ہیں، جہاں اس کے والدین تو نہیں البتہ روحانی والدین(اساتذہ) موجود ہوتے ہیں۔ اگر ایسے بچے تعداد میں زیادہ ہوں (جنہیں ہم بیک بینچرز بھی کہتے ہیں ) تو سب کچھ اساتذہ کے ہاتھ میں ہوتاہے، جنہیں کمرہ جماعت کو قابو کرنا ہوتا ہے اور وہ بھی اپنی فہم و دانشمند ی کے مطابق کچھ اس طرح کہ بچوںکی عزّتِ نفس متاثر نہ ہو۔ اکثر یہ کہا جاتاہے کہ اچھے استاد کے ہاتھ میں عام کتاب بھی خاص بن جاتی ہے اور اچھے استاد کی عدم موجودگی میں خاص کتاب بھی عام بن جاتی ہے۔

یہی صورتحال بچوں کے ساتھ بھی درپیش ہے، اگر ایک اچھا استاد ہر بچے کے ساتھ اس کے مزاج کے مطابق سلوک روارکھے تو نتائج بہتر آنے کی امید ہوتی ہے۔ معاملہ فہم اساتذہ چیلنجنگ رویوں کے حامل بچوں کو باہمی میل جو ل اور عزت واحترام کے اصول پر لے آتے ہیں، جس سے اساتذہ اور طلبا کے درمیان ایک ضابطہ اخلاق طے ہو جاتاہے۔ نتیجتاً مشاورت، تبادلہ خیال اور ٹیم ورک کے ذریعے مسائل پر قابو پانے کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔

چیلنجنگ بچوں کیلئے حوصلہ افزائی اور ترغیب کی تکنیک اپنا لی جائے تو بچوں کے رویوں کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی خاص کوشش نہیں کرنی پڑتی اور جارحانہ مزاج بچے بھی اچھے رویّے اپنانے کی جانب مائل ہونے لگتے ہیں۔ عزت نفس کے ساتھ ساتھ نظم وضبط کی پابندی بھی رویّے بہتر کرنے میں اہم کردار اداکرتی ہے۔ اگر کوئی طالب علم اپنا ہوم ورک وقت پر مکمل نہیں کرپاتا تو اسے پوری کلاس کے سامنے ڈانٹنے یا درشت روّیہ اپنانے کے بجائے اس سے ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ پوچھی جائے۔ وہ جو بھی وجہ بتائےاگر اس کو دور کرنے میں استاد اپنا کردار ادا کرسکتاہے تو اسے ضرور کرنا چاہیے۔ اگر اسائنمنٹ نہ کرنے کی وجہ طالب علم کے گھریلو مسائل ہیں تو اس کے والدین کےساتھ مل کر کوئی حل نکالا جائے تا کہ طالب علم آئندہ وقت پر اپنا ہوم ورک کرے اور فخر سے نوٹ بک اپنے ٹیچر کے پاس جمع کروائے۔

اسی طرح اساتذہ کو کلاس کے کم فہم بچوں کے اسائنمنٹس پر خصوصی توجہ دینی چاہئے اور انہیں ترغیب دینی چاہئے کہ وہ یہ کام اپنے بل بوتے پر کریں، اگر وہ اسائنمنٹس بروقت مکمل کرکے لائیں گے تو انہیں انعام سے بھی نوازا جائے گا۔ کسی شرارتی یا جارحانہ مزاج بچے کے رویے کو کنٹرول کرنے میں حوصلہ افزائی اور ترغیب کی تکنیک کافی کارگر ثابت ہوتی ہے اور بچے کو بھی ہر وقت احساس رہتا ہے کہ وہ کوئی ایسی بات یا کام ہرگز نہ کرے کہ جس سے اسے ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑے یا اس کے ٹیچر کو غصہ آجائے۔ استاد اور طلبا کے مابین احترام اور عزت نفس کا یہ مثبت تعلق بڑے سے بڑے بگڑے بچے کو راہ راست پر لے آتا ہے۔