پنجابی فلموں کی خوبصورت ہیروئن ’’فردوس‘‘

September 01, 2020

60ءکی دہائی میں پنجابی سنیما پر نیلو، شیریں اور نغمہ کی اجارہ داری قائم تھی۔ حبیب ، اعجاز ، سدھیر اور یوسف خان کے ساتھ زیادہ تر ان ہی ہیروئنز کو کاسٹ کیا جاتاتھا۔ ہدایت کار اسلم ایرانی نے اپنی پنجابی فلم ’’مفت بر‘‘ میں ایک کورس گیت کی فلم بندی میں کوثر پروین نامی خوب صورت ایکسٹرا کو دیکھا۔ بعد ازاں کوثر پروین کو اپنی فلم ’’فانوس‘‘ کے ایک کورس گیت میں بہ طور ایکسٹرا رقاصہ کے شامل کرلیا اور انہیں ’’فردوس‘‘ کا نام دیا۔ ہدایت کار منشی دل کی جزوی رنگین کاسٹیوم فلم ’’گل بکائولی‘‘ میں بھی فردوس بہ طور ایکسٹرا شامل ہوگئی اور ’’گل بکائولی‘‘ کی ریلیز ’’مفت بر‘‘ اور ’’فانوس‘‘ سے قبل عمل میں آئی۔ ہدایت کار ریاض احمد کی سوشل ایکشن فلم ’’خاندان‘‘ جس میں انہوں نے اکمل کی گینگ سے جڑی ایک ایجنٹ لڑکی کا کردار ادا کیا۔

جعفری بخاری کی ’’ہیرسیال‘‘ میں وہ ہیر بنیں اور اکمل ان کے رانجھا بنے۔’’ ناچے ناگن ناچے بین‘‘ میں وہ محمد علی کی ہیروئن تھیں،لیکن اس فلم کی ریلیز تک ان کے حصے میں چندسلور جوبلی کی حد تک کام یاب فلمیں تو آئیں، لیکن ’’فرودس‘‘ جس بڑے بریک تھرو کی منتظر تھیں، وہ انہیں رشید اختر کی معرکتہ آلارا پنجابی فلم ’’ملنگی‘‘ 1966ء کی وساطت سے ملا۔ شباب کیرانوی کی ’’وطن کا سپاہی‘‘ میں وہ محمد علی کی ہیروئن بنیں۔ یہ فلم پاک بھارت جنگ کے موضوع پر مبنی تھی۔ اسی سال یعنی 66ء میں شیخ حسین کی ’’جاگ اُٹھا انسان‘‘ میں گوکہ فردوس ساتھی فن کارہ تھیں، لیکن ان کا کردار بہت جان دار تھا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کا کردار تھا، جسے مسلمان مجاہد قادو مکرانی کو گرفتار کروانے کا مشن سونپا جاتا ہے۔1967ء کی ریلیز ہدایت کار شباب کیرانوی کی ’’انسانیت‘‘ کو ہم فردوس کا بڑا فنی بریک تھرو کہہ سکتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ فلم کی ہیروئن نہیں، سپورٹنگ آرٹسٹ تھیں۔ یہ ایک پگلی لڑکی کا رول تھا۔

ایک جوان خوب صورت اور بے ضرر پگلی۔ ہاتھ میں پلاسٹک کی گڑیا تھامے ایک ہاسپٹل کے مختلف وارڈز میں گاتی گنگناتی پھرتی ہے۔ اس فلم کا گیت ’’محبت میں سارا جہاں جل گیا ہے‘‘ بہت مقول ہوا۔ فلم ساز شیخ نذیر حسین کی لوک رومانی داستان پر مبنی فلم ’’مرزا جٹ‘‘ جسے مسعود پرویز نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ اعجاز اور فردوس کی عمدہ کردار نگاری کے سبب باکس آفس پر ہٹ ہوئی تو ایک طرف تو فردوس اور اعجاز کا پیئر مقبول ہوا، تو دوسری جانب شیخ نذیر نے اپنی آئندہ کی فلموں کے لیے فردوس ہی کو ہیروئن چن لیا۔ مظفر برکی نے ’’لہو پکارے گا‘‘ میں فردوس کو سنتوش کی ہیروئن بنا دیا۔ لیکن ’’لہو پکارے گا‘‘ کی ناکامی کے بعد پھر کسی نے اس پیئر پر مشتمل کبھی کوئی فلم بنانے کی کوشش نہیں کی۔ 1968ء میں فردوس کی اداکاری سے آراستہ کام یاب فلموں میں ایس اے بخاری کی ’’پگڑی سنبھال جٹا‘‘۔ ایم جے رانا کی ’’بائوجی‘‘ نمایاں کام یاب رہیں،جب کہ 68ء ہی میں پاکستان کی پہلی کلر پنجابی فلم جو ریلیز ہوئی،اس کا نام ’’پنج دریا‘‘ تھا اور اس کی ہیروئن ہونے کا اعزاز بھی فردوس کے حصے میں آیا۔

1969ء میں ان کی مختلف ہیروز مثلاً حبیب، اعجاز اور سدھیر کے ساتھ جن فلموں نے کام یابی حاصل کی، ان میں ’’چن ویر‘‘، ’’عشق نہ پوچھے ذات‘‘ اور ’’شیراں دے پتر شیر‘‘ شامل تھیں، لیکن ان سب سے بڑھ کر ایک نیا سنگ میل عبور کرنے والی فلم ’’دلاں دے سودے‘‘ تھی کہ جس نے کراچی سرکٹ میں مثالی بزنس کرتے ہوئے پہلی پنجابی گولڈن جوبلی فلم کا اعزاز اپنے نام کیا۔

فردوس کی کردار نگاری کے تناظر میں بھی یہ ایک اہم فلم تھی، جس میں ان کا کردار ایک ایسی طوائف کا تھا جو بازار کی زندگی سے متنفر ہے اور کسی ایسے تماشبین کو اس کی نگاہیں تلاش کرتی ہیں کہ جو اُسے عزت کی زندگی دے سکے۔ 1970ء فردوس کے فنی عروج اور باکس آفس پر غیر معمولی کام یابیوں کے حصول کا سال تھا۔ فلموں کی تعداد کے اعتبار سے بھی یہ ان کی بھرپور مصروفیات کا سال رہا۔وحید ڈار کی شاہ کار تخلیق ’’ماں پتر‘‘ میں وہ سدھیر کی ہیروئن تھیں۔ ’’ماں پتر‘‘ سدھیر، نبیلہ اور افسانہ کی اعلیٰ کردار نگاری، جاندار اسکرپٹ پر مبنی ایک مضبوط ڈائریکشن سے سجی نہایت متاثر کن فلم تھی۔ اسی سال نغمہ اور اعجاز کی ’’انورا‘‘ نے کراچی میں پلاٹینم جوبلی منانے والی پہلی پنجابی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔ فردوس کی فنی زندگی کا سب سے بڑا شاہ کار اور پنجابی فلموں کو دُنیا بھر میں مقبول بنانے والی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ بھی اسی سال منظر عام پر آئی۔

یہ فلم ساز اعجاز درانی، ہدایت کار مسعود پرویز، مصنف نغمہ زاہد احمد راہی، عکاس مسعود الرحمٰن، موسیقار خواجہ خورشید انور اور گلوکاری کے شعبے میں مہدی حسن، منیر حسین، مسعود رانا، مجیب عالم، غلام علی، نسیم بیگم آفرین پروین اور سب سے بڑھ کر ملکہ ترنم کی لافانی گائیکی سے سجے نغمات نے ایک بے مثل شاہ کار فلم بنا دیا۔ اداکاری کے شعبے میں جہاں اعجاز دُرانی نے رانجھا، اجمل خان نے چچا کیدو منور ظریف نے سیدا کھیڑا اور زمرد نے سہتی کے کرداروں میں انمٹ رنگ بھرے ، وہیں فردوس بیگم نے ہیر کے کردار کو اپنے دلکش سراپا، آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے حُسن کے ساتھ ساتھ نہایت اعلیٰ کردار نگاری سے اس ہیر کو جو ہم نے ’’وارث شاہ‘‘ میں پڑھی اور سُنی تھی، جس کا سراپا جس کے نقوش محض تصور اور تخیل کی اسکرین پر دیکھے اور سوچے تھے۔

فردوس نے اپنی لازوال کردار نگاری سے مجسم جیتا جاگتا کردار کے قالب میں سمو دیا۔ فردوس نے اس کردار کو کچھ اس قدر رچائو سے ادا کیا کہ اب ہم وارث شاہ کی ہیر کو اگر پڑھتے اور سنتے ہیں تو ہیر کے خاکے میں ہیر رانجھا والی فردوس کے نقوش ان کا سراپا جگمگانے لگتا ہے۔ اس امر کردار کی ادائیگی پر فردوس بیگم کو 1970ء کی بہترین پنجابی اداکارہ کا نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ’’ہیر رانجھا‘‘ کی تکمیل کے دوران فردوس اور ملکہ ترنم نور جہاں کے اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ ’’ہیررانجھا‘‘ کے بعد نور جہاں نے فردوس کے لیے فلموں میں پلے بیک سونگ دینے سے انکار کر دیا، جس کا نقصان فردوس کو یوں پہنچا کہ فردوس کو نئی فلموں کے معاہدے کم ملنے لگے۔ ان کے پاس پہلے سے بہت سی فلموں کے ایگریمنٹس موجود تھے، جس کے باعث وہ اگلے تین چار برسوں تک خاصی مصروف رہیں۔ ان کی کام یابیوں کا تسلسل بھی جاری رہا۔

1976ء میں ان کی غیر معمولی کردار نگاری سے آراستہ ایس اے بخاری کی ڈرامائی اردو فلم ’’انسو‘‘ منظر عام پر آئی۔ تو فردوس نے فلمی مبصرین اور ناقدین کو حیران کردیا ، کیوں کہ ایک تو وہ روایتی ہیروئن سے قطعی مختلف کردار میں سامنے آئیں، جوکہ فلم کے ہیرو ندیم اور سیکنڈ ہیرو شاہد کی ماں کا رول تھا۔ انہوں نے بے شمار فلموں میں کام کیا۔ ان کی اداکاری کا پہلا دور 1961ء سے شروع ہوکر 1975ء میں اختتام پذیر ہوا۔ چند سال کے وقفے کے بعد انہوں نے اولڈ کرداروں کی قبولیت کے ساتھ دوسرے فیز میں قدم رکھا،لیکن سوائے ’’وڈیرا‘‘ کے ان کے حصے میں پھر کوئی قابل ذکر پرفارمنس کی حاصل فلم نہ آسکی۔ فردوس بیگم نے تین شادیاں کیں۔ پہلی اکمل سے دوسری اعجاز درانی سے اور تیسری فلم ساز شیخ نذیر حسین سے۔ ان دِنوں وہ لاہور میں خوش گوار گھریلو زندگی گزار رہی ہیں۔ گوکہ وہ فلم نگری چھوڑ کر اپنے فین فالورز سے دور ہیں، لیکن فلمی شائقین انہیں آج بھی یاد کرتے ہیں۔