جنوبی پنجاب: نئے صوبے کی آوازیں پھر اُٹھنے لگیں

August 27, 2020

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت ملتان سے تحریک انصاف کے اکثر ارکان اسمبلی اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا مرکز ملتان میں ہی ہوگا، گزشتہ دنوں وزیر توانائی پنجاب ڈاکٹر اختر ملک نے ارکان اسمبلی اور ملتان کی انتظامیہ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس بھی کی ،جس میں یہ دعویٰ کیا کہ جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ ہر صورت ملتان بنے گا اور اس بارے میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔

جب وہ یہ پریس کانفرنس کر رہے تھے تو اسی دوران یہ خبریں سامنے آ چکی تھیں کہ ملتان میں پچھلے 27 برسوں سے قائم پاک پی ڈبلیو ڈی کا ریجنل دفتر جس کے لیے ملتان میں 9 کروڑ روپے سے زائد لاگت سے ایک شاندار عمارت بھی تعمیر کی جا چکی ہے وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ کے حکم سے بہاولپور منتقل کر دیا گیا ہے اور اس کے بارے میں باقاعدہ عجلت میں نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا گیا، کیونکہ پی ڈبلیو ڈی کے دفاتر نئی عمارت میں منتقل کیے جانے کا مرحلہ آگیا تھا حیران کن امر یہ ہے کہ اس پر تحریک انصاف کے بڑے رہنماؤں کی طرف سے کوئی احتجاج نہیں کیا گیا، جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ اندر خانے ایسے معاملات طے پا چکے ہیں کہ جن کے تحت صرف لیپا پوتی کے لیے یہ بیانات داغے جا رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب کا صدر دفتر ملتان ہوگا، اندر سے سے اعلی سطح کے فیصلے ہو چکے ہیں کہ سیکرٹریٹ بہاول پورمیں قائم ہوگا اور تمام ذیلی محکمے بھی بہاولپور منتقل کر دیئے جائیں گے جس کی شروعات پی ڈبلیو ڈی کے دفاتر کی بہاولپور منتقلی سے ہوچکی ہے۔

اس بارے میں صرف تحریک انصاف کے ایم این احمد حسین ڈیہڑ نے آواز اٹھائی ہے اور اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ ملتان کے قد آور سیاستدان( ان کا اشارہ شاہ محمود قریشی کی طرف تھا ) اس اہم معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں،حالانکہ جو دفتر پچھلے 27 برسوں سے ملتان میں کام کر رہا ہے، اس کی اچانک بہاول پور منتقلی سمجھ سے بالاتر ہے، یہ ملتان کی مرکزیت کو ختم کرنے کی ایک سازش ہے جس میں ملتان کے اپنے نمائندے شامل ہو چکے ہیں، احمد حسین ڈیہڑنے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے بھی رجوع کرلیا ہے اور اور اپنی رٹ پٹیشن میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ملتان میں قائم ایک قدیمی دفتر کو بلاجواز اور بلا استحقاق ملتان سے بہاولپور منتقل کر دیا گیا ہے۔

ایسے فیصلے کابینہ کی منظوری کے بغیر نہیں کئے جا سکتے ہیں ایک فردِ واحد نے ذاتی مقاصد کے لیے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کی اپنی نو تعمیر شدہ عمارت کو چھوڑ کر بہاول پورمیں ایک کرائے کی عمارت لے کر اس محکمہ کو شفٹ کیا ہے جو نہ صرف 9 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی عمارت کا ضیاع ہے بلکہ کرائے کی مد میں حکومتی خزانے پر ایک نیا بوجھ بھی ہے ،ادھر ایک بیان میں ایم این اے احمد حسین ڈیہڑ نے تحریک انصاف کی مقامی نمائندوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو ان سے امیدتھی کہ وہ ملتان سے منسوب اس بڑے محکمے کو بہاولپور منتقل کرنے کے خلاف آواز اٹھائیں گے، مگر ان کی مجرمانہ خاموشی نے انہیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ کھل کر میدان میں آئیں اور ملتان کا حق چھیننے کی اس کوشش کو ناکام بنا دیں ،یاد رہے کہ احمد حسین ڈیہڑ اس سے پہلے بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر سنگین الزامات لگا چکے ہیں اور انہوں نے اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے یہ تک کہہ رکھا ہے کہ انہوں نے ملتان کا مقدمہ اپنے ذاتی مقاصد کے لئے ہارا ہے اور ملتان کے بارے میں آواز اٹھانے کی بجائے مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے اہل ملتان کی امنگوں کا خون کیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلہ پراحمدحسین ڈیہڑ کے علاوہ اور کون کون آواز اٹھاتا ہے، لیکن صرف یہی ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ جب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جنوبی پنجاب کا سیکریڑیٹ ملتان کی بجائے بہاول پور میں قائم کردیا گیا ہے ہے ملتان کے عوام اور سیاسی و سماجی حلقوں میں ایک واضح بے چینی محسوس کی جا سکتی ہے خاص طور پر سرائیکی قوم پرست جماعتوں نے اس فیصلہ کوپوری شدت کے ساتھ مسترد کر دیا ہے اور جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں ان کے مظاہرے جاری ہیں جن میں حکومت پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اس فیصلے کو واپس لے اور ملتان کی مرکزیت کو تقسیم کرنے کی کوشش سے باز آجائے، جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو بھی سرے سے مسترد کیا جا رہا ہے اور یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ سیکرٹریٹ کی بجائے علیحدہ صوبہ بنایا جائے، ملتان کی سیاست اس مسئلہ کے گرد گھوم رہی ہے۔

ادھر ایڈیشنل چیف سیکرٹری جب سے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا ہے وہ ایک دن بھی ملتان میں نہیں بیٹھےاور ان کا سارا وقت بہاول پورمیں گزر رہا ہے، اب پنجاب حکومت نے مختلف محکموں کے یڈیشنل سیکرٹریز کو تعینات کرتے ہوئے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لیے بھیجا ہے، ظاہر ہے کہ وہ اپنے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے ساتھ بیٹھیں گے ، یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی ملتان نہیں آیا، البتہ صرف ایڈیشنل آئی جی انعام غنی گاہے بگاہے ملتان کا دورہ کرتے ہیں، اس بات پر بھی شدید تنقید ہو رہی ہے کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنانے کے باوجود یوم آزادی پر کوئی مرکزی تقریب منعقد کی گئی، تمام اضلاع اور ڈویژنوں میں سرکاری افسران نے پہلے کی طرح تقریبات منائیں ، سوال یہ ہے کہ اگر علیحدہ سیکرٹریٹ دیاگیا ہے تو پھر ایک مرکزی تقریب کیوں نہیں منعقد کی گئی ،جس میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری ،ایڈیشنل آئی جی سمیت جنوبی پنجاب میں تعینات کئے گئے تمام ایڈیشنل سیکریٹریز شرکت کرتے اور عوام کو پیغام ملتا ،کہ ان کے لئے علیحدہ سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں آچکا ہے، یہ بات بھی اس حقیقت کو مشکوک بناتی ہے کہ جنوبی پنجاب کا خود مختار سیکرٹریٹ فعال ہو گیا ہے۔

یہ سب باتیں ملتان کی عوام کو خاص طور پر پر ایک بڑے ابہام میں مبتلا کیے ہوئے ہیں ،تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے دعوے دیکھیں، تو یوں لگتا ہے کہ جیسے جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ ملتان میں ہی قائم ہوا ہے مگر جب عوام حقیقت پر نظر ڈالتے ہیں تو انہیں دور دور تک یہ شائبہ تک نظر نہیں آتا کہ جسے وہ اس حقیقت کا آئینہ دار سمجھ سکیں ،سوال یہ ہے کہ اس بات کو کیوں مخفی رکھا جارہا ہے ،صاف صاف کیوں نہیں بتایا جاتا کہ سیاسی مصلحتوں کے تحت جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ بہاولپور میں بنا دیا گیا ہے اور ملتان والوں کو بھی اپنے کام کرنے کے لیے بہاول پورجانا پڑےگا ۔

ادھر جب سے مریم نواز شریف کی پیشی پر لاہور میں مسلم لیگی کارکنوں کا پولیس سے تصادم ہوا ہے ملتان کے لیگی حلقوں میں بھی یہ جوش و جذبہ پایا جاتا ہے کہ آئندہ اگر نیب نے مریم نواز کو بلایا، تو اس وقت ملتان سے بھی کارکنوں کے قافلے لاہور پہنچیں گے ،اس سے پہلے پیپلزپارٹی نے بھی یہ کال دی تھی کہ جب آصف علی زرداری اسلام آباد نیب کے سامنے پیش ہوں گے تو کارکن اس موقع پر ان سے اظہار یکجہتی کے لیے جائیں گے اور ایسا ہوا بھی ۔جبکہ سینئر مسلم لیگی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے مریم نواز کی پیشی کے موقع پر نیب دفاتر کے باہر کارکنوں پر پولیس تشدد کو فسطائیت قرار دیتے ہوئے شدید الفاظ میں تنقید کی۔