1957-1947۔ خوبیاں ۔ خامیاں

August 13, 2020

آپ سب کو آپ کے اہلِ خانہ کو یوم آزادی بہت بہت مبارک ہو۔ لاکھ ابتلائیں ہوں۔ کتنے ہی بحران ہوں۔ ایک آزاد وطن میں رہنا اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ 73سال بعد ہمیں جہاں یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں ہمیں ہونا چاہئے تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد کریں کہ 73سال پہلے ان ہی دنوں میں ہمارے بزرگ کس کیفیت سے گزر رہے تھے۔ وہ بھی جو پاکستان میں پہلے سے صدیوں سے رہ رہے تھے۔

وہ بھی جو اپنےصدیوں کے گھر بار چھوڑ کر ایک نئی مملکت کو اپنی خدمات اور توانائیاں پیش کرنے آرہے تھے۔ ہندو کے جس غلبے سے نفرت کے تحت ہم نے الگ وطن کیلئے جدو جہد کی۔ وہ نفرت اب ایک دوسرے کے خلاف کیوں ہو گئی ہے۔ انگریز کے جس جبر اور نا انصافیوں کیخلاف ہم تحریک چلارہے تھے۔ اب وہی جبر اور نا انصافیاں ہم چھوٹی قومیتوں۔ صوبوں کے خلاف کیوں روا رکھ رہے ہیں۔ پنجاب ۔سندھ۔ کے پی ۔ بلوچستان۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں و کشمیر میں غریب اکثریت اب بھی اپنے آپ کو محکوم کیوں خیال کرتی ہے۔

پہلے ہم مسلمان اور پاکستانی ہونے پر فخر کرتے تھے۔ اب یہ فخر پنجابی۔ سرائیکی۔ سندھی۔ مہاجر۔ پشتون۔ بلوچ۔ کشمیری۔ گلگتی ہونے پر کیوں کرنا پڑتا ہے۔

میں ان سینکڑوں کرم فرمائوں کے احسان تلے دب گیا ہوں۔ جنہوں نے ’مہاجر کیمپ یاد آرہے ہیں‘ پر تبصرے کیے۔ رہنمائی کی۔ کتابوں کے نام بتائے۔ اس سارے تبادلۂ خیال میں میرے اس خدشے کی تصدیق ہوتی رہی کہ مہاجر کیمپوں پر حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی باقاعدہ مستند دستاویز نہیں ہیں۔ نہ ہی کسی یونیورسٹی نے اس پر ایسا مبسوط کام کیا ہے۔ جس میں مطلوبہ اعداد و شُمار ہوں۔

عرصے کا تعین ہو۔ پاکستان کی مادر جماعت مسلم لیگ کی طرف سے بھی ایسی کوئی تصنیف سامنے نہیں آئی۔ 1947سے 1957تک کے ابتدائی سال بہت اہم اور حساس ہیں۔ مغربی اور مشرقی پاکستان میں قربانیاں بھی جاری تھیں۔ محبتیں اور تعاون بھی۔

یہ پہلو بھی تحقیق طلب ہے کہ مہاجرین کی ٹرینیں ان کے پیشوں کے اعتبار سے ایسے شہروں میں روکی گئیں ۔ جہاں اس پیشے سے متعلقہ کارخانے تھے یا امکانات تھے۔ کیا اس منصوبے پر بھرپور عمل ہوا۔

تقسیم محفوظ دستاویزات (Partition Archives) کے حوالے سے بہت سی ایسی تنظیموں کا بہت کام ملتا ہے جو پاکستان بھارت کے بعض خاندانوں نے اپنے طور پر تشکیل دیں۔ اور اپنے طور پر متاثرین سے اور فسادات سے بچ جانے والوں سے کہانیاں سنیں اور محفوظ ہوئیں۔ پاکستان میں بھی ایک سٹیزن آرکائیو کے نوجوان ہم جیسے بہت سے عمر رسیدہ اور ازکار رفتہ پاکستانیوں سے کہانیاں سن کر محفوظ کررہے ہیں۔

ان دستاویزات سے یہ المناک شہادتیں بھی ملتی ہیں کہ ان مہاجر کیمپوں میں تھکن۔ ضعف۔ متعدی بیماریوں سے لوگ کس طرح دم توڑتے رہے۔ طبی امداد سب کو نہ مل سکی۔ اسپتال کم پڑ گئے تھے۔

ان کیمپوں کی دھندلی دھندلی یادیںمیری بھی ہیں۔ لیکن پھر اکیسویں صدی میں، میں نے کے پی میں وہ مہاجر کیمپ دیکھے جو فاٹا میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے دوران ان علاقوں سے بے دخل کیے جانے والوں کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ اس وقت تو پاکستان کی ریاست باقاعدہ مستحکم ہوچکی تھی۔ غیر ملکی امداد بھی تھی۔

اس کے باوجود ان کیمپوں کے مکینوں کو بے حساب شکایات تھیں۔ آپ 1947کے کیمپوں کا تصور کیجئے۔ بھارت کو تو یہ فوقیت حاصل تھی کہ وہاں حکومتی ڈھانچہ پہلے سے مستحکم تھا۔ سیکرٹریٹ ۔ پولیس ۔ فوج۔ پاکستان تو نیا نیا بن رہا تھا۔ سب کچھ ابتدائی مرحلوں میں اور ہنگامی بنیادوں پر تھا۔ کیمپوں کے اندر والے بھی سرکاری محلات میں مقیم سب ہی اپنی بقا کے لیے جدوجہد کررہے تھے۔

بھارت سرکار کی ہر ممکن کوشش تھی کہ یہ نیا ملک جلد از جلد زمیں بوس ہوجائے۔ نیشنل آرکائیو کی دستاویزات میں برطانوی حکومت کا 20اکتوبر 1947 کا خط D0 121/69 میری نظر سے گزرا ہے۔ ’’اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ تلخیاں اور کشاکش ختم بھی ہوجائے لیکن بلا شک و شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں ہرموڑ اور ہر لمحے بھارتی حکومت کی پالیسی یہ ہوگی کہ رکاوٹیں ڈال کر یا اقدامات کے ذریعے پاکستان کی ایک علیحدہ وحدت کو مستحکم ہونے میں ہر ممکن مشکلات پیدا کی جائیں۔

اس امید میں کہ یہ نئی ریاست ایک محدود وقت میں دم توڑ دے گی۔‘‘ برطانوی حکومت نے اپنی بے بسی کا اظہار بھی کیا کہ اس وقت ہماری طرف سے پاکستان کی کسی مدد پر بھارت جانبداری کا الزام عائد کرسکتا ہے۔ یہ خفیہ دستاویز دولت مشترکہ کے تمام ممالک کو ارسال کی گئی۔

ان کیمپوں میں جن مسیحی مشنریوں نے کام کیا ان کی یادداشتوں سے بھی حالات کا علم ہوتا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ کے کیمپ میں 600افراد روزانہ اور 80ہزار کے کیمپ میں 200روزانہ موت کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک بلڈوزر انجینئر کا بیان ہے کہ اجتماعی قبریں تیار کی جارہی ہیں جو میتوں کی منتظر رہتی ہیں۔ پاکستان کی ایک دستاویز کا ذکر ملا ہے۔’’A review of first five years‘‘۔ اس میں یقیناً کچھ کوائف ہوں گے۔

یورپی استعمار۔ امریکی سامراج۔ جنوبی ایشیا میں بھارت نے ایسی روایات قائم کی ہیں کہ اب ہجرتیں معمول بن گئی ہیں۔ ڈھاکہ میں محصور پاکستانی۔ 1947کا ہی ایک تسلسل ہیں۔ غیر ملکی نشریاتی اداروں۔ ناشرین اور یونیورسٹیوں میں برصغیر کی اس عظیم ہجرت پر بہت کام ہوا ہے۔

حکومت ہند کی دستاویزات بھی موجود ہیں۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ نیشنل ڈاکومنٹ سینٹر میں اپنی حکومت کی کتنی دستاویزات محفوظ ہیں۔ میں ممنون ہوں۔ شاہد رشید صاحب کا انتہائی اہم کتابیں فوری طور پر عنایت کی ہیں۔

ضرورت یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن یونیورسٹیوں کو باضابطہ یہ ذمہ داری سونپے کہ پاکستان کے ابتدائی دس برسوں یعنی 1947سے 1957تک کے بحرانوں بھرے دنوں پر تحقیق ہو۔ ملکی اور غیرملکی دستاویزات کے حوالے سے۔ جب اداروں کی بنیادیں رکھی جارہی تھیں۔ جب ایک نئی ریاست کا ڈھانچہ تعمیر کیا جارہا تھا۔ ان دنوں میں جو خوبیاں اور خامیاں تھیں ان کا غیر جانبدارانہ اور معروضی تجزیہ کیا جائے۔

ہماری نسل تو متعصب ہے۔ جانبدار ہے۔ اب جو نسل یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے جس کا ذہن آفاقی ہے۔ وہاں عصبیتیں نہیں ہیں۔ وہ خاص طور پر مہاجر کیمپوں کے سلسلے میں تحقیق کریں۔ ان 10برسوں کا ہر پہلو سے تحقیقی تجزیہ کیا جائے۔