داخلی و بیرونی صورتحال!

August 13, 2020

وطن عزیز کو جن داخلی و بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے وہ ہر سطح پر ہر اعتبار سے چوکنا رہنے کا تقاضا کرتے ہیں اور یہ بات قابلِ اطمینان ہے کہ ہمارے تمام ادارے اس باب میں مستعد و تیار ہیں۔ ہماری مسلح افواج اپنی صلاحیت و کارکردگی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہیں اور انہوں نے دشمن قوتوں کی طرف سے سرزمین پاک میں داخل کئے اور ان کے ذریعے بھرتی کئے گئے ایجنٹوں اور دہشت گردوں کا آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے ذریعے صفایا کرکے دنیا کے سامنے مہارت و صلاحیت کی قابلِ قدر مثال قائم کی ہے ۔ پچھلے مہینوں کے دوران کورونا وبا، سیلاب اور ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے سول انتظامیہ سے تعاون کرتے ہوئے عساکرِ پاکستان نے اس بار بھی جو کردار ادا کیا وہ قابل تعریف ہے۔ وطن عزیز کو قومی و علاقائی سلامتی، بھارت کے معاندانہ طرزِ عمل، لائن آف کنٹرول، پاک افغان سرحد کی صورت حال اور مقبوضہ کشمیر میں 80لاکھ افراد پر ڈھائے جانے والے مظالم سمیت جن سنگین مسائل کا سامنا ہے ان سے قومی زندگی کے کسی بھی حلقے کے لئے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ لہٰذا قومی اداروں بالخصوص سیاسی و عسکری قیادتوں کے درمیان اپنی اپنی سطح پر بھی اور مشترکہ طور پر بھی مشاورت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ منگل کے روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقدہ اجلاس میں سول انتظامیہ سے تعاون اور پاک فوج کی پیشہ ورانہ تیاریوں پر اطمینان کا اظہار جہاں عام پاکستانیوں کے لئے حوصلہ افزا ہے وہاں اس اجلاس میں محرم کے دوران چوکس رہتے ہوئے عوام کی سیکورٹی کے اقدامات، خاص طور پر کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کی جو ضرورت اجاگر کی گئی اسے ہر سطح پر پیش نظر رکھا جانا اہم ضرورت ہے۔ کورونا کے موثر تریاق کی تیاری کی کوششیں متعدد ممالک میں جاری ہیں مگر تاحال وہ منزل نہیں آئی جب کسی دوا کو پورے یقین کے ساتھ کورونا کا تریاق کہا جا سکے اس لئے جب تک دنیا میں محض ایک بھی کورونا مریض موجود رہے گا احتیاطی تدابیر ملحوظ نہ رکھنے صورت میں یہ خدشہ برقرار رہے گا کہ اس کی وجہ سے یہ مرض منتقل اور پھیل کر ملکوں، خطوں اور کرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ معاشرتی ضرورت یہ ہے کہ حصول خوراک اور دیگر ضروریات کیلئے معاشی سرگرمیوں کا پہیہ جاری رکھا جائے اس لئے اسمارٹ لاک ڈائون سے مائیکرو لاک ڈائون کی طرف جاتے ہوئے ہمیں احتیاط کے پہلوئوں کو کسی طور نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق کور کمانڈرز کانفرنس میں جیو اسٹرٹیجک اور قومی و علاقائی سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جس میں پاک سرحد اور اندرونی سلامتی کی صورتحال بھی شامل ہے۔ افغان مفاہمتی عمل پر پیش رفت کو سراہا گیا اور بین الافغان مذاکرات کے جلد انعقاد کی امید ظاہر کی گئی۔ درحقیقت امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں پاکستان کی کوششوں کا بڑا دخل ہے اور چونکہ افغان لویا جرگہ کی سفارش پر پیر کے روز افغان صدر اشرف غنی اپنی حکومت کی طرف سے خطرناک سمجھے جانے والے 400طالبان کی رہائی کا حکم جاری کر چکے ہیں اس لئے بظاہر بین الافغان ڈائیلاگ شروع ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی ہے تاہم پاک افغان سرحد پر پچھلے ہفتوں میں رونما ہونے والی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض قوتیں افغانستان میں امن و استحکام اور اسلام آباد و کابل کے درمیان بہترین تعاون دیکھنا نہیں چاہتیں۔ کشمیر کی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں میں اضافے سمیت کئی دیگر امور بھی توجہ طلب ہیں۔ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادتیں ان معاملوں پر چوکنا و محتاط ہیں اور توقع کی جانی چاہئے کہ حالات کو بتدریج بہتری کی طرف لے جانے کی کوششیں موثر طور پر کامیابی سے ہمکنار ہوں گی۔