بارش کا پہلا قطرہ

August 23, 2020

اسماعیل میرٹھی

گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی

پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی

ہر قطرہ کے دل میں تھا یہ خطرہ

ناچیز ہوں میں غریب قطرہ

تر مجھ سے کسی کا لب نہ ہوگا

میں اور کی گوں نہ آپ جوگا

کیا کھیت کی میں بجھائوں گا پیاس

اپنا ہی کروں گا ستیاناس

خالی ہاتھوں سے کیا سخاوت

پھیکی باتوں میں کیا حلاوت

کس برتے پہ میں کروں دلیری

میں کون ہوں کیا بساط میری

ہر قطرہ کے دل میں تھا یہی غم

سرگوشیاں ہو رہی تھیں باہم

کھچڑی سی گھٹا میں پک رہی تھی

کچھ کچھ بجلی چمک رہی تھی

اک قطرہ کہ تھا بڑا دلاور

ہمت کے محیط کا شناور

فیاض و جواد و نیک نیت

بھڑکی اس کی رگ حمیت

بولا للکار کر کہا آؤ

میرے پیچھے قدم بڑھاؤ

کر گزرو جو ہو سکے کچھ احسان

ڈالو مردہ زمین میں جان

یارو! یہ ہچر مچر کہاں تک

اپنی سی کرو بنے جہاں تک

مل کر جو کرو گے جاں فشانی

میدان پہ پھیر دوگے پانی

کہتا ہوں یہ سب سے برملا میں

آتے ہو تو آؤ،لو چلا میں

یہ کہہ کے وہ ہو گیا روانہ

”دشوار ہے جی پہ کھیل جانا”

ہر چند کہ تھا وہ بے بضاعت

کی اس نے مگر بڑی شجاعت

دیکھی جرات جو اس سکھی کی

دو چار نے اور پیروی کی

پھر ایک کے بعد ایک لپکا

قطرہ قطرہ زمیں پہ ٹپکا

آخر قطروں کا بندھ گیا تار

بارش لگی ہونے موسلا دھار

پانی پانی ہوا بیاباں

سیراب ہوئے چمن خیاباں

تھی قحط سے پائمال خلقت

اس مینہ سے ہوئی نہال خلقت

جرات قطرہ کی کر گئی کام

باقی ہے جہاں میں آج تک نام

اے صاحبو! قوم کی خبر لو

قطروں کا سا اتفاق کر لو

قطروں ہی سے ہوگی نہر جاری

چل نکلیں گی کشتیاں تمہاری