ہم دیکھیں گے

August 15, 2020

صدائے زندگی … غفار انقلابی
رٹھوعہ ہریام برج کو مکمل کرنے میں غیر معمولی تاخیر سے آزاد کشمیر اور بالخصوص میرپور ڈویژن کے سیاسی و سماجی حلقوں میں تشویش اور بے چینی بڑھ رہی ہے اور اس منصوبہ کو مکمل کرنے کےلئے سول سوسائٹی کے مختلف طبقات نے اپنی کوششیں تیزکر دی ہیں ، یوں تو سوشل میڈیا پر ایک عرصہ سے اس قومی منصوبہ کو مکمل نہ کرنے پر حکام بالا کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا مگر اب گزشتہ ایک دو ماہ سے سول سوسائٹی کے اہم حلقوں نے اس منصوبہ کو مکمل کرنے کے لئے جدوجہد کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں کئی ایک فیصلے کئے گئے ہیں، آزاد کشمیر کے وکلا اور عدلیہ کے سابق چیف جسٹس اور دیگر جسٹس صاحبان جن میں سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر سپریم کورٹ اعظم خان ، جسٹس منیر چوہدری ، جسٹس افتخار بٹ اور دیگر ریٹائرڈ جسٹس صاحبان شامل ہیں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ایک خط لکھتے ہوئے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ دس سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ قومی منصوبہ نامکمل پڑا ہے ، انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس قومی منصوبے پر فوری کام مکمل کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں ، دریں اثناء اس منصوبہ کو مکمل کرنے میں غیر ضروری تاخیر کے معاملے کو میرپور بار ایسوسی ایشن کے صدر قمر زمان مرزا اور کچھ سینئر صحافی آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں لے گئے ہیں ، آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد شیراز کیانی نے چیف سیکرٹری آزاد کشمیر ڈاکٹر شہزاد بنگش ، چیئرمین واپڈا جنرل ( ریٹائرڈ) مزمل حسین ، چیف انجینئر واپڈا عبدالمجید شیخ ، پراجیکٹ ڈائریکٹر محمد ریاض ، کمشنر امور منگلا ڈیم چوہدری رقیب خان اور منگلا ڈیم کے کلکٹر چوہدری محمد ایوب خان کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عالیہ کے فیصلے مجریہ 15 نومبر 2019 پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا ، اس اہم کیس کی سماعت ان ہی دنوں میں متوقع ہے ، آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار سکندر حیات کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کی قیادت کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہے ، چیف آرگنائزر ایک ایسے شخص کو بنایا گیا ہے جس کو کشمیر کے تاریخ جغرافیہ کا ہی علم نہیں ، رٹھوعہ ہریام پل اور کوٹلی سٹیڈیم جیسی دیگر مثالیں حکومتی کارکردگی پر بدنما داغ ثابت ہوں گی، جس کو ہمارے قائدین نہیں دھو سکیں گے ، برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر راجہ محمد یاسین جن کا تعلق میرپور سے ہے نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو خط لکھ کر ان کی توجہ رٹھوعہ ہریام پل کی عدم تکمیل پر مبذول کراتے ہوئے گزارش کی ہے کہ اس اہم منصوبے کو مکمل کرنے کے اقدامات کئے جائیں کیونکہ یہ منصوبہ ایک ملین تارکین وطن کشمیریوں اور بالخصوص میرپور کے تارکین وطن کے لئے بھی نہایت اہم ہے ، منگلا ڈیم آپ ریزنگ کے دوران متاثرین کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے پولٹیکل ایکٹیوسٹ عارف چوہدری نے رٹھوعہ ہریام پل کی عدم تکمیل پر حکام بالا پر تنقید کرتے ہوئے ذمہ داران کو باور کرایا ہے کہ پل پر بقیہ کام فوری طور مکمل نہ کرایا گیا تو عوامی تحریک شروع کی جائے گی ، انہوں نے کہا کہ تین ماہ کے اندر پل کا کام مکمل نہ کیا گیا تو حالات کی ذمہ داری حکومت وقت کی ہوگی ، ہریام پل کی رکاوٹ ایک ایسی جگہ آئی ہے جہاں ڈیم کی تعمیر سے پہلے محنت کشوں کا مشہور گاؤں چک ہریام آباد تھا ، جب منگلا ڈیم کی تعمیر ساٹھ کی دہائی میں شروع ہوئی تو اینٹی منگلا ڈیم موومنٹ اسی گاؤں سے شروع ہوئی تھی اور واپڈا نے چک ہریام گاؤں کے لہلہاتے کھیتوں سے زبردستی سڑک نکالنے کی کوشش کی جس پر مزاحمت ہوئی تھی ، پورے گاؤں کو فوج کے حوالے کر دیا گیا تھا اور پنجاب کانسٹیبلری ( PC ) اور فرنٹیئر کنسٹیبلری ( FC ) کے دستوں کو طلب کر لیا گیا تھا ، موومنٹ کو دبا نے کے لئے اسی گاؤں کے رہنما راجہ محمد نجیب اور میرپور شہر کے درجنوں رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کو جن میں عبدالخالق انصاری ، صوفی محمد زمان اور میجر ( ر) راجہ محمد عباس آف کونجڑی نواب شامل تھے کو گرفتار کرلیا گیا تھا - اسی موقع پر آزاد کشمیر کے اس وقت کے صدر سردار محمد ابراہیم نے کہا تھا کہ " منگلا ڈیم بننے کے نتیجے میں آپ کے آنسوؤں کی قیمت ادا کی جائے گی اور آپ کو مفت بجلی فراہم کی جائے گی ، ساٹھ سال بیت گئے میرپور کے لوگوں کے آنسو آج بھی بہہ رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ، میرپوریوں کو مفت بجلی تو کجا پاکستان سے بھی مہنگی بجلی ملتی ہے ، منگلا ڈیم آپ ریزنگ پراجیکٹ مشرف دور میں شروع ہوا تھا اور رٹھوعہ ہریام پل کی منظوری 2006 میں ہوئی تھی ، منصوبہ کو ریوائز کرتےہوئے 2011 میں کام شروع ہوا ، اس وقت کے وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے چک ہریام موھڑہ ڈمیال کے مقام پر اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا ، اس منصوبہ کو 2014 میں مکمل ہونا تھا ، منصوبے کا 80 فیصد کام مکمل ہے ، پل کی لمبائی 7.2 کلومیٹر بشمول دونوں طرف اپروچ روڈ مکمل ہیں مگر درمیان میں 500 فٹ کا فاصلہ ایسا ہے کہ جس میں آر سی سی پلرز بنانا ممکن نہیں ہے ، شنید ہے کہ اس مقام پر 500 فٹ لوہے کا معلق سٹرکچر نصب کیا جائے گا ، اس منصوبہ کو مکمل کرنے کےلئے دوبارہ جولائی 2017 کو ریوائز کرتے ہوئے 6480 ملین روپے کی منظوری دی گئی جس کو PC1 کے مطابق جون 2018 میں مکمل ہونا تھا مگر آج کے دن اگست 2020 تک کچھ معلوم نہیں کہ سٹیل کا 500 فٹ کا سٹرکچرکہاں بن رہا ہے ، کب تیار ہوگا اور کب نصب ہو گا ، جہاں تک اس پراجیکٹ کے فنڈز کا تعلق ہے جون 2018 تک 4117 ملین روپے ریلیز ہوچکے ہیں اور 2363 ملین روپے ابھی خرچ ہونے ہیں ، مالی سال 19 -2018 میں 1956 ملین روپے PSDP کے تحت مختص ہوئے ہیں ، جبکہ مالی سال 2019 - 2020 میں اس منصوبہ کے لئے رقم مختص ہوئی کہ نہیں اس کا جائزہ وزیراعظم آزاد کشمیر اور چیف سیکرٹری آزاد کشمیر کو لینا ہوگا - تیرہویں ترمیم کے بعد کشمیر کونسل کے سارے مالی وسائل آزاد کشمیر حکومت کے پاس آگئے ہیں - اختیارات ملے ہیں تو ان کو استعمال بھی کریں اور آگے بڑھ کر رٹھوعہ ہریام پل کی تکمیل کے لیے عملی اقدامات کریں، اس منصوبہ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کا احتساب کرنے کے بجائے اسکو مالی اور انتظامی سپورٹ فراہم کریں تاکہ تعطل کا شکار یہ قومی منصوبہ مکمل ہوسکے ، میرپور کے لوگوں کو دو بار غیر آباد کرکے ان سے جو وعدے کئے گئے وہ پورے نہیں ہوئے ، میرپور کو سوئی گیس کی فراہمی ، ذیلی کنبہ جات کے معاوضے اور ان کی آباد کاری اور رٹھوعہ ہریام پل کی تعمیر ایسے وعدے تھے جو کہ واپڈا ، وزارت امور کشمیر اور آزاد کشمیر حکومت نے پورے کرنے تھے - یہ وعدے پورے کرنے کا وقت آ گیا ، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے ۔