یوم استحصال

August 11, 2020

عرض تمنا … خالد محمود جونوی


کہنے کوتو گزشتہ سال ہمارے لئے پلک جھپکتے ہی گزر گیا مگر کوئی ان کشمیریوں سے پوچھے جن کا ایک ایک لمحہ ظلم وجبر کے سائے میں گزرا۔ گزشتہ سال بھارت نے جب جموں وکشمیر کی حیثیت کو ختم کیا تو صرف ریاست کی وحدت ہی نہیں بلکہ تاریخ کے چہرے پربھی ایک کڑا وار تھا۔جہاں آئے روز مظالم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے مگر لگتا ہے کہ جب سے کشمیریوں نے اس کے خلا ف احتجاج شروع کیا ہے کوئی حربہ اورستم ایسا نہیں جو ان پر نہیں آزمایا گیا۔ہم اگرچہ دفاعی تجزیہ نگار نہیں لیکن اتنا پتہ ضرور ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلےکا حل نہیں اور خدانخواستہ اگر ایسی کوئی بھی مشق کی گئی تو پاکستان کے پاس کھونے کوکم اور بھارت کا نقصان زیادہ ہوگا اور پھر یہی جنگ صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہے گی بلکہ سارا خطہ اس سے متاثر ہوگا ایسے میں سفارت کاری ہی ایک ایسا مؤثر ہتھیار ثابت ہو سکتی تھی جس پر ہم توجہ دے کر اور مناسب ہوم ورک مکمل کر کے دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کراسکتے تھے یہاں بھی مشکلات یہ آڑے آئیں کہ دنیا اپنے اقتصادی ومعاشی معاملات کے باعث بھارت کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے اور عالمی سطح پر غریب ومالدار پاکستان کا کوئی ہمدرد اور خیرخواہ نہیں۔یہ تو بین الاقوامی معاملات تھے جن پر ہمارا اتنا اثر ورسوخ اور بس نہیں چلا لیکن اتنا تو ہم ضرور کر سکتے تھے کہ ملک میں ایک ایسی فضا قائم کرتے تاکہ جس سے کشمیریوں کے زخموں پر کسی حد تک مرہم لگتا۔ عوام کی محبت سر آنکھوں پر جنہوں نے ہمیشہ اس تحریک کی پشت پناہی کی لیکن حکمرانوں کے رویوں سے کہیں سے بھی ظاہر نہیں ہو رہا کہ کشمیر بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہے اور نہ ہی وہ اپنے کردار وعمل سے یہ ثابت کر سکتے وہ اس معاملے میں یکسو اور سنجیدہ ہیں ؎۔۔دکھا دکھا کر محبت، جتا جتا کے خلوص۔۔۔بہت قریب سے لوٹا ہے دوستوں نے مجھے۔۔۔۔آج جب یوم استحصال منایاجا رہا ہے تو لگتا یہی ہے کہ مظلوم ومحکوم کشمیریوں کی تاریخ میں ایک اور سیاہ دن کا اضافہ ہورہا ہے اس سلسلےکے سارے جوش وجذبے اللہ سلامت رکھے لیکن کاش اس دن کو یوم استحصال کے بجائے ہم کشمیری یوم احتساب کے طور پر منائیں۔ زیادہ دور نہ جائیں لیکن گزشتہ سال کی کارکردگی سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں کہ دوسروں سے گلے شکوے کرنے کی بجائے ہم خود اس تحریک سے کتنےمخلص رہے۔ جہاں تک آزاد جموں وکشمیر کی قیادت کا تعلق ہے کچھ لوگ اپنی باری کے منتظر ظالم کے ظلم کی تفاصل تو بیان کرتے ہیں لیکن ان کے پاس آزادی کا کوئی روڈ میپ یا غاصب کے ظلم وستم سے بچانے کا کوئی وژن یا ادارک نہیں ہے۔جب ایسے بونے ہمیں آداب غلامی سمجھاتے ہیں تو اپنی قسمت پر رونا آتا ہے کہ کیسے کیسے سیاسی مداری ہمارے حصے میں آئے۔ برطانیہ اور یورپ میں کشمیری ڈسفرأ کشمیر کے سلسلے میں ایک بڑی مؤثر اور توانا آواز ہوا کرتی تھی ہائے یہ جملے بھی ایک قصہ ماضی بن گئے ہیں۔ کشمیر جہاں کشمیر کم اوریہ زیادہ اجاگر ہوتے ہیں جب ان ساری باتوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ یہی وہ ہماری قباحتیں ہیں جن کے باعث لاکھوں شہیدوں کی قربانیوں اور جینوئن تحریک ہونے کے باوجود یہ ایک قومی تحریک کیوں نہ بن سکی ؎۔۔۔یہ بھی دل دکھا گئے وہ بھی دل دکھا گئےذکر دشمنوں کا تھاکہ دوست یاد آگئے۔۔۔کوئی ایک نوحہ ہو تو بندہ پڑھے جب قدم قدم پر ایسی افسوسناک صورتحال دیکھنے کو ملے تو بندہ کس کس کو اس کا دوش دے۔ حکومت کے بے سروپا اقدامات پر ہی ایک نظر ڈال لیں توہمیں نہیں امید کہ اس سے تحریک آزادی کو کوئی مدد ملے گی ۔بغیر کسی مشاورت کے ریاست جموں وکشمیر کے نام سے منسوب ایک شاہراہ کو سرینگر شاہراہ کا نام دیکر ایک ریاست سےمحض ایک شہر تک محدود کردینا نہ جانے کس ’’روشن دماغ‘‘ کی تخلیق ہے اور ریاست کے حساس پہلوئوں کو نظرانداز کر کے اس کے حصے بخرے کو ایک نیا نقشہ منظر عام پر لے آنا کسی بھی طرح کی یہ دانشمندانہ سوچ وفکر کی عکاسی نہیں کرتی۔لہٰذا یوم استحصال ضرور منایئے بلکہ ضروری منایئے لیکن یہ خاطر جمع رکھئے کہ جس جس نے بھی استحصال کیا تاریخ اور وقت اسے بے نقاب ضرور کریں گے۔