سندھ کی ترقی کیلئے سب کو ایک ہونا ہوگا

August 27, 2020

بظاہر کراچی کے مسائل پر سندھ حکومت، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کو ایک پیج پر لانے کی کوشیش کی گئی ہیں اور ان تینوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور بھی ہو چکے ہیں تاہم فریقین برملا اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ کراچی کے مسائل کے حوالے سے بنیادی باتوں پرہی اتفاق نہیں ہو سکا اور نا ہی بلدیاتی ڈھانچے کی تبدیلی کی جانب پیش رفت ہو سکی ہے فریقین کے بیانات میں بھی ابھی تک ہم آہنگی نہیں بلکہ تضاد موجود ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کسی نادیدہ قوت نے تینوں جماعتوں کو کراچی کے مسائل کے حل کے حوالے سے مشترکہ کام کرنے اور حکمت عملی ترتیب دینے کی ہدایت کی ہے۔ 2008میں بھی سیاسی جماعتوں کی ایک ایسی تکون بنائی گئی تھی جس کے دور رس نتائج نہیں نکل سکے تھے۔

اس کولیشن سے قبل کراچی کو وفاق کے زیر انتظام دینے کی باتیں ہو رہی تھی اور قانونی پہلوئوں کا جائزہ بھی لیا جا رہا تھا جبکہ دوسری جانب پی پی پی، حکومتی اتحادی جماعت جی ڈی اے، جے یو آئی کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی سخت مخالف تھیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکیوٹو کمیٹی کا اجلاس بلاول ہاوَس کراچی میں ہوا، جس کی صدارت پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری نے مشترکہ طور پر کی۔ بلاول بھٹو زرداری پارٹی کے دیگر رہنماوَں کے ساتھ اجلاس میں شریک ہوئے، جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس میں حصہ لیا۔

سید قائم علی شاہ، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، میاں رضا ربانی، لطیف کھوسہ، شیری رحمن، سید نوید قمر، نفیسہ شاہ ہمایوں خان، شازیہ مری، نواب یوسف تالپور، سعید غنی، جمیل سومرو، صادق عمرانی، وقار مہدی، ناصر حسین شاہ، منظور حسین وسان اور پیر مظہر الحق اجلاس میں شریک ہوئے، جبکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، نیئر حسین بخاری، فرحت اللہ بابر، فریال تالپور، فاروق ایچ نائک، قمر زمان کائرہ، علی مدد جتک، چودھری منظور، حیدر زمان قریشی، اعظم خان آفریدی، مخدوم جمیل الزمان، مولا بخش چانڈیو، نثار احمد کھڑو، چودھری لطیف اکبر، امجد اظہر ایڈووکیٹ نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں حصہ لیا۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میاں رضا ربانی نے کہا کہ وہ خواب پورا نہیں ہوگا کہ کراچی کا ریوینیو اسلام آباد استعمال کرسکے، کیونکہ کراچی سندھ کا حصہ ہے، جس دن سے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بنی ہے، تب سے پی ٹی آئی کبھی گورنر راج کی بات کرتی ہے تو کبھی کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی بات کرتی ہے۔

پی ٹی آئی آئین میں موجود وفاقی تصور کو تسلیم نہیں کرتی۔ کراچی کو وفاق کے ماتحت بنانا سینٹرلائیزیشن کرنے کے مترادف ہے۔ پی ٹی آئی پاکستان کو 1962 والے آئیں کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ 1962 کے آئین میں کابینہ پارلمان کو جوابدہ نہیں تھی۔ اس وقت بھی یہ لوگ پارلیمان کو جوابدہ نہیں ہیں کیونکہ اسپیشل اسسٹنٹس پارلیمان نہیں آتے اور 18 سے زائد آفراد کابینہ میں ایسے ہیں جن کے پاس وزراء کے اختیارات ہیں۔ اور وہ پارلیمان کو جوابدہ نہیں کراچی کے مسائل کا حل اور انتظام سندھ حکوت کی ذمہ داری ہے۔ کراچی کے مسائل کو پیپلز پارٹی احسن طریقے سے حل کرے گی۔ کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی سازش پرانی ہے۔

کراچی کے روینیو کو اسلام آباد استعمال کرنا چاہتا ہے سندھ کے عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔ رضا ربانی نے کہا کہ پارٹی جمہوری قوتوں سے روابط بڑھائے گی اور پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جمہوری جماعتیں اور سول سوسائٹی اراکین سے ملاقات کریں گے، مزدور سول سوسائٹی سے بھی راوبط بڑھائے جائیں گے اس سے قبل پی پی پی کراچی کو سندھ سے الگ کرنے پر لانگ مارچ کا بھی عندیہ دے چکی ہی دوسری جانب پی ٹی آئی کراچی کے صدر خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ مشاورتی کیمٹی کی تشکیل کراچی کی ترقی کے لئے پی پی کو ایک اور موقع دیا ہے پی پی کے پاس آخری آپشن پھر وفاق اپنے آپشن استعمال کرے گا۔

صوبائی مشاورتی کمیٹی کی تشکیل کراچی کے عوام کے مفاد میں ہے، سندھ حکومت کے پاس موقع ہے کہ وہ کراچی کے حالات بدلے، ورنہ پی ٹی آئی ہر وہ راستہ اختیار کرے گی جو عوام کے مفاد میں ہوگا، خرم شیر زمان کے بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی پی پی کو اس مشاورتی کیمٹی میں بادل نخواستہ بھیٹنا پڑا ہے جبکہ کیمٹی کے ارکان کے بیانات میں تا دم تحریر تضادات موجود ہے ایک جانب 6رکنی کیمٹی کی تشکیل کی بات کی جاتی ہے تو دوسرا فریق اس کی تردید کر دیتا ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کی کیمٹی کا مینڈیٹ صرف صفائی تک محدود ہے اس سارے عمل سے جماعت اسلامی ، اے این پی ،جے یو آئی ، جے یو پی ،گی ڈی اے ،سنی تحریک ،تحریک لبیک اور دیگر جماعتوں کو باہر رکھا گیا ہے جسکی وجہ سے مشاورتی کیمٹی کو بشتر جماعتوں نے مسترد کر دیا ہے جے یو آئی کے صوبائی جنرل سیکٹری علامہ راشد محمود سومرو کا کہنا ہے کہ ہم کراچی کو کور کمیٹی کے حوالے کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ منتخب حکومت کے ہوتے ہوئے کراچی کو کورکمیٹی کے حوالے کرنا سندھ کی خود مختاری اور سالمیت پر ڈاکہ ہے جس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کو کافی عرصہ سے سندھ سے الگ کرنے کی پس پردہ جو سازشیں جاری تھیں ہم اس عمل کو اسی طرف پیش قدمی سمجھتے ہیں۔ کراچی سندھ کی شہ رگ ہے کراچی کو باقی سندھ سے الگ کرنا سندھ کے عوام سے کھلا مذاق ہے۔ جبکہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا کراچی کے حوالے سے اتحاد مسائل کے حل کیلئے نہیں صرف پوائنٹ اسکورنگ ہے، ایم کیو ایم وفاق میں تحریک انصاف کے ساتھ حکومت میں شریک ہے، 30 سال سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کراچی میں مشترکہ حکومت کررہے ہیں ہمیشہ انہوں نے کراچی کے عوام کا استحصال کیا۔

یہ تینوں جماعتیں کراچی کے مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوگئی ہیں، ان کے پاس کوئی وژن نہیں ہے، یہ جماعتیں سیاسی مفادات کے لئے اب پھر اکٹھا ہوگئی ہیں۔ اگر یہ جماعتیں کراچی کے مسائل کے حل کے لئے کام کریں گی تو جماعت اسلامی بھرپور تعاون کرے گی۔