حیا سے رُخ پہ تیرے آگیا گلاب کا رنگ...

August 30, 2020

تحریر: نرجس ملک

مہمان: مایا

عبایا، اسکارفس: قواریر فیشن، نورنگی، ارتفاع، میرمن۔

آرایش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی : عرفان نجمی

اسٹائلسٹ/ اہتمام: ریہام قاضی

لے آؤٹ: نوید رشید

2004ء میں فرانس میںحجاب پر پابندی کا قانون منظور ہوا اور یکم جولائی 2009ء کو ایک مصری نژاد جرمن مسلمان خاتون، مروہ الشربینی کو محض اپنی عزّت و عِصمت کی حفاظت اور حجاب اوڑھنے کی پاداش میںبَھری عدالت اور اُس کے شوہر اور ڈھائی سالہ بیٹے کے سامنے چاقو کے پے درپے 18وار کرکے شہید کیا گیا۔ جواباً عالمی اسلامی تحریکوں کے ایک اجتماع میں امّتِ مسلمہ کے جیّد عالمِ دین، علّامہ یوسف القرضاوی نے ہر سال دنیا بھر میں 4 ستمبر کا دن ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کے نام سے موسوم کردیا، جب کہ مروہ الشربینی کو ’’شہیدۃ الحجاب‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ تب سے تاحال دنیا بھر میں 4 ستمبر ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کے طور پر ہی منایا جارہا ہے، مگر اِمسال اس دن کی اہمیت یوں دوچند ہوگئی کہ اس برس یہ دن نہ تو محض ایک یوم تک مختص ہے اور نہ ہی صرف اُمتِ مسلمہ کے لیے مخصوص۔ لگ بھگ آٹھ ماہ سے پوری دنیا، پورے تُزک و احتشام کے ساتھ ’’حجاب ڈے‘‘ ہی نہیں منا رہی، اِس دن کے اَن گنت فوائد و فضائل بھی گِنوا رہی ہے۔ ’’رب کی کائنات، رب کی مرضی‘‘ سو، اُس نے اپنی مرضی نافذ کردی ہے۔ اور جب تک اُس کی مرضی ہوگی، اُس کے قواعد و قوانین، اصول و ضوابط ہی نافذالعمل رہیں گے کہ رب چاہے تو اِک دکھائی نہ دینے والے، مہین سے وائرس کے ذریعے بھی پوری دنیا کو اس کی اوقات یاد دلادے۔

کہاں تو مسلمان بچیّوں کے ساتر لباس آنکھوں میںکھٹکتے تھے۔ گز، ڈیڑھ گز کے حجاب سے ایسی تکلیف تھی کہ اُس کے خلاف قانون سازیاں ہورہی تھیں۔ راہ چلتی بچیّوں، خواتین کے حجاب، نقاب نوچے جاتے تھے اور کہاں خواتین تو دُور، مَردوں کو گلوَز، ماسک، پہننے پڑ گئے، بلکہ ہاتھ، چہرے ہی نہیں چُھپانے پڑے، گھروں میں قیدِ تنہائی، نظر بندی عرفِ عام میں قرنطینہ (لاک ڈائون) کی باقاعدہ سزا کاٹنی پڑگئی۔ کیا اب بھی کسی کو احکاماتِ الٰہی کی مصلحتوں، حکمتوں میںکوئی شک رہ گیا ہے۔

’’سادہ طرزِ زندگی اختیار کریں، صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں، حلال کھائیں، غیرضروری طور پر گھروں سے نہ نکلیں، میل ملاقات میںاحتیاط برتیں اور جسم، خصوصاً چہرہ ڈھانپ کے رکھیں‘‘ یہی احتیاطی تدابیر ہیںناں کورونا وائرس سے بچائو کی، تو دینِ اسلام کی تو بنیادی تعلیمات ہی یہی ہیں۔ مانا کہ عالم گیر وبا کی زَد میں ہم بھی ہیں، لیکن اپنی بداعمالیوں ہی کے سبب، ہم نے اگر اپنے دین کے نصف (صفائی نصف ایمان ہے) ہی کو اپنالیا ہوتا، تو آج ہمارا حال دنیا کے دیگر ممالک سے مختلف ہوسکتا تھا، مگر پھر بھی الحمدللہ، ثم الحمدللہ، ہنوز ہم پر مالکِ ارض و مکاں، ربّ دو جہاں کا خاص کرم اور عنایت ہے، یا ہم میںموجود کچھ نیکوکاروں کے اعمالِ صالح اور دل سے نکلی دُعائوں کا نتیجہ ہے کہ ہمیں دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت کم ہی نقصان اُٹھانا پڑا۔

دینِ اسلام میںحیا داری کا حُکم صرف عورت ہی کے لیے نہیں، مَردوں کو بھی شرم و حیا قائم رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ مثلاً سورئہ نُور اور سورۃ الاحزاب میں اگر عورتوں کے لیے تاکید فرمائی گئی کہ ’’اے نبیﷺ!مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اپنی عِصمتوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت دکھاتی نہ پھریں، بجز اُس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔‘‘ (سورئہ نور) اور اے محمّدﷺ !اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے، تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔‘‘ (سورۃ الاحزاب) تو سورئہ نور میںمَردوں کے لیے بھی حُکم ہے ’’مسلمان مَردوں سے کہو، اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی اُن کے لیے پاکیزگی ہے۔ لوگ جو کچھ کریں، اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔‘‘ اسی طرح شرم و حیا، عِصمت و عفّت سے متعلق بلا تخصیص کئی احادیثِ مبارکہ ﷺ بھی موجود ہیں۔ جیسے ’’بے ہودگی جس چیز میںبھی ہوگی، اُسے عیب دار اور ناقص کردے گی، جب کہ حیا جس شئے میں بھی ہوگی، اُسے خُوب صُورت اور کامل بنادے گی۔‘‘ (ترمذی) شرم و حیا اور بُری باتوں سے گریز ایمان کی شاخیں اور بے ہودگی، فضول گفتگو نفاق کی شاخیں ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ المابیح) اور ’’حیا جزوِ ایمان ہے‘‘ ، ’’مومن بےحیا نہیں ہوتا‘‘، ’’حیا کی صفت صرف بہتری لاتی ہے‘‘ اور یہ کہ ’’جب تم حیا نہ کرو، تو جو جی چاہے کرو۔‘‘ (صحیح مسلم) مطلب یہ کہ شرم و حیا دینِ اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے اور اس پر مردو عورت دونوں ہی کے ایمان کی عمارت کھڑی ہے۔

خود محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺکنواری، پردہ نشیں عورت سے بھی کہیں زیادہ حیا دار تھے۔ مگر عورت کے لیے حجاب و پردے کی خصوصی تاکید کچھ یوں بھی ہے کہ عورت کے تو معنی ہی ’’چُھپی ہوئی، پوشیدہ، مخفی، مستور‘‘ کے ہیں۔ جیسے سیپ میںبند موتی، کوئی درّنایاب، مروارید۔ اور اِک عورت ہی کیا، دنیا کی ہر قیمتی شے کو کسی نہ کسی طور مستور و مخفی، محفوظ و مامون رکھنے کی کوشش ہی کی جاتی ہے۔ کبھی زرتار، ریشمی غلافوں میں لپیٹ کے، تو کبھی مخملیں دُرج میں سنبھال کے۔

جیسے زر و جواہر، لعل و گہر کو کبھی کسی نے پیروں میں رُلتے نہیں دیکھا(سنگ ریزے ہی ٹھوکروں پر ہوتے ہیں) ہرعزت و توقیر والی چیز کو پردے میں رکھا جاتا ہے، اِسی طرح عورت بھی کسی طور شمعِ محفل بننے کے لیے تخلیق نہیں کی گئی۔ اُس کا اپنا ایک مقام و رُتبہ، وقار و احترام، قدر و منزلت، جاہ وجلال ہے۔ وہ ہے ناں ؎ خمیر میرا اٹُھا وفا سے.....وجود میرا فقط حیا سے۔ اور ؎ سیرت میںہے جو حُسن، وہ صُورت میںنہیںہے.....پاکیزگئی شرم و حیا اور ہی کچھ ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ ؎ اُن کے رُخ پر حجاب رہتا ہے.....جیسے مہہ پر سحاب رہتا ہے۔ تو، عورت کا ساتر لباس ہی اُس کی شناخت و زیبائش اور شرم و حیا ہی بہترین زیور و آرایش ہے۔

تب ہی تو روبینہ فرید نے بھی اس موضوع پر اتنی اُجلی و پاکیزہ اور ایک مکمل سی نظم لکھی کہ ؎ مَیں حُکمِ ربّ پہ نازاں ہوں، مجھے مسرور رہنے دو.....ردَا ہے یہ تحفّظ کی مجھے مستور رہنے دو.....مثالِ سیپ میں موتی، مجھے ربّ قیمتی سمجھے۔ مجھے اپنی قدر افزائی پہ مغرور رہنے دو.....زمانے کی نظر گہنا نہ دے، پاکیزگی میری.....حیا کے لعل و گوہر سے مجھے پُرنور رہنے دو۔ نہیںمحتاج میری ذات مصنوعی سہاروں کی.....حیا کی پاس داری سے مثالِ حُور رہنے دو.....مِرے سر پہ جو چادر ہے، مِرے ایمان کا سایہ.....اِسی سائے کی ٹھنڈک سے ہر اِک غم دُور رہنے دو۔

تو لیجیے، ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کی مناسبت سے یہ ایک چھوٹی سی بزم بطورِ نذرانہ قبول کیجیے۔ ویسے اس دن کو محض حجاب ڈے کے طور پر نہیں، ’’عالمی یومِ حیا‘‘ کے طورپر منانا چاہیے کہ دنیا بھر کی باحیا، باکردار، باحجاب، باپردہ اور عفّت مآب مائوں، بہنوں، بیٹیوں کو تو اپنے لیے ساتر و پوتّر پوشاک کے انتخاب کی اجازت ہونی ہی چاہیے، مَردوں کو بھی اپنے کردار و نگاہ کی حفاظت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کہ جب تک یہ عمل دو طرفہ نہیں ہوگا، پورا معاشرہ شرم و حیا کی عملی تفسیر بن کے سدھار کی جانب گامزن نہیںہوسکتا۔

ہماری دُعا ہے کہ شرم و لاج، حجاب و حیا کی خوشبو کا یہ سفر رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے، خصوصاً اب اس عالم گیر وبا کے بعد تو دنیا کو ایک یک سر تبدیل شدہ دنیا کے رُوپ میں اپنے ہر ہر سابقہ قول و فعل کا ایک بار تو ضرور ہی جائزہ لینا، محاسبہ کرنا چاہیے۔