جشن آزادی مبارک !

August 13, 2020

14اگست دنیا کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے، تہتر برس پہلے 14اگست 1947ء کو قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں انسانی تاریخ کی سب سے پرامن جدوجہد آزادی جمہوری انداز میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ لاہور میں 23مارچ 1940ء کو جب مسلم لیگ کا تاریخی جلسہ ہوا تو ہر جانب سبز ہلالی پرچم کی بہار عروج پر تھی، دو قومی نظریے کی بنیاد پر مطالبہ پاکستان کی حمایت کرنے والوں میں غیرمسلموں کی خاصی بڑی تعداد بھی شامل تھی جو اپنے محبوب قائد اعظم کی پکار پر لبیک کہنے لاہور میں جمع تھی، اس حوالے سے کچھ نام ہماری تاریخ کا انمٹ حصہ ہیں، عظیم ہندو لیڈر جوگندرناتھ منڈل قائداعظم کی آخری سانسوں تک ان کے وفادار رہے، مسلم لیگ کا سبز ہلالی پرچم اٹھائے اپنی کمیونٹی کو پاکستان کی حمایت کیلئے قائل کرنے والے جوگندرناتھ منڈل پرْامید تھے کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ملک میں تمام شہریوں کو برابری کی سطح پر یکساں شہری حقوق حاصل ہونگے۔ اسی طرح برصغیر کی کرسچیئن کمیونٹی بھی قائداعظم کے مطالبہ پاکستان کی حامی تھی،قیام پاکستان کے وقت پنجاب اسمبلی کے کرسچیئن اسپیکر ایس پی سنگھا کے فیصلہ کْن ووٹ کی بدولت صوبہ پنجاب پاکستان کا حصہ بنا، پرچم کسی بھی قوم کی شناخت ہوتا ہے اور زندہ قومیں اپنے پرچم کی سربلندی کیلئے جان کی بازی لگادیتی ہیں۔ پاکستان کاقومی پرچم آزادی سے فقط چند روز قبل آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں قائداعظم کے پاس منظوری کیلئے ایسے وقت پیش کیا گیا جب انگریز سامراج کی تقسیم کرو اور حکومت کرو پالیسی کی بناء پر برصغیر کے کچھ شدت پسند عناصر مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے تھے، ایسے نازک موقع پر قائداعظم نے گیارہ اگست کی اپنی شہرہ آفاق تقریر میں نوزائیدہ مملکت کے باسیوں کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ صرف اور صرف پاکستانی ہوں گے، ان کے جان و مال اور عزت کی حفاظت ریاست کرے گی اور ریاست کو کسی شہری کی مذہبی وابستگی سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ قائداعظم کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے پاک سرزمین میں بسنے والے غیرمسلموں نے پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو اپنالیا، آج بھی محب وطن پاکستانی ہندوکمیونٹی کیلئے پاکستان دھرتی ماتا کا درجہ رکھتا ہے۔عالمی سطح پر ایک اچھے پرچم کے ڈیزائن کیلئے جو اصول وضع کئے گئے ہیں ان پر پاکستانی پرچم پورا اترتا ہے۔ تاہم ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ قائداعظم کی حصول آزادی کے فقط ایک برس بعد وفات کی وجہ سے پاکستان اپنے مقصد سے دور ہوتا چلا گیا، قائداعظم نے قومی پرچم کیلئے صرف سبز رنگ پسند فرمایا تھا تاکہ اکثریت اور اقلیت کی تفریق سے بالاتر ہوکر قومی پرچم میں صرف پاکستانیوں کی نمائندگی ہو،ہم نے بعد ازاں سفید رنگ کا اضافہ کرکے قومی پرچم کو بھی اکثریت اور اقلیت میں تقسیم کردیا جبکہ میری نظر میں سفید رنگ امن کی نشانی ہے۔ اسی طرح کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ پاکستان کے سرکاری لوگو، قومی اسمبلی، پاک فوج، ایف آئی اے، سپریم کورٹ سمیت مختلف سرکاری اداروں کے لوگو پر چاند ستارہ قومی پرچم کے برعکس بائیں جانب کیوں ہے ؟ اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ قائد اعظم کے منظورکردہ قومی پرچم میں چاند ستارہ بائیں جانب تھا جسے بعد میں دائیں جانب کردیا گیا۔ ستاروں کی چال پر نظر رکھنے والے ماہر فلکیات کا کہنا ہے کہ بائیں جانب والا چاند روزانہ اپنے سائز میں اضافہ کرتے ہوئے مکمل چاند میں ڈھل جاتا ہے جبکہ دائیں جانب والا چاند روزبروز کم ہوتے ہوتے زوال پذیر ہوجاتا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی شخص یا قوم کے نام کی طرح قومی پرچم بھی شخصیت اور کردار پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے، اسلئے ہمیں اس حوالے سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ترقی کرنے والے چاند کوکیوں نظرانداز کردیا ہے۔ جب چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے روبرو پاکستانی غیرمسلم اقلیتوں کے تحفظ کا معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے مجھے حقائق سے آگاہ کرنے کیلئے طلب کیا، میں نے انہیں آگاہ کیا کہ بطور محب وطن پاکستان بھر میں بسنے والے غیرمسلم پاکستان کو اپنی دھرتی ماتا سمجھتے ہیں، چند شدت پسند ہر ملک اور معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو کمزور اقلیتوں کے خلاف نفرتوں کا پرچار کرتے ہیں، ہم اپنے آپ کو پاکستان میں محفوظ سمجھتے ہیں لیکن تحریک پاکستان کی کامیابی اور پاکستان کی ترقی و سربلندی کیلئے غیرمسلم پاکستانیوں کے کردار کا بھی اعتراف کیا جانا چاہئے، معزز چیف جسٹس نے میرے موقف سے اتفاق کیا کہ ہمارے نصاب تعلیم کو نفرت آمیز مواد سے پاک ہونا چاہئے، تاہم افسوس کا مقام ہے کہ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کو 6سال گزر جانے کے باوجود ہمارا نصاب تعلیم حقائق کے منافی مواد سے پاک نہیں ہوسکا ہے۔اسی طرح آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم کے مابین لیاقت نہرو سمجھوتے میں اتفاق ہواتھا کہ قومی متروکہ وقف املاک کی سربراہی مقامی اقلیتی شہری کو سونپی جائے گی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثارنے میری نشاندہی پرواضح احکامات بھی جاری کئے لیکن افسوس، ابھی تک قومی متروکہ وقف املاک بورڈ کسی قابل ہندو پاکستانی شہری کی سربراہی سے محروم ہے۔ ہر سال 14اگست کو پاکستان میں ہر طرف سبز ہلالی پرچموں کی بہاردیکھ کر مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے، میری یہ دلی خواہش ہے کہ ہمارا سبز ہلالی پرچم دنیا کے تمام پرچموں میں ہمیشہ اونچا رہے لیکن اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ اس سبز ہلالی پرچم کو لہرانے والے ہر قسم کی تفریق سے بالاتر ہوکراپنے آپ کو صرف اور صرف پاکستانی سمجھیں، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس میں نے جشن آزادی کے موقع پر پاکستان ہندوکونسل کی جانب سے پارلیمنٹ کے ایوان پر غباروں سے تیارہ کردہ قومی پرچم نصب کیا جو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ آئیں، ہم تحریک پاکستان کے عظیم کارکنوںکی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے عہد کریں کہ ہم قائداعظم کے وژن کے تحت پاکستان کی ترقی و سربلندی کیلئے سردھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ جشن ِ آزادی مبارک!